Topics

روح کی مرکزیتیں اور تحریکات

لطائف کا بیان پہلے آ چکا ہے۔ روح کے چھ لطائف دراصل روح کی چھ مرکزیتیں ہیں جن کو بہت وسعتیں حاصل ہیں۔ ان مرکزیتوں کی حرکت دن رات کے وقفوں سے یکے بعد دیگرے صادر ہوتی رہتی ہیں۔ چھ لطیفوں میں سے تین لطیفوں کی حرکت بیداری میں اور باقی تین لطیفوں کی حرکت نیند میں عمل کرتی ہے۔ ان لطیفوں کی حرکات کو ہم مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

یہ حصے بیداری یا نیند کے وقفے ہیں۔ بیداری کے وقفوں میں سب سے پہلا وقفہ وہ ہے جب انسان سو کر اٹھتا ہے اور اس کے اوپر نیم بیداری کی حالت طاری ہوتی ہے۔ اس وقفہ میں لطیفۂ نفسی حرکت کرتا ہے اور اس کی وسعتوں میں جس قدر فکر و عمل کی طرزیں ہیں وہ سب یکجا دور کرنے لگتی ہیں۔

دوسرا وقفہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب خمار اتر چکتا ہے اور پوری بیداری کی حالت ہوتی ہے۔ اس وقفہ میں لطیفۂ قلبی کی تمام صلاحیتیں اپنی وسعتوں میں جنبش کرتی رہتی ہیں۔ یہ وقفہ متوازن طور پر کُلفت و سرور کی حالت پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس وقفہ میں کُلفت و سرور کے احساسات متوازن ہوتے ہیں یا کبھی کُلفت کا احساس بڑھ جاتا ہے۔

بیداری کا تیسرا وقفہ خوشی، وجدان اور سرور کی قوت کے غالب ہونے کا دور ہے۔ اس وقفہ میں مسلسل لطیفۂ روحی کی حرکت قائم رہتی ہے۔

بیداری کے ان تینوں وقفوں کے بعد نیند کا پہلا وقفہ شروع ہو جاتا ہے جس کو غنودگی کہتے ہیں۔ اس حالت میں لطیفۂ سری حرکت میں رہتا ہے۔ نیند کی دوسری حالت جسے ہلکی نیند کہنا چاہئے۔ لطیفۂ خفی کی حرکت کا وقفہ ہوتی ہے۔ نیند کی تیسری حالت میں جب نیند پوری طرح گہری ہو جاتی ہے تو لطیفۂ اخفیٰ کی تحریکات صادر ہوتی ہیں۔ ان تمام حالتوں کے آغاز میں انسان پر سکوت کی حالت ضرور طاری ہوتی ہے۔ مثلاً جب کوئی شخص سو کر اٹھتا ہے تو آنکھیں کھولنے کے بعد چند لمحے قطعی سکوت کے ہوتے ہیں اور جب حواس کو رفتہ رفتہ بیدار ہونے کا موقع ملتا ہے تو ابتدائی طور پر حواس میں کچھ نہ کچھ سکوت ضرور ہوتا ہے۔ اس طرح وجدانی حالت شروع ہونے سے پہلے انسان کی طبیعت چند لمحوں کے لئے ساکت ضرور ہوتی ہے۔ جس طرح تینوں بیداری کی حالتیں ابتدائی چند لمحات کے سکوت سے شروع ہوتی ہیں، اس ہی طرح غنودگی شروع ہونے کے وقت پہلے حواس پر بہت ہلکا سا سکوت طاری ہوتا ہے اور چند لمحے گزر جانے کے بعد حواس کا یہ سکوت بوجھل ہو کر غنودگی کی صورت اختیار کر لیتاہے۔ اس کے بعد ابتدائی نیند کے چند ساکت لمحات سے ہلکی نیند کی شروعات ہوتی ہے پھر گہری نیند کی ساکت لہریں ذرا سی دیر کے لئے انسانی جسم پرغلبہ حاصل کر لیتی ہیں۔ یہ غلبہ بعد میں گہری نیند بن جاتا ہے۔ اب ہم ہر لطیفہ کی حرکت اور حرکت سے متعلق حالت کو مختصراً بیان کریں گے۔

لطیفۂ نفسی کی حرکت

جب نیند سے آنکھ کھلتی ہے تو سب سے پہلی حرکت پلک جھپکنے کی ہوتی ہے۔ پلک جھپکنے کا عمل باصرہ(نگاہ) کو حرکت دیتا ہے۔ باصرہ یا نگاہ ایسی حالت ہے جو کسی چیز سے واقف ہونے کی تصدیق کرتی ہے، اس طرح کہ وہ چیز فی الوقت موجود ہے یعنی ایک تو کسی چیز کا ذہنی طور پر وقوف حاصل ہے۔ یہ عمل تو حافظہ سے تعلق رکھنے والی بات ہے لیکن جب حافظہ اپنی یادداشت کو تازہ کرنا چاہتا ہے یا کوئی بیرونی محسوس حافظہ میں کسی یادداشت کو بیدار کرتا ہے اس وقت باصرہ جو پلک کے مسلسل عمل سے اس وقوف کے خدوخال اور شکل وصورت دیکھنے کے لائق ہو چکی ہے۔ اس کے سامنے ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔ پلک جھپکنے کا یہ عمل اس ہی وقت شروع ہوتا ہے جب لطیفۂ نفسی حرکت میں آ چکا ہو۔ لطیفۂ نفسی کی حرکت کسی چیز کی طرف رجحان پیدا کرنے کی ابتدا کرتی ہے۔ لطیفۂ نفسی کے متحرک ہونے پر انسان کی لطیف حس یعنی نگاہ رجحان طبیعت کی ابتدا کرتی ہے۔ آنکھ کھلتے ہی لاشعوری طور پر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ سمجھے کہ ارد گرد میں کیا چیزیں موجود ہیں اور ماحول میں کس قسم کے خدوخال پائے جاتے ہیں۔ وہ ان سب کی معلومات چاہتا ہے اور معلومات اس طرح کی جو مصدقہ ہوں۔ بغیر اس کے کہ جب تک انسان کے اپنے احساسات میں کوئی حس موجود چیزوں کی تصدیق کرنے والی نہ ہو وہ مطمئن نہیں ہوتا۔ چنانچہ سب سے پہلے اس کی نگاہ یہ کام انجام دیتی ہے۔ آنکھیں بند ہونے کی صورت میں نگاہ کا کام معطل تھا۔ پلک جھپکنے سے وہ تعطل ختم ہو گیا اور بصارت کام کرنے لگی۔

قانون:

تخلیط کے قوانین میں سے ایک قانون یہ ہے کہ جب تک آنکھوں کے پردے حرکت نہ کریں اور آنکھوں کے ڈیلوں پر ضرب نہ لگائیں، آنکھ کے اعصاب کام نہیں کرتے۔ ان اعصاب کی حسیں اس وقت کام کرتی ہیں جب ان کے اوپر آنکھ کے پردوں کی ضرب پڑتی ہے۔ اصول یہ ہوا کہ بند آنکھیں جیسے ہی کھلتی ہیں پہلے دو تین لمحوں کے لئے کھل کر ساکت ہو جاتی ہیں۔ یہ سکوت لطیفۂ اخفیٰ کی حرکت کو ختم کرتا ہے جس کے بعد فوراً جیسے ہی لطیفۂ نفسی کی مرکزیت کو جنبش ہوتی ہے میلان، رجحان یا خواہش کی شروعات ہو جاتی ہے مثلاً جاگنے والا اپنے گردو پیش کو جاننا چاہتا ہے اور اپنے ماحول کو سمجھنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔ یہ لطیفۂ نفسی کی پہلی حرکت ہے۔ اس میلان یا خواہش کے بعد اور خواہشات مسلسل اور یکے بعد دیگرے پیدا ہو جاتی ہیں۔ جب تک لطیفۂ نفسی کی حرکت بند نہ ہو یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور بصارت کی طرح جسم انسانی کی تمام حسیں پیدا شدہ خواہشات کی تائید، تصدیق اور تکمیل میں لگی رہتی ہیں۔ اگر لطیفۂ نفسی کی روشنی کسی طرف میلان کرتی ہے تو انسان کے تمام محسوسات اپنے دروازے اس ہی طرف کھول دیتے ہیں۔ حسیات میں سب سے زیادہ لطیف حس بصارت ہے جو سب سے پہلے لطیفۂ نفسی کی روشنی سے متاثر ہوتی ہے۔ یہ روشنی انسان کو ابتداءً عالم خیال سے روشناس کراتی ہے۔ اس عالم میں ذہن دو قسم کے تصورات پیش کرتا ہے۔ ایک قسم وہ ہے جو معنوی تصورات پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور دوسری قسم تصویری تصورات ہوتے ہیں۔ معنوی تصورات سے یہ مراد نہیں ہے کہ ذہن انسانی میں کوئی معنی بغیر خدوخال یا شکل وصورت کے آ سکتے ہیں۔ معانی کی نوعیت چاہے وہ کتنی ہی لطیف ہو شکل وصورت اور خدوخال پر مبنی ہوتی ہے۔ پہلے پہل جب قوت باصرہ حرکت کرتی ہے تو نگاہ خارج کی چیز کو داخل میں اور داخل کی چیزوں کو خارج میں دیکھتی ہے۔ اس مطلب کی وضاحت کیلئے آئینہ کی مثال دی جا سکتی ہے۔

مثال:

آئینہ کی مثال کی ایک طرز ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ دوسری طرز یہ ہے کہ آئینہ دیکھنے والی نگاہ کو خیرہ کر لیتا ہے اور اس کی تمثیل کو جو اس کے سامنے ہے نگاہ پر منکشف کر دیتا ہے۔

یہ وہ دیکھنا ہے جو داخل سے خارج میں آ کر منظر کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اس کے برخلاف جب دیکھنے کا عمل خارج سے داخل میں ہوتا ہے تو کوئی ’’محیج‘‘(جو چیز کسی حس کے ذریعے ذہن انسانی کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے اس کو ’’محیج‘‘ کہتے ہیں) نگاہ کے سامنے آ کر خود نگاہ کو آئینہ کی حیثیت قرار دیتا ہے اور اپنے خدوخال سے ذہن انسانی کو اطلاع بخشتا ہے۔ جب ان دونوں زاویوں میں نظر تحقیق کی جائے تو یہ بات منکشف ہو جاتی ہے کہ ذہن انسانی ہر حالت میں آئینہ کا کام انجام دیتا ہے اور یہی ایک ذریعہ ہے جس سے روح انسانی اپنے تصورات کو متجسم کی شکل وصورت میں دیکھتی ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ ذہن انسانی میں اشیاء کی موجودگی کا لامتناہی سلسلہ قائم رہتا ہے۔ جس ذہن میں اشیاء کی موجودگی کے سلسلے کا قیام ہے وہ ذہن لطیفہ نفسی کے انوار کی تخلیق ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ لطیفۂ نفسی کی روشنیاں اپنی وسعتوں کے لحاظ سے لامتناہی حدوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر ان لامتناہی روشنیوں کی حد بندی کرنا چاہیں تو پوری کائنات کو ان لامحدود روشنیوں میں مقید تسلیم کرنا پڑے گا۔ یہ روشنیاں موجودات کی ہر ایک چیز کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان کے احاطے سے باہر کسی وہم، خیال یا تصور کا نکل جانا ممکن نہیں۔ تصوف کی زبان میں روشنیوں کے اس دائرے کو جویہ کہتے ہیں۔ جویہ میں جو کچھ واقع ہوا تھا یا بحالت موجودہ وقوع میں ہے یا آئندہ واقع ہو گا وہ سب ذات انسانی کی نگاہ کے بالمقابل ہے۔ خارج کے اندر جو کچھ موجود ہے، بیداری میں نگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے۔ اگر نگاہ کی رسائی وہاں تک نہ ہو تو تصورات اس کے ہونے کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔ اگر تصورات کی دسترس بھی وہاں تک نہ ہو تو خیال معنوی خدوخال میں اس کو پیش کر دیتا ہے۔ اگر کوئی چیز خیال کی حدوں سے بھی بالاتر ہے تو وہم کسی نہ کسی طرح اس کی موجودگی کا احساس دلا دیتا ہے۔ قانونی طور پر یہ ماننا پڑتا ہے کہ جویہ کی روشنیاں ذات انسانی کو لامتناہی حدوں تک وسیع کر دیتی ہیں۔

صاحبان شہود نے سلوک کی راہوں میں نگاہ کو ’’جویہ‘‘ کی تمام وسعتوں میں دیکھنے پر مجبور کیا ہے۔ انبیاءؑ کی تعلیمات میں اس کوشش کا پہلا سبق دن رات کے اندر اکیس گھنٹے بیس منٹ جاگ کر پورا کیا جاتا ہے۔

انبیاءؑ کی تعلیمات یعنی تفہیم کا دوسرا سبق تاریکی میں طویل وقفہ تک بغیر پلک جھپکائے نظر جمانا ہے۔ پہلے عمل کو تکوین اور دوسرے عمل کو استرخاء کہتے ہیں۔

حضرت اویس قرنیؓ کے مکان پر جب ابن ہشام ملنے کے لئے گئے تو انہیں بہتر گھنٹے یعنی تین دن اور تین راتیں انتظار کرنا پڑا۔ مسلسل بہتر گھنٹے نوافل پڑھنے کے بعد حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دعا کی:

’’بارالٰہی! میں زیادہ سونے سے اور زیادہ کھانے سے تیری ہی پناہ مانگتا ہوں۔‘‘

ایک صوفی اس طرح مسلسل بیدار رہ کر اپنے اندر شہود کی قوتیں بیدار کر لیتا ہے۔ پہلے اس کا مختصر تذکرہ آ چکا ہے کہ انسان میں ایسی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں جو وقتاً فوقتاً اپنے اوصاف کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ باصرہ انسان کی ایک حس ہے۔ یہاں اس کی تخلیق و ترتیب بیان کی جاتی ہے۔ 


Topics


لوح وقلم

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )