Topics

انبیاء کے مقامات

انبیاء کے بارے میں مراتب کا جو تعین کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ فلاں نبی کا مقام وہ آسمان ہے اور فلاں نبی کا مقام وہ آسمان ہے، یہ لاشعور ہی کے متعارف مراتب کا تذکرہ ہے۔ تمام آسمانی حدیں کسی فصل یا کسی سمت کی بنا پر متعین نہیں ہیں بلکہ لاشعور کی بنا پر متعین ہیں۔ جب ہم اجرام فلکی(ستاروں، سیاروں) کو نگاہ کی زد میں دیکھتے ہیں تو اس وقت ہمارے شعور اور لاشعور کی حدیں متصل ہوتی ہیں۔ 

اجرام سماوی کا ایک ہیولیٰ ہمارے شعور(حواس) کو چھو دیتا ہے لیکن ان کروں کے تفصیلی اجزا کیا ہیں اور ان کے بیرونی اور اندرونی آثار و احوال کیوں کر واقع ہوئے ہیں۔ یہ بات ہمارے شعور سے مخفی اور لاشعور پر واضح ہوتی ہے۔ جب کسی نبی یا ولی کا لاشعور شعور بن جاتا ہے تو اس کے حواس اس مذکورہ اجرام کے اندرونی اور بیرونی آثار و احوال کو پوری طرح دیکھتے، جانتے، سنتے اور چھوتے ہیں۔ ان اجرام کے تمام آثار و احوال کسی نبی یا ولی سے کرۂ ارضی کے آثار و احوال کی طرح قریب ہوتے ہیں۔ خود کرۂ ارضی کے آثار و احوال کی قربت کسی فرد واحد کو اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک کہ اس کا شعور توانا اور مرتب نہ ہو۔ جس طرح شعور کی توانائی اور ترتیب کے مدارج مختلف ہیں اسی طرح لاشعور کی ترتیب و توانائی یعنی لاشعور کے شعور کی حدوں میں داخل ہونے کی طرزیں بھی مختلف ہیں۔ ایک زیادہ توانا اور زیادہ مرتب شعور رکھنے والا انسان کرۂ ارضی کے حالات سے زیادہ باخبر ہوتا ہے اور ان پر بہت تبصرہ کر سکتا ہے لیکن ایک ناقص اور نامرتب شعور رکھنے والا انسان کرۂ ارضی کے معمولی مسائل کو جاننے اور سمجھنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔

درحقیقت کسی فرد کا لاشعور اس کی تمام نوع کے شعور کا مجموعہ ہوتا ہے۔ تمام نوع سے مراد ابتدائے آفرینش سے ثانیۂ حاضر تک کے وجود میں آنے والے سارے افراد ہیں۔ کسی فرد کے تمام نوع کے سارے محسوسات کا اجتماع اس کے شعور میں نہیں بلکہ لاشعور میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک فرد اپنی نوع کے تمام مروجہ علوم سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے یعنی جب وہ نوعی شعور کے کسی جزو کو جو بذاتہٖ اس کا لاشعور ہے، شعور میں منتقل کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ یہ صلاحیتیں عوام الناس کی ہیں لیکن ایک نبی یا ولی کی صلاحیتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ جب ایک نبی یا ولی اپنی نوع کے لاشعور یعنی کائناتی شعور کو بیدار کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی کوششوں میں کم تر یا بیش تر اسی طرح کامیاب ہو جاتا ہے جس طرح ایک فرد اپنے نوعی شعور سے متعارف ہونے میں کامیاب ہے۔


Topics


لوح وقلم

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )