Topics

کائناتی نقطہ، فکر وجدانی

شئے کا مشاہدہ ہی شئے کی فہم کا باعث بنتا ہے۔ شئے پہلے انسان کے مشاہدے میں داخل ہوتی ہے۔ پھر فہم یعنی شعور میں باریابی پاتی ہے لیکن یہ آخری منزل نہیں ہے، آخری منزل لاشعور یا ورائے شعور ہے جہاں شئے اپنی حقیقت میں پیوست ہو جاتی ہے۔ یہ سطح شعور کی گہرائی میں واقع ہے۔ گزشتہ صفحات میں ہم نے اس سطح کو بے رنگ یا خفی کہا ہے۔ یہ سطح شعور سے نیچے اور ورائے بے رنگ سے اوپر واقع ہے۔جب ہم کسی چیز کا نام لیتے ہیں تو وہ سننے والے کے ذہن (روح) میں وارد ہوتی ہے مثلاً جب سورج کہا جاتا ہے تو سننے والا اپنے داخل میں سورج کو محسوس کرتا ہے جو سورج خارج میں ہے اس سے داخلی سورج کا کوئی علاقہ نہیں ہے۔ یہ داخلی سورج ذہن یا روح کی واردات ہے۔ تمام دنیا میں جتنے انسان سورج کے بارے میں سوچتے یا سنتے ہیں ان سب کا نقطۂ واردات ایک ہی سورج ہے۔ یہ ایک حقیقت ہوئی جس میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔ گویا یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے۔جب ہم کسی ایسی شئے کا نام سنتے ہیں جس کو ہم نے کبھی نہیں دیکھا تو وہ بھی وہ اَن دیکھی شئے حقیقت ثابتہ کی صورت میں ذہن کے اندر داخل ہوتی ہے مثلاً کسی شخص نے خدا کو نہیں دیکھا لیکن جب وہ خدا کا نام سنتا ہے تو اس کے داخل میں ایک حقیقت وارد ہوتی ہے۔ ایسی حقیقت جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس حقیقت کے وارد ہونے کا ایک ہی کائناتی نقطہ ہے جس کے اندر صرف کائنات ہی نہیں بلکہ ورائے کائنات بھی موجود ہے۔ یہی محسوس نقطہ جہاں تک کائنات کا احاطہ کرتا ہے لفظ جمع یا عین الیقین سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن جب اس نقطے میں ورائے کائنات بھی داخل ہو جاتا ہے تو حق الیقین یا جمع الجمع کہلاتا ہے۔

علم الیقین

مذکورہ واردات یا محسوسات سے پیش تر ذہن انسانی کی ایک خاص حالت ہوتی ہے جس کو علم الیقین کہتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا مشاہدہ ہے۔ 

ایک حقیقت

ایک شخص آئینہ میں اپنا عکس دیکھ رہا ہے مگر آئینہ اس سے پوشیدہ ہے۔ وہ صرف اتنا جانتا ہے کہ میرے سامنے مجھ جیسا ایک انسان ہے تو یہ حالت علم الیقین کہلاتی ہے۔

عین الیقین

اگر دیکھنے والے کو یہ علم ہے کہ میں آئینہ میں اپنا عکس دیکھ رہا ہوں لیکن وہ اپنی، آئینہ کی اور عکس کی حقیقت سے ناواقف ہے تو یہ حالت عین الیقین کہلاتی ہے۔

حق الیقین

اگر دیکھنے والا اپنی، آئینہ کی اور عکس کی حقیقت جانتا ہے تو یہ حالت حق الیقین کہلاتی ہے۔

مزید تشریح:

روزمرہ مشاہدات میں روشنی آئینہ کا قائم مقام ہے۔ شاہد اور مشہود کے درمیان یہی روشنی آئینہ کا کام دیتی ہے۔ ہم دیکھنے کے عمل کو چار دائروں میں تقسیم کرتے ہیں۔ یہی چار دائرے تصوف کی اصطلاح میں چار بُعد کہلاتے ہیں۔ گزشتہ صفحات میں ان کا تذکرہ نہروں کے نام سے کیا جا چکا ہے۔ پہلے دائرے کا نام تسوید ہے۔ اس ہی دائرہ کو خلائے نور بھی کہتے ہیں۔ لامکان، زمان وقت وغیرہ اس ہی دائرہ کے نام ہیں۔ یہی دائرہ تجّلی  ذات یا کائنات کی بنیاد ہے۔ اس ہی کو قرآن پاک میں تدلّٰی کہا گیا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دو حدیثوں میں ہے:

۱۔ لِیْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتُٗ

وقت میں میرا اور اللہ کا ساتھ ہے۔

۲۔ لَا تَبْسُوْءُ الدَّھْرَ اِنَّ الدَّھْرَ ھُوَاللّٰہ

وقت کو برا نہ کہو، وقت اللہ ہے۔

یہی دائرہ غیر متغیر ہے۔ اس ہی دائرہ کی حدود ازل تا ابد ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد  کُن اس ہی دائرہ کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ میں اس ہی دائرہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہی دائرہ پہلا بُعد ہے اور ہم اپنی اصطلاح میں اس کا نام نظر رکھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد تینوں دائرے مکان(Space) ہیں جن کے نام بالترتیب تجرید، تشہید، تظہیر ہیں۔

بُعد نمبر۱۔ نظر

بُعد نمبر۲۔ نظارہ

بُعد نمبر۳۔ ناظر

بُعد نمبر۴۔ منظور

ان چاروں کے نام شہود، مشاہدہ، شاہد اور مشہود بھی لئے جاتے ہیں۔ نظر یا شہود یا تسوید یا زمان(Time) کائنات کی ساخت میں اصل یا بنیاد ہے۔ اس میں کبھی کوئی تغیر واقع نہیں ہوا، نہ آئندہ ہو سکتا ہے۔ یہ اپنی جگہ ایک حقیقت کبریٰ ہے۔ اس ہی حقیقت کبریٰ پر تینوں مکانیتوں کی عمارت قائم ہے۔ یہی حقیقت کبریٰ ان تینوں مکانیتوں کی حقیقت ہے۔ یہ حقیقت کبریٰ لامکان ہے۔ اس کے بعد پہلی مکانیت جو تجرید کہلاتی ہے، مشاہدہ یا نظارہ کی نوعیت میں اپنا وجود رکھتی ہے۔ دوسری مکانیت یا تشہید شاہد یا ناظر کی نوعیت رکھتی ہے۔ تیسری مکانیت تظہیر، مشہود یا منظور کہلاتی ہے۔ یہ مکانیت روشنی کا بحرِ ذخّار ہے۔


Topics


لوح وقلم

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )