Topics
سوال: آج شدت یاس سے آپ کو خط لکھنے پر مجبور ہو گئی ہوں۔ مجھ کو علالت اور اضمحلال میں زندگی کے دن گزارتے ہوئے ایک مدت ہو گئی ہے۔اسکول میں ٹیچر ہوں۔ 20سال سے زائد ملازمت کو ہو گئے۔ ویسے تو شروع ہی سے کمزور طبع تھی مگر فروری 77ء میں میرا نوجوان بھائی فوت ہو گیا تھا۔ جس سے میں مکمل طور پر نڈھال ہو گئی۔ ہسپتال میں داخل ہوئی مگر وہاں میری بیماری کی صحیح تشخیص نہیں ہو سکی۔ علاج ہوتا رہا جس سے میری حالت بالکل تباہ ہو گئی۔ اس کے بعد ایک اور ڈاکٹر سے علاج کرایا جس کے نتیجے میں کچھ سنبھلی یعنی آٹھ دس قدم آسانی کے ساتھ چل لیتی تھی۔ لیکن مجھ بدقسمت کی زندگی میں ایک اور صدمہ آیا کہ میرا چھ ماہ کا بچہ ضائع ہو گیا اور پورے پانچ ماہ تک بلیڈنگ جاری رہی۔ تین آپریشن کرائے۔ تیسرے آپریشن کے بعد میری حالت کچھ سنبھلی مگر بدن نحیف اور لاغر ہو تا گیا۔ گاہے گاہے بیہوشی طاری ہو جاتی ۔ چکر آتے، کمزوری اتنی بڑھ گئی کہ بے ترتیب ٹانگوں کے ساتھ چلتی تو لوگ میری چال پر ہنستے اور میں اپنی قسمت کو روتی۔ ہر وہ علاج کرایا جس سے شفا کی ذرا بھی امید تھی۔ سر میں شدید درد اٹھتا۔
اسی دوران میں مجھے 4عدد خون کی بوتلیں چڑھائی گئیں۔ خون میں کمی نہ ہونے کے باوجود کمزوری میں کوئی فرق نہ آیا۔ پشاور تا کراچی جہاں بھی کسی معالج کا نام سنا اس سے علاج کرا کے دیکھا مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ آخر تھک ہار کر بیٹھ گئی۔ روحانی ڈائجسٹ کے مطالعے سے آپ کے بارے میں معلوم ہوا۔ یوں سمجھئے کہ میں آخری امید لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہوں۔
جواب: تین عدد سفید چینی کی پلیٹوں پر زعفران اور عرق گلاب سے
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
رَضَیْنَا بِاالْقَضَیْنَا فَاتُوْبُرْھَانْ ا؟فْفَ مَرَّۃٍ
O O O O O O O
اَشْھَدُ اَنْ لَااِلٰہَ اِلَّا اَللّٰہُ
بَحَقِّ یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ بَحَقِّ یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ بَحَقِّ یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ
لکھ کر صبح شام رات پانی سے دھو کر پئیں۔ تین مہینے تک۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔