Topics
آدمی جب نیابت و خلافت کی منزل کی طر ف قدم بڑھا تا ہے تو اس کے اوپر آلام و مصائب کی گر فت ٹوٹ جا تی ہے ۔ خالق کائنات چو نکہ ہر چیز سے بے نیاز اور ہر قسم کے حالات سے ماوراء ہے ۔ اس لئے جب کسی بندے کے اندر خالق کا ئنات کی صفا ت کروٹ بدلتی ہے تو اس کے اوپر وہی کیفیات وارد ہو تی ہیں جو اللہ کی صفات کا تقاضا ہیں ۔ آدم کو اللہ نے اپنے انعام و اکرامات سے نواز کر جنت میں رکھا اور فر ما یا اے آدم !تو اور تیری بیوی جنت میں رہو ، جہاں سے دل چا ہے، خوش ہو کر کھا ؤ لیکن اس درخت کے قریب نہ جا نا ورنہ تمہا را شمار ایسے لوگوں میں ہو گا جو اپنے اوپر ظلم کر تے ہیں ۔ آدم سے صبر نہ ہو سکا اور وہ اللہ کی نا فر ما نی کا مر تکب ہو گیا جیسے ہی آدم نا فر ما نی کا مر تکب ہو ا روشنی کی جگہ تاریکی نے لے لی ۔ خوشی کی جگہ غم چھا گیا ۔ آزادی کی جگہ قیدو بند نے اپنے نیچے گاڑد ئیے اور آدم نہا یت حسرت و یاس میں جنت چھو ڑنے پر مجبور ہو گیا ۔ با وجود اس کے کہ آدم نے اللہ کی نا فر ما نی کی اور جنت جیسی نعمت سے اس نے کفران کیا ۔ اللہ نے اپنی رحیمی اور کریمی کی صفت سے پھر آدم کے اوپر فضل کیا ۔تسخیر کا ئنات سے متعلق اللہ نے جو خزانے عطا فر ما ئے تھے آدم کو ان سے محروم نہیں کیا اور کہا۔
" تمہا را وطن جنت ہے تم جب چا ہو اپنے وطن واپس آسکتے ہو تمہیں صرف یہ کر نا ہے کہ نا فرما نی کے دائرے سے باہر آجا ؤ ۔ ہم اپنے منتخب لوگ بھیجتے رہیں گے۔وہ تمہیں متوجہ کر تے رہیں گے کہ تم ایک عظیم خزانے کے ما لک ہو ہمارے یہ پا کیزہ بندے اس راستے پر چلنے کے لئے تمہارے لئے قاعدے اور ضا بطے بنا ئیں گے تا کہ تم آسانی کے ساتھ اپنے وطن میں داخل ہو جا ؤ ۔ اور یہ جو جنت کے برخلاف تم اسفل سافلین کی زندگی بسر کر رہے ہو یہ تمہارے لئے جیل خانہ ہے ۔اگر تم نے اس زندگی میں اپنے اور جنت کے درمیان پر دے کو نہیں ہٹا یا تو جنت تمہیں واپس نہیں ملے گی ۔"
قدرت نے اپنا کیا ہوا وعدہ پو را کیا اور ظالم ، سر کش ، نافرمان ، نوع انسانی کی ہدا یت کے لئے ایک لا کھ چو بیس ہزار پیغمبر بھیجے اور اپنی سنت قائم رکھنے کے لئے پیغمبروں کے وارث اولیا ء اللہ کا سلسلہ قائم رکھا ۔ ایسا سلسلہ جو قیامت تک جا ری رہے گا ۔
ہر آدمی جو ذرا بھی شعور رکھتا ہے، ہر وقت اس بات کا مشاہدہ کر تا ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ مر رہا ہے ۔ ایک لمحہ مر تا ہے تو دو سرا لمحہ پیدا ہوتا ہے ۔ دن مر تا ہے تو رات پید ا ہو تی ہے ۔ بچپن مر تا ہے تو لڑکپن پیدا ہو تا ہے ۔ لڑکپن مر تا ہے تو جوانی پیدا ہو تی ہے اور جوانی مر تی ہے تو بڑھا پا پیدا ہو تا ہے اور جب بڑھا پا مر تا ہے تو خوبصورت مو رتی کا ایک ایک عضو مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو جا تا ہے ۔
ہڈیاں جس کے اوپر انسانی ڈھا نچے کا دارومدار ہے ، راکھ بن جا تی ہیں۔ دماغ جس پر انسانی عظمت کا دارومدار ہے اور جس دماغ کے اوپر انسان اکڑتا ہے دو سروں کے اوپر ظلم کر تا ہے خود کو خدا کہنے لگتا ہے اس کو بھی مٹی کھا جا تی ہے اور مٹی کے ذرات کے بنے ہو ئے اس جیسے دوسرے انسان اس دماغ کو اپنے پیروں تلے روندتے ہیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔
روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک
کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا
وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ
وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل
کردیتی ہے ۔