Topics

معاشرہ کی ایک تصویر

سوال: یہ میرا ہی مسئلہ نہیں بلکہ میرے سارے گھر والوں کا ہے۔ اس مسئلہ کی وجہ سے ہم سب کی زندگی معطل ہو چکی ہے۔ ایک سال قبل والد صاحب نے ملازمت چھوڑ دی۔ میں کتابوں کی جلد بندی کر کے اپنا اور تھوڑا بہت گھر کا خرچ چلاتا ہوں اور میری بہن بچوں کو پڑھا کر خرچ چلاتی ہے۔ والدصاحب کا یہ عالم ہے کہ بات بات پر جھڑکتے ہیں۔ بات بات پر غصہ ہوتے ہیں۔ کئی کئی روز بات نہیں کرتے۔ بڑے بھائی ہاتھ پاؤں سے معذور ہیں۔ بچپن میں ان پر فالج کا حملہ ہوا تھا جس کے بعد وہ ٹھیک نہ ہو سکے۔ یقین جانئے اس دنیا سے دل اٹھ چکا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ خدا یہ زندگی واپس لے لے۔ والد صاحب کو نہ تو بڑے بھائیوں کا خیال ہے اور نہ ہی بیٹیوں کی شادی کا خیال آتا ہے۔ اگر انہیں کام کے لئے کہا جائے تو کہتے ہیں کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔ مجھ میں ہمت نہیں ہے ویسے ان کی عمر 52سال ہے۔

بعض اوقات ہم سوچتے ہیں کہ شاید ہم سے کوئی گستاخی ہو گئی ہے۔ جس کی سزا ہمیں مل رہی ہے۔ وہ ہم سب کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ امی جان کو منحوس کہتے ہیں خود سارا دن سوتے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنے سگریٹوں کے پیسے بھی ہم سے لیتے ہیں۔ تمام رشتہ داروں سے تعلقات منقطع کر رکھے ہیں۔ نہ تو خود ملتے ہیں اور نہ ہم کو ان سے ملنے دیتے ہیں۔ ہر ایک کو شک کی نگاہ سے دیکھنا اور بات بات پر ہر کسی کو گالی دینا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ ہم کرایہ پر رہتے ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں۔ اپنے والدین پر بوجھ بھی نہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود والدصاحب ہم سے ناخوش رہتے ہیں اور ہمارے ساتھ شفقت سے پیش نہیں آتے۔ جب کسی غیر سے باتیں کرتے ہیں تو بہت بڑے اسکالر معلوم ہوتے ہیں۔

جواب: عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد گیارہ گیارہ مرتبہ اول و آخر درود شریف کے ساتھ 300مرتبہ یا وہاب پڑھ کر حالات سازگار ہونے کی دعا کریں۔ فجر کی نماز کے بعد سورج نکلنے سے پہلے آدھی پیالی پانی پر ایک مرتبہ یا ودود پڑھ کر دم کر کے والد صاحب کو پلا دیا کریں۔ کسی وجہ سے پانی نہ پلا سکیں تو چائے کے اوپر بھی دم کیا جا سکتا ہے۔ اس عمل کو آپ ہر جمعرات کو عصر اور مغرب کے درمیان کریں۔ اللہ کی راہ میں 2روپے خیرات کر دیا کریں۔


Topics


روحانی ڈاک ۔ جلدچہارم

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔