Topics
تجرید یا پہلی مکانیت نور ہے۔ تشہید یا دوسری مکانیت نسمۂ مفرد ہے۔ یہی نسمۂ مفرد کائناتی شعاع یا کاسمک ریز(Cosmic Rays) کہلاتا ہے۔ نسمۂ مرکب یا تظہیر یعنی تیسری مکانیت، کائناتی شعاعوں کے علاوہ جتنی روشنیاں ہیں سب پر مشتمل ہیں۔ تظہیر کی شعاعوں کے ہجوم ہی سے کائنات کے تمام جسم بنتے ہیں۔ تظہیر کی روشنیاں ایک طرح کا رنگین آئینہ ہیں۔
دراصل چاروں بُعد چار آئینے ہیں۔ پہلا غیر متحرک اور غیر متغیر آئینہ نظر یا لامکان ہے۔ دوسرا متحرک یا متغیر آئینہ نظارہ ہے۔ تیسرا متحرک آئینہ ناظر ہے اور چوتھا متحرک آئینہ منظور ہے۔
نظر
ہم نظر کو ایک طرح کا کائناتی شعور کہہ سکتے ہیں۔ یہ جس مقام پر جس نقطہ میں بھی جلوہ گر ہوتی ہے ایک ہی طرز رکھتی ہے۔ انسان میں جو نظر پانی کو پانی دیکھتی ہے وہ نظر ہر شئے کے اندر پانی کو پانی دیکھتی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انسان نے پانی کو پانی دیکھا ہو اور شیر نے پانی کو دودھ دیکھا ہو۔ نظر کا کردار کائنات کے ہر ذرہ اور نقطہ میں ایک ہے۔ جس طرح ہم لوہے کو سخت محسوس کرتے ہیں اسی طرح چیونٹی بھی لوہے کو سخت محسوس کرتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ لوہا جس نگاہ سے انسان کو دیکھتا ہے اس ہی نگاہ سے چیونٹی کو دیکھتا ہے۔ کائنات میں پھیلے ہوئے تمام مناظر اس ہی قانون کے پابند ہیں۔ جب آدمی چاند کی طرف نظر اٹھاتا ہے تو چاند کو اسی شکل و صورت میں دیکھتا ہے جس شکل وصورت میں چکور دیکھتا ہے۔ جب درخت کی جڑیں پانی حاصل کرتی ہیں تو پانی سمجھ کر حاصل کرتی ہیں بالکل اس ہی طرح جس طرح ایک جانور پانی کو پانی سمجھتا ہے۔ ایک سانپ بھی دودھ کو دودھ سمجھ کر پیتا ہے اور ایک بکری بھی دودھ سمجھ کر پیتی ہے۔
نتیجہ:ہم ان تمام مثالوں سے ایک ہی نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ تمام کائنات کے ہر ذرہ میں ایک نظر کام کر رہی ہے۔ اس نظر کے کردار میں کہیں اختلاف نہیں۔ وہ ہر ذرہ میں غیر متغیر ہے۔ اس کا ایک معین اور مخصوص کردار ہے۔ نظر کے کردار میں ابتدائے آفرینش سے کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ یہ نظر مکانیت اور زمانیت دونوں کی نفی کرتی ہے کیونکہ اس کی روش میں نہ تو وقت کے تغیر سے کوئی تغیر ہوتا ہے اور نہ وقت کی تبدیلی سے کوئی تبدیلی۔ یہ نظر ازل سے ابد تک کسی لمحہ یا کسی ذرہ کی گہرائی میں ایک ہی صفت رکھتی ہے۔ یہی نظر وہ مقام ہے جس کو شعور کا مرکزی نقطہ یا کائنات کی حقیقت کہہ سکتے ہیں۔ یہ محض رنگ ہی سے ماوراء نہیں بلکہ بے رنگ سے بھی ماوراء ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔
عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمُ
انسان کو علم سکھایا، وہ نہیں جانتا تھا۔
یہاں سکھانے کا مطلب ودیعت کرنا یا لاشعور میں پیوست کرنا ہے۔ یعنی جس چیز سے کائنات کی سرشت اور جبلت عاری تھی اللہ تعالیٰ نے وہ چیز انسان کی فطرت میں بطور خاص ودیعت کی۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے آدم کے پُتلے میں روح پھونکی۔
فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْالَہٗ سٰجِدِیْنِِ(سورۂ ص۔ آیت ۷۲)
ترجمہ: پس جس وقت کہ درست کروں اور پھونکوں اس کے بیچ اپنی روح میں سے پس گر پڑو واسطے اس کے سجدہ کرتے ہوئے۔
یہ بھی ارشاد کیا ہے کہ میں نے آدم کو علم الاسماء عطا کیا۔
عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاءَ کُلَّھَا
یہ تمام ارشادات اس مطلب کی وضاحت کرتے ہیں کہ موجودات کے اندر جو چیز اصل ہے اس کا سمجھنا اور جاننا بجز انسان کے اور کسی کے بس کی بات نہیں کیونکہ یہ خصوصی علم اللہ تعالیٰ نے صرف آدم کو عطا کیا ہے۔ یہ خصوصی علم لاشعور کا علم ہے۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )