Topics
سوال: میں جانتا ہوں کہ شکم مادر میں کروموسوم کے اختلاف سے کیا ہوتا ہے مگر میرا مسئلہ کچھ نفسیاتی ہے کیونکہ مجھ میں نسوانیت ہے۔ بچپن میں امی جب کام پر جاتی تھیں تو بہنیں مجھے گھر سے باہر نہیں جانے دیتی تھیں۔ میرا سارا وقت بہنوں کے ساتھ گزرا اور میں اسی ماحول میں ڈھل گیا۔ مجھ پر لڑکیوں کی صحبت کا رنگ چڑھ گیا ہے۔ کسی مرد کے ساتھ بول نہیں سکتا نہ اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ بات ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری شخصیت فنا ہو گئی ہے۔ دل مردہ ہے، خواہشات اور امنگیں ہیں لیکن کیا کروں کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ 17سال ہو گئے ہیں لڑکیوں میں رہتے ہوئے۔ لڑکیوں کی طرح چال ڈھال ہو چکی ہے۔ ان سے گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرتا رہتا ہوں لیکن مردوں کے مذاق کا نشانہ اس وقت بنتا ہوں جب میں ان سے بات نہیں کر سکتا۔ اب تو امی بھی طعنے دیتی ہیں۔ کہتی ہیں باہر نکلا کرو۔ کیا بتاؤں میں کیوں باہر نہیں جاتا۔ میری زندگی کے قیمتی سال تو اپنوں نے ضائع کر دیئے ہیں۔ اتنی عمر تک تو جسے جو بننا ہوتا ہے بن جاتا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ یہ لوگ مجھے سنوارتے، میرے کردار پر نظر رکھتے، مگر انہوں نے نہ صرف میرے کردار کو بلکہ میری شخصیت اور وجود کو بھی دیمک لگا دی ہے۔ مجھے اس قابل نہیں چھوڑا کہ میں گھر سے نکل کر مردوں سے آنکھیں ملا کر بات کر سکوں۔ کاش! میری امی مجھے گھر میں 17سال قید نہ رکھتیں۔
جواب: آج کل لڑکیوں میں بھی الحمدللہ تعلیم ہوتی جا رہی ہے۔ لڑکیاں پڑھ لکھ کر اسکول ،کالج، یونیورسٹی، بینک، سرکاری اداروں، پرائیویٹ کمپنیوں میں بڑے بڑے ملکوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ملک کے اعلیٰ عہدوں پر وزیراعظم کی حیثیت سے فائز ہیں۔ اگر لڑکی ہونا احساس کمتری کی دلیل ہوتی جیسا کہ آپ نے لکھا ہے تو یہ سب لڑکیاں اور خواتین اتنے بڑے عہدوں پر مردوں کے سامنے بات نہیں کر سکتی تھیں۔ آپ کا یہ کہنا ہے کہ لڑکیوں میں اور بہنوں میں رہ کر آپ کی شخصیت فانا ہو گئی ہے، صحیح بات نہیں ہے۔ جتنی جلدی ہو سکے آپ اس خول سے باہر نکل آیئے۔ اور دنیا کے کاموں میں دلچسپی لیجئے۔ انشاء اللہ آپ سیٹ ہو جائیں گے۔
رات کو سونے سے پہلے گلابی رنگ روشنی کا مراقبہ کیا کریں۔ اور لوگوں کو سامنے خود فیس کریں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔