Topics

باغیانہ خیالات

س: ہم سب بہن بھائیوں سے چھوٹی ایک بہن ہے۔ اس کی عمر اکیس سال ہے۔ وہ بہت ہی زیادہ ضدی، خود سر اور باغیانہ خیالات رکھتی ہے۔ کسی کا ادب لحاظ نہیں کرتی۔ بہت منہ پھٹ ہے۔ والدین اور ہم سب بہن بھائیوں نے اس کو پیار اور محبت سے ہر اچھے رویے سے زمانے کی اونچ نیچ سمجھائی ہے۔ ڈانٹ کر بھی دیکھا ہے۔ منتیں بھی کر کے دیکھی مگر اس پتھر پر نہ ماں کے آنسوؤں کا اثر ہوتا ہے اور نہ بوڑھے والد کی منتوں اور خوشامد کا۔ اس سے بولنا بھی ترک کر دیا مگر اس کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اگر کسی غلط بات پر ٹوکا جاتا ہے تو وہ سال سال تک نہیں بولتی ہے۔ آخر ہم لوگوں ہی کو جھکنا پڑتا ہے۔ آخر اپنا خون ہے۔ ہمارے دل میں اس کا خیال اور پیار ہوتا ہے مگر وہ سب سے بیگانہ رہتی ہے۔ بہن بھائیوں میں سے کسی کو یا والدین کو کچھ ہو جائے وہ ہمدردی کا ایک لفظ نہیں بولتی۔ گھر کا کوئی کام نہیں کرتی۔ کوئی مہمان آئے، کوئی رشتہ دار آئے اس کو کسی کا لحاظ نہیں۔ میرے والدین بہت دکھی ہو چکے ہیں۔ رہ رہ کر ہم سب کو یہی خیال آتا ہے۔ اول تو ابھی رشتہ نہیں آ رہا۔ اگر اپنے گھر کی ہو گئی تو آگے گزارہ کیسے ہو گا۔ عظیمی صاحب! بڑے بھائی کی تو وہ جان کی دشمن ہو گئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ غیر مند بھائی ہونے کے ناطے سے وہ اس کو فضول فیشن کرنے اور ادھر چھت پر کھڑے ہونے سے روکتا ہے۔ وہ باہر نکلتا ہے، لوگوں کی باتیں سنتا ہے مگر مجال ہے جو اس کی بات مان جائے یا باپ کی عزت کا خیال کر جائے۔ سال ہونے کو ہے بھائی سے نہیں بولتی۔ زیادہ ڈانٹ کر کہیں تو دو دفعہ خود کشی کرنے کی کوشش کر چکی ہے۔ مشکل سے بچی۔ ہم آ خر کیا کریں، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ سخت پریشانی ہے۔

ج: گیارہ مرتبہ یا ودود پڑھ کر گھر میں اس مٹکے میں دم کر دیں جس میں سب گھر والے پانی پیتے ہیں۔ یہ عمل سورج نکلنے سے پہلے کریں، 90روز تک کریں بعد از نماز عصر اول آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ 11مرتبہ سورہ کوثر پڑھ کر بہن کا تصور کر کے پھونک مار کر دعا کریں۔ اس عمل کو 90یوم تک کریں۔


Topics


روحانی ڈاک ۔ جلد سوم

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔


انتساب

ہر انسان کے اوپر روشنیوں کا ایک اور جسم ہے جو مادی گوشت پوست کے جسم کو متحرک رکھتا ہے۔ اگریہ روشنیوں کا جسم نہ ہو تو آدمی مر جاتا ہے اور مادی جسم مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو کر مٹی بن جاتا ہے۔

جتنی بیماریاں، پریشانیاں اس دنیا میں موجود ہیں وہ سب روشنیوں کے اس جسم کے بیمار ہونے سے ہوتی ہیں۔ یہ جسم صحت مند ہوتا ہے آدمی بھی صحت مند رہتا ہے۔ اس جسم کی صحت مندی کے لئے بہترین نسخہ اللہ کا ذکر ہے۔

*****