Topics
قرآن۔ قُلِ
الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي ۔ روح کو امر رب کہا گیا ہے۔ چنانچہ یہ بھی عالم امر ہے لیکن یہ عالم امر اس عالم امر سے الگ ہے جو ’’ کُن ‘‘ کے زیر اثر ظہور میں آیا۔ اگردونوں عالم امر ایک ہی ہوتے تو اللہ تعالیٰ یہ ہرگز نہ فرماتے کہ میں نے آدم کے پتلے میں اپنی روح پھونکی۔ ان الفاظ سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ نمبر۲ ’’امر عام‘‘ ہے اور نمبر۳’’امرخاص‘‘ ہے۔ یہاں سے علم اور ظہورات کے دو مراتب ہو جاتے ہیں جس کو قرآن پاک میں علم لوح اور علم القلم یعنی لوح و قلم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ترتیب اس طرح ہوئی:
نمبر۱۔ ذات باری تعالیٰ
نمبر۲۔ عالم امر خاص، تجّلی ذات، (واجب الوجود)
نمبر۳۔ عالم امر، امر عام یا تجّلی صفات
ان تین مراتب کے بعد چوتھا مرتبہ عالم خلق کا ہے۔
پہلے لطائف ستہ کا ذکر آ چکا ہے۔ ذات باری تعالیٰ کو مستثنیٰ کر کے باقی تین مراتب چھ رخوں پر مشتمل ہیں۔ اول عالم امر خاص یاتجّلی ذات یا واجب الوجود کا رخ ذات کی طرف ہے۔ دوسرا رخ عالم امر خاص کا عالم امر عام کی طرف۔ یہ دو لطائف ہوئے۔ پہلے رخ کا نام اخفیٰ اور دوسرے رخ کا نام خفی ہے۔ عالم امر عام کا پہلا رخ عالم امر خاص کی طرف اور دوسرا رخ عالم خلق کی طرف۔ اس کا پہلا رخ سری اور دوسرا رخ روحی ہے۔
عالم خلق (عالم ناسوت) کا پہلا رخ عالم امر عام کی طرف اور دوسرا رخ کائنات(مادیت) کی طرف ہے۔ اس کا پہلا رخ قلب ہے، دوسرا رخ نفس ہے۔
ہم اس کی مثال ایک چادر سے دے سکتے ہیں جو نور کے تاروں سے بنی ہوئی ہے۔ یہ نور کے تار جس خلاء میں قائم ہیں اس خلاء کا نام عالم امر خاص ہے۔ اس چادر میں نور کے تار بطور ’’تانے‘‘ کے استعمال ہوئے ہیں وہ عالم امر عام ہیں۔ پھر اس چادر میں جو تار بطور ’’بانے‘‘ کے استعمال ہوئے ہیں وہ عالم نسمہ کہلاتے ہیں۔ ان تینوں عالموں کے اوپر محسوسات کا ایک خول ہے جس کو جسم کہتے ہیں۔ تصوف میں عالم نسمہ کی معرفت کو علم الیقین کہا گیا ہے۔ عالم امر عام کی معرفت کو عین الیقین کہا گیا ہے اور عالم امر خاص کی معرفت کو حق الیقین کہا گیا ہے۔ یہی وہ مرتبہ ہے جو ذات باری تعالیٰ کی معرفت ہے۔ باقی مراتب صفات کی معرفت ہیں۔
انسان کا جسم ایک خول ہے۔ اس خول کے دو رخ ہیں۔ جسم اور دماغ۔ دماغ کا رخ عالم امر عام کی طرف ہے۔ اسی کو نسمہ کہتے ہیں۔ لیکن یہ دماغ یا جسم انسان نہیں ہے۔ انسان ان دونوں کے اندر بستا ہے جس کو تجّلی ذات کا ایک نقطہ کہنا چاہئے۔ یہ نقطہ جو ذات انسانی ہے، اس نور کی چادر کا ایک ذرہ ہے۔ یہ ذرہ ایک خول رکھتا ہے جس کو جسم کہتے ہیں۔ یہی مظہر ہے۔
عالم تمثال
نقطۂ ذات سے نسمہ (ذہن) کی طرف اور نسمہ سے (جسم) کی سمت میں نور کی ایک رو بہتی ہے۔ مظہر(جسم) سے نسمہ کی طرف اور نسمہ(ذہن) سے نقطۂ ذات کی سمت میں روشنی کی ایک رو بہتی ہے۔ جو نور کی رو نقطۂ ذات سے مظہر کی طرف بہتی ہے اس کے اندر علومِ لدُنّیہ کا ذخیرہ ہوتا ہے لیکن جو روشنی کی رو مظہر(جسم) سے نقطۂ ذات کی طرف بہتی ہے، وہ علوم دنیا یعنی جسمانی تقاضوں اور خواہشات کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ اگر نقطۂ ذات سے نزول کرنے والے علوم لدُنّی شعور کے لئے قابل توجہ اور باعث دل چسپی ہیں تو ان کا رنگ آہستہ آہستہ مظہری خاکوں پر چڑھ جاتا ہے یعنی انسان کا لطیفۂ نفسی ان علوم کی نورانیت سے معمور ہو کر حقیقت کا رنگ قبول کر لیتا ہے۔ یہ حقیقت کا رنگ ایسا نور ہے جس کے اندر سے کوئی کثیف روشنی یعنی تاریکی نہیں گزر سکتی بلکہ جسم کے تقاضے اور ساری خواہشات اس رنگ سے چھن کر لطیف نور کی شعاعوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور بجائے کثیف روشنیوں کے (یعنی تاریکیوں کے) مظہر کی سمت سے یہ چھنی ہوئی لطیف نور کی شعاعیں نقطۂ ذات کی طرف بہنے لگتی ہیں۔ نقطۂ ذات سے مظہر کی طرف بہنے والی رو اور مظہر سے نقطۂ ذات کی طرف بہنے والی رو جب مذکورہ بالا کیفیت تک پہنچ جاتی ہے تو ذہن انسانی میں ایک نور پیدا ہو جاتا ہے جس کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نور فراست کہا ہے۔ یہ نور فراست پہلے عالم امر عام کے انکشافات کا باعث ہوتا ہے۔ پھر عالم امر خاص کے انکشاف کا۔ عالم امر سے مظہر کی طرف نزول اور مظہر سے عالم امر کی طرف صعود کی حرکت مسلسل ہوتی رہتی ہے۔ عالم امر سے مظہر کی طرف لدنیہ کا جو ذخیرہ نزول کرتا ہے اس کا عکس شعور پر پڑتا ہے۔ شعور اس عکس کو ضمیر کے نام سے تعبیر کرتا ہے۔ شعور ذہن انسانی کا ایسا آئینہ ہے جس میں علوم لدُنّیہ کے انوار کا عکس پڑتا ہے۔ یہ علوم لدُنّیہ ازل سے ابد تک کے حالات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان حالات کا تصویری عکس شعور کے اوپر پڑتا ہے۔ حالات کے اس تصویری عکس کو ’’عالم تمثال‘‘ کہتے ہیں۔ اگر کسی شخص کا شعور (ذہن) مجلّٰی آئینہ ہے تو بند آنکھوں سے یا کھلی آنکھوں سے حالات کا تصویری عکس وضاحت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اگر لطیفۂ نفسی کی طرف سے کثیف روشنی یعنی تاریکی رو بن کر نقطۂ ذات کی طرف بہتی ہے تو شعور کا آئینہ مجلّٰی نہیں رہتا اور علوم لدُنّیہ کے تمام تصویری عکس نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )