Topics
اللہ تعالیٰ نے انسان کے نقطۂ ذات میں چاروں عالموں کو یکجا کر دیا ہے۔
نمبر۱۔ عالمِ نور
نمبر۲۔ عالمِ تحت الشعور یا عالمِ ملائکہ مقربین
نمبر۳۔ عالمِ امر
نمبر۴۔ عالمِ خلق
عالمِ امر کی وضاحت اس طرح ہو سکتی ہے۔ ہماری کائنات اجرام سماویٰ موالید ثلاثہ وغیرہ کتنی ہی مخلوقات اور موجودات کا مجموعہ ہے۔ کائنات کے تمام اجزاء اور افراد میں ایک ربط موجود ہے۔ مادی آنکھیں اس ربط کو دیکھ سکیں یا نہ دیکھ سکیں اس کے وجود کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
جب ہم کسی چیز کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو اسے دیکھتے ہیں۔ یہ ایک عام بات ہے۔ ذہن انسانی کبھی اس طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ روحانیات میں اور تصوف میں کسی چیز کی وجہ تلاش کرنا ضروری ہے خواہ وہ کتنی ہی ادنیٰ درجہ کی چیز ہو۔ ہم جب کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ ہم اس کی صفات ٹھیک طرح سمجھ لیتے ہیں۔ سمجھنے کی نسبت ذہن کے استعمال کی گہرائی سے تعلق رکھتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو زیادہ واضح طریقہ پر ہم اس طرح کہیں گے۔ شاہد جس وقت کسی چیز کو دیکھتا ہے تو اس کی صلاحیتِ معرفتِ شئے نگاہ میں منتقل ہو جاتی ہے۔ گویا دیکھنے والا خود دیکھی ہوئی چیز بن کر اس کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ یہ عالم امر کا قانون ہے۔
مثال:
ہم نے گلاب کے پھول کو دیکھا۔ دیکھتے وقت ہمیں خود کو گلاب کے پھول کی صفات میں منتقل کرنا پڑا، پھر ہم گلاب کے پھول کو سمجھ سکے۔ اس طرح گلاب کے پھول کی معرفت ہمیں حاصل ہو گئی۔
عالم خلق کا ہر فرد اپنے نقطۂ ذات کو دوسری شئے کے نقطۂ ذات میں تبدیل کرنے کی ازلی صلاحیت رکھتا ہے اور جتنی مرتبہ اور جس طرح چاہے وہ کسی چیز کو اپنی معرفت میں مقید کر سکتا ہے۔ اس قانون کے تحت ہر انسان کا نقطۂ ذات پوری کائنات کی صفات کا اجتماع ہے۔
عالم امر کی ایک شان اور بھی ہے۔ جب آپ کسی شئے کا نام سنتے ہیں مثلاً آپ نے محمود کا نام سنا تو آپ کے ذہن میں لفظ محمود یا محمود کے ہجّے نہیں آئیں گے بلکہ محمود کی ذات اور شخصیت آئے گی۔ وہ شخصیت جو کتنی ہی صفات کا مجموعہ ہے۔ جن صفات سے آپ واقف ہیں ان صفات میں محمود کی صورت اور سیرت دونوں موجود ہوں گی۔ یہ عالمِ امر کی تفہیم کا دوسرا قانون ہے۔ اس قانون کے دو اجزاء ہیں۔
ایک جز کی تفہیم شعور کے ذمہ ہے لیکن محمود کے بارے میں محمود کی تمام شخصیت جو ازل سے ابد تک واقع ہوئی ہے اور جس کو شعور اپنی فہم میں نہیں لا سکا ہے وہ تمام کی تمام یعنی ازل سے ابد تک پورا محمود لاشعور کی فہم میں رہتا ہے۔ اس باقی محمود کی تفہیم لاشعور کے ذمہ ہے۔ اگر کوئی عارف محمود کی ازل سے ابد تک پوری شخصیت کا کشف چاہتا ہے تو وہ اپنے شعور کو لاشعور کے اندر مرکوز کر دیتا ہے۔ پھر تمام لاشعور شعور کے اندر منتقل ہوتا جاتا ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب انسان کو اپنی انا کی معرفت حاصل ہو کیونکہ انسانی انا کی حرکت ہی لاشعور میں مرکوز ہو کر لاشعوری روئداد کو تصور میں منتقل کر دیتی ہے۔ ایسی کیفیت کو خواجہ بہاء الدین نقشبندؒ نے ’’یادداشت‘‘ کے نام سے تعبیر کیا ہے۔
عالم امر کی تفصیل میں مذاہب عالم کی چند باتوں کا تذکرہ کر دینا ضروری ہے۔ ایسے لوگوں نے جو کسی زمانے میں غیبی طاقتوں سے متعارف ہوئے ہیں۔ چند عقائد کو ملحوظ رکھ کر روحانی نظام تعلیم ترتیب دیا ہے۔ اس قسم کے نظام تعلیم متعدد بن چکے ہیں۔ ابتدائی دور میں جب دنیا کی آبادیاں اور ضرورتیں بہت کم تھیں۔ یہ روحانی تعلیمات بہت وسیع اور ہمہ گیر صورت اختیار نہیں کر سکی تھیں۔ بالکل ابتدائی دور میں نوع انسانی میں کتنے ہی افراد غیبی چیزوں کا مشاہدہ کرتے تھے اور مشاہدات کا تعلق ’’عالمِ امر‘‘ سے ہوتا تھا۔ یہ لوگ ان مشاہدات کو اپنے قبیلے اور طرز زندگی کے محدود معانی میں سمجھتے تھے۔ ان کے سامنے وسیع تر دنیا اور نوع انسانی کے بہت سے طبقے کی زندگی نہیں ہوتی تھی اس لئے ان پر عالم امر کے جو حقائق منکشف ہوتے تھے ان کی تعبیریں حسیات بشری کے چند اجزاء پر مشتمل ہوتی تھیں۔ چنانچہ ان روحانی بزرگوں کے بعد ان کے مقلدین اوہام باطلہ اور تصورات خام میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ تمام بت پرست اور مظاہر پرست مذہبوں کی ترتیب اس ہی طرح ہوئی ہے۔ یہ مقلدین جنہوں نے اس دور میں مذہب کے خدوخال تیار کئے خود ’’عالم امر‘‘ کے حقائق سے ناواقف ہوتے تھے اور یہ لوگ جو کچھ اپنے رہنماؤں سے سیکھتے تھے اس کو دوسروں تک پہنچانے میں غلط عقائد، جادو اور رہبانیت کی بنیادیں قائم کر دیتے تھے۔ وہ مظاہر کو اصل روشنیوں کا سرچشمہ قرار دینے میں تامل نہیں کرتے تھے۔ اس قسم کے مذاہب کی مثالیں بابل میں پیدا شدہ مذاہب، جین مت اور آریائی مذہبوں میں ہندو ویدانیت کے زیر اثر بہت سے مذاہب ہیں۔ بودھ مت بھی مہاتما بودھ کے مقلدین کی ایسی ہی روش سے دوچار ہو کر رہبانیت سے روشناس ہوا ہے۔ منگول مذاہب میں توحید کے خدوخال نہ ملنے کی یہی وجہ ہے۔ کچھ ایسے ہی حالات سے متاثر ہو کر ’’ٹاؤمت‘‘ کو بھی بہت سے ادہام اور جادوگری کا اسیر ہونا پڑا۔ منگولی مذاہب میں آفتاب پرست اور مادہ پرست اور زرتشی عقائد رکھنے والوں نے یا تو ’’عالم امر‘‘ کو شیطانی اور رحمانی کے دو اصولوں پر محمول کیا ہے یا خودمظاہر کو ’’عالم امر‘‘ کی مرکزیت قرار دیا ہے۔ ان رویوں سے آہستہ آہستہ بت پرستی اور مظاہر پرستی کے عقائد مستحکم ہوتے گئے اور انسانی طبیعت مادی زندگی سے گریزاں رہنے لگی۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مادی زندگی کل زندگی کا نصف ہے۔ اگر اس نصف کا کسی مسلک میں کوئی مقام نہیں ہے تو معاشی زندگی کی تمام تعمیریں مسمار ہو جائیں گی۔ اگر اس قسم کی وجوہات پیش آ جائیں تو مذہب کو خیال کی حدود میں مقید تسلیم کرنا پڑے گا۔ اور جب عملی زندگی کا ڈھانچہ مذہب کی گرفت سے آزاد ہو جائے تو عقائد میں بے راہ روی پیدا ہونا لازمی ہے۔ اس طرح کتنے ہی مذہب اعتدال کی راہوں سے ہٹ کر ’’عالم امر‘‘ اور ’’عالم خلق‘‘ کے حقائق سے نامانوس ہو گئے۔ بالآخر ’’عالم خلق‘‘ کی زندگی کے تقاضوں نے نوع انسانی کو رد عمل میں مبتلا کر دیا اور گزشتہ پانچ ہزار سال میں ایسے مذاہب کی بنیادیں پڑنے لگیں جن کا مقصد صرف حکومت اور ریاست اور مادی زندگی قرار پایا۔ ان مذاہب میں کنفیوشی، شنٹو اور یونانی فلسفہ کے نظام ہائے حکمت جس میں افلاطون، اس کے معاصرین کی تعلیمات اور موجودہ دور کے کمیونسٹ ملک قابل ذکر ہیں۔ ان سب کی بنیادیں صرف اس وجہ سے پڑیں کہ رائج الوقت مذاہب میں ’’عالم خلق‘‘ کے تقاضوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ چنانچہ یہی رد عمل لادینی کا سبب ہوا۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ ان بے اعتدالیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
مذہب نام ہے ان عقائد کے مجموعوں کا جو انسانی اعمال اور محرکات کو وجود میں لاتا ہے۔ کتنے ہی مذاہب ایسے ہیں جن میں خدا کا تصور نہیں پایا جاتا مثلاً جین مت اور کمیونسٹ مذاہب جو ہزاروں سال پہلے سے اب تک وجود میں آتے رہے ہیں۔
انسانی عقل کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ خارج کے بارے میں سوچتا ہے، دوسرا رخ ’’نفس‘‘ کے بارے میں۔ پہلا رخ مظاہر کو دیکھ کر جو کچھ خارج میں ہے اس کے بارے میں تجربات اور محسوسات کی حدیں قائم کرتا ہے۔ دوسرا رخ ’’نفس‘‘ کے متعلق فکر کرتا ہے اور مظاہر کی گہرائی میں جو امور منکشف ہوتے ہیں ان کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ پہلے رخ کا استعمال عام ہے۔ اس کی تمام طرزیں اور فکریں روحی اور الہام سے الگ ہیں۔ البتہ دوسرا رخ وحی اور الہام سے وابستہ ہے جو پہلے رخ پر محیط ہے۔چنانچہ پہلا رخ یعنی ’’عالم امر‘‘ دوسرے رخ یعنی ’’عالم خلق‘‘ کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ پہلا رخ علم نبوت کی راہوں پر چل کر حقائق کا انکشاف کرتا ہے۔ دوسرا رخ اشیاء میں تلاش کے ذریعے مادیت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ تمام مذاہب جو دوسرے رخ کی بنیادوں پر مرتب کئے گئے ہیں زیادہ تر لادینی، بت پرستی، مظاہر پرستی، مادیت پرستی اور فلسفیانہ قدروں پر مشتمل ہیں۔ یہ سب کے سب مادی علم یا علم حصولی کی راہوں پر چل کر اپنی منزلیں متعین کرتے ہیں۔ زیادہ تر ان کا رواج مشرق وسطیٰ کو چھوڑ کر دنیا کے دوسرے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ان مذاہب میں ہزاروں فنا ہو چکے ہیں اور کتنے ہی باقی ہیں۔ یہ سب کے سب’’عالم امر‘‘ یعنی نفس کی اس زندگی کے لئے جو مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے کوئی آسانی فراہم نہیں کرتے بلکہ اس قسم کی تجرباتی اور محسوساتی الجھنیں پیدا کرتے ہیں جو ابدالآباد کی تکالیف میں مبتلا کر دیتی ہیں۔
مشرق وسطیٰ جہاں قدیم سے سامی اقوام آباد ہیں ایسے مذاہب کا مرکز رہا ہے جو وحی کے زیر اثر جاری ہوئے اور علم النفس یعنی عالم امر کی صراحتوں کے قانون پر چلے۔ ان میں رائج اور وسیع مذاہب تین ہیں۔ یہودیت، عیسائیت اور اسلام۔ یہ تینوں سامی اقوام میں نافذ ہوئے۔ ان میں اسلام آخری مذہب ہے کیونکہ نبوت ختم ہو چکی ہے۔
* نوٹ: میں یہ کتاب پیغمبر اسلام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ مجھے یہ حکم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات سے بطریق اویسیہ ملا ہے۔ اس ہی حکم کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ میں اس کتاب میں کسی مذہب پر تبصرہ نہ کروں۔ اس لئے میں سامی اور غیر سامی مذہب کا مزید تذکرہ نہیں کر سکتا۔
علم النفس میں عالم امر کی نوعیت ایسے گلاب کی ہے جس کو ہماری آنکھوں نے کبھی دیکھا ہے۔ ہمارا ذہن اس کا ایک تصور ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیتا ہے چنانچہ اس گلاب کو ہم جس وقت چاہیں عالم امر سے عالم خلق کی دنیا میں لا سکتے ہیں یعنی اس کا تصور ہمارے ذہن میں واپس آ جاتا ہے اور ہم اس کوگلاب کی نوع کا ایک فرد شمار کرتے ہیں۔ اس میں خدوخال ہوتے ہیں اور رنگ ہوتے ہیں۔ خدوخال کا تعلق عالم امر سے ہے، رنگوں کا تعلق عالم خلق سے ہے۔ دراصل اس کی نوع کے جو خدوخال ہیں وہ نفس الامر ہیں۔ ان کا وجود عالم امر میں بالکلیہ اور مستقل رہتا ہے۔ عالم امر میں اس کے خدوخال کا وجود زمانیت کے اجزاء کا مرکب ہے۔ یہ ہمارے نفس کی صلاحیت تخلیق پر منحصر ہے کہ ہم جب چاہیں اس کے خدوخال میں رنگ پیدا کر دیں۔ عالم امر میں ہم اور گلاب ایک نفس ہیں۔ ایک نفس کی صلاحیتیں جو ہم میں اور گلاب میں مشترک ہیں ارادہ کے تحت گلاب میں رنگ پیدا کر کے گلاب کو ہمارے تصور کی حدود میں داخل کر دیتی ہیں۔
عالم امر کی یہ نفسی صلاحیتیں ہر عامی کو حاصل ہیں۔ اگر ان نفسی صلاحیتوں کو غیر معمولی بنانے کی کوشش کی جائے تو یہی ’’نفس الامری ارادہ‘‘ گلاب کو آفاقی حدود میں داخل کر دیتا ہے۔ پھر وہ گلاب مکانی حقیقت بن کر ٹھوس طریقے پر آفاقی دنیا میں رونما ہو جاتا ہے۔ ہم اس قانون کا تجزیہ اس طرح کریں گے۔ حقیقت، ماوراحقیقت، ماوراء اور الماوراء حقیقت۔
ماوراء الماوراء حقیقت ذات باری تعالیٰ ہے۔ ماوراء حقیقت تجلیات باری تعالیٰ ہیں۔ حقیقت صفات باری تعالیٰ ہیں۔ ماوراء حقیقت کو واجب الوجود بھی کہتے ہیں۔ یہ تجلیات الٰہی کا عالم ہے۔ اس کے بعد خود حقیقت کا عالم ہے جس کو ’’عالم نور‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس ہی
عالم نور کا تذکرہ قرآن پاک میں کیا گیا ہے اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ واجب الوجود ذات باری تعالیٰ ہے۔ ہم واجب الوجود کو صرف تجّلی کا نام دے سکتے ہیں۔ یہ تجّلی اصلِ صفات ہے اور ذات سے وابستہ ہے۔ واجب الوجود کے بعد صفات ہیں جن کو ہم نے حقیقت کہا ہے۔ ان صفات کا رشتہ تجلیات ذات سے ہے۔ قرآن پاک کے اندر معرفت الٰہیہ کو تین مراتب میں بیان کیا گیا ہے۔
نمبر۱۔ ذات باری تعالیٰ۔
نمبر۲۔ عالم امر جو ’’کن‘‘ کہنے سے ظہور میں آیا۔ اِنَّمَا اَمْرُہٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْءًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ (قرآن پاک) جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا معمول یہ ہے کہ اس چیز کو کہتا ہے کہ ہو جا، پس وہ ہو جاتی ہے۔
نمبر۳۔ عالم امر خاص۔ یہ وہ عالم ہے جس کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے میں نے آدم کے پتلے میں اپنی روح پھونکی۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )