Topics

لاشعور، ادراک اور شعور کا فرق

مذکورہ بالا وضاحت کی روشنی میں کائنات یا فردِ کائنات کی چار سطحیں معین ہوتی ہیں۔ پہلی سطح ورائے لاشعور ہے۔ اسی کو ورائے بے رنگ بھی کہا گیا ہے۔ یہ سطح کائنات یا فرد کے اندر بہت گہرائی میں واقع ہے۔ اس سطح کے اوصاف کی تشخیص بہت کم ممکن ہے، تاہم ہو سکتی ہے جب یہ سطح ایک حرکت کے ساتھ ابھرتی ہے تو نئے اوصاف کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ اس مجموعہ کا نام لاشعور ہے۔ اس ہی کو بے رنگ کہا گیا ہے۔ اس سطح کے اوصاف کی تشخیص بھی مشکل ہے۔ تا ہم ورائے بے رنگ کی تشخیص کے مقابلے میں آسان ہے۔

یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ حرکت دوسرے دائرے (لاشعور) میں شروع ہوئی تھی۔ جب یہی حرکت دوسرے دائرے سے ابھر کر تیسرے دائرے میں داخل ہوتی ہے تو فرد کا شعور اس کا احاطہ کر لیتا ہے۔ اس ہی احاطہ کا نام تصور ہے۔ پھر یہی تصور اپنی سطح سے ابھر کر رویت بن جاتا ہے اور فرد کا شعور اس رویت کو اپنے بالمقابل دیکھنے لگتا ہے۔ یہی وہ حالت ہے جس کو ہم وجود کہتے ہیں۔ اور مختلف ناموں سے تعبیر کرتے ہیں۔

ہر شئے کو شعور کی ان چاروں سطحوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب تک کوئی شئے یہ چاروں مرحلے طے نہ کر لے موجود نہیں ہو سکتی۔ گویا کسی شئے کی موجودگی چوتھے مرحلے میں واقع ہوتی ہے اور پہلے تین مرحلوں میں اس شئے کا تانا بانا تیار ہوتا ہے۔ 

اس طرح شعور کے چار درجے ہوئے ہمارے ذہن کا ایک شعور کسی ایسی وسعت کو بھی جانتا ہے جو کائنات سے ماوراء ہے۔ یہی

 شعورِ اول ہے۔ ہم اس شعور کو ورائے کائناتی شعور کہہ سکتے ہیں۔

شعور ِدوئم کل کائنات کا مجموعی شعور ہے۔ اس کو کائناتی شعور کا نام دے سکتے ہیں۔

شعورِ سوئم کسی ایک نوع کا اجتماعی شعور ہے۔ اس کو نوعی شعور کے نام سے تعبیر کر سکتے ہیں۔

شعورِ چہارم کسی نوع کے فرد کا شعور ہے۔

ہمارا ذہن اور قوتوں کے علاوہ ایک ایسی قوت پرواز بھی رکھتا ہے جس کو عام اصطلاح میں واہمہ کہتے ہیں۔ جب یہ قوت پرواز کرتی ہے تو ان بلندیوں تک جا پہنچتی ہے جو کائنات کی حدوں سے باہر ہیں لیکن یہاں پہنچ کر اس طرح گم ہو جاتی ہیں کہ ہمارا ذہن اسے واپس نہیں لا سکتا اور نہ یہ سراغ لگاسکتا ہے کہ پرواز کرنے والی قوت کہاں گم ہو گئی اور گم شدگی میں اسے کیا حادثات پیش آئے۔ جس عالم میں یہ قوت گم ہوتی ہے، تصوف میں اس عالم کو لاہُوت یا ورائے بے رنگ کہتے ہیں۔ یہی عالم شعور اول ہے۔ اس عالم میں اللہ تعالیٰ کی لامتناہی صفات جمع ہیں۔ یہ صفات ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں۔ اس ہی لئے ان کو قائم بالذات کہتے ہیں۔ ان صفات کی وحدت کا نام تجّلی  ذات بھی ہے۔ اس ہی عالم کو راح کہا گیا ہے۔

قرآن پاک نے ہم کو تین ہستیوں سے متعارف کرایا ہے۔

اول: اللہ تعالیٰ کی ذات جو لامتناہی اور ورائے راح ہے۔

دوئم: اللہ تعالیٰ کی صفات جو قائم بالذات ہیں۔ ان ہی کا نام ورائے کائناتی شعور یا راح ہے۔

سوئم کائنات ہے۔

یہ تین ہستیاں ہوئیں۔ ذات، صفات اور کائنات۔ ذات صفات و کائنات کو محیط ہے۔ ذات خالق، صفات قائم بالذات اور کائنات مخلوق ہے۔ ہر صفت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات وابستہ ہے۔ انبیائے متقدمین (حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ ) کے نقش قدم پر چلنے والے انبیاء نے ذات باری تعالیٰ کو رحمت کے نام سے جانا ہے۔ یہ رحمت ذات کی لامتناہی صفات میں ہر صفت کے ساتھ پیوست ہے۔ انبیاء نے رحمت کو دو ناموں سے متعارف کرایا ہے۔ یہ دونوں نام جمال اور جلال ہیں۔ انہوں نے جمال کا ایک وصف قائم کیا ہے جس کو احتساب کا نام دیا گیا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی لامتناہی صفات میں ہر صفت کے ساتھ تین اوصاف یعنی خالقیت، ربوبیت اور احتسا ب لازمی طور پر پیوست ہیں۔ انسان کے اندر خالقیت کی صفت ہنر بن کر ظہور میں آتی ہے۔ ربوبیت کی صفت کا مظہر اخلاق ہے اور احتساب کے وصف کا مظاہرہ علم ہے۔ چنانچہ انسان ان ہی تین اوصاف کی تمثیل ہے۔

ذات۔ ورائے غیب الغیب، راح۔ غیب الغیب اور روح غیب ہے۔ روح کے بعد دو شعور رویاء اور رویت باقی رہ جاتے ہیں۔ یہ دونوں اگرچہ روح میں پیوست ہیں لیکن حضور کہلاتے ہیں۔ رویاء شعور سوئم کا حضور ہے اور رویت شعور چہارم کا۔ 


وقفہ

وقفہ یا وقت ایسی مکانی حالت کا نام ہے جو طولانی سفر میں گردش کرتی ہے۔ مذکورہ بالا چاروں شعور جب طولانی سمت میں دور کرتے ہیں تو اس دور کا نام وقفہ یا وقت یا زمان(Time) ہے لیکن جب یہ چاروں شعور اپنے مرکزی سفر میں دور کرتے ہیں تو اس دور کو مکان(Space) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں حالتیں۔۔۔ایک طولانی سمت کی گردش، دوسرے محوری سمت کی گردش ایک ہی ساتھ واقع ہوتی ہیں۔ یہ دونوں گردشیں مل کر شعور کے اندر مسلسل حرکت کی تخلیق کرتی رہتی ہیں۔ ہم طولانی حرکت کو اپنے حواس میں سیکنڈ، منٹ، گھنٹے، دن، ماہ و سال اور صدیوں کی شکل میں پہچانتے ہیں اور محوری حرکت کے سلسلے کو زمین، چاند، سورج، اجرام فلکی اور نظام شمسی کی صورت میں جانتے ہیں۔ یہ دونوں حالتیں مل کر وقفہ کہلاتی ہیں۔

دراصل ہمارے حواس کے اندر ایک تغیر ہوتا رہتا ہے۔ یہ تغیر ورائے بے رنگ، بے رنگ، یک رنگ اور کل رنگ کا مجموعہ ہے۔ واہمہ سے اس تغیر کی شروعات ہوتی ہے۔ پھر یہ تغیر خیال اور تصور کی راہیں طے کر کے محسوسات کی صورت اختیار کر لیتا ہے تغیر پھر اس ہی زینہ سے واپس آتا ہے یعنی اسے محسوسات سے تصور، خیال اور واہمہ تک پلٹنا پڑتا ہے۔ واہمہ، خیال اور تصور یہ تینوں حالتیں طولانی حرکت کی ایک ہی سمت میں واقع ہوتی ہیں اور محسوساتی حالت محوری حرکت کی اس ہی سمت میں واقع ہوتی ہے جس سمت میں طولانی حرکت واقع ہوتی ہے۔ اس طرح محسوسات میں زمانی اور مکانی دونوں تغیر ایک ہی نقطہ میں واقع ہوتے ہیں۔ اس ہی نقطہ کا نام وقفہ ہے۔ وقفہ کا سلسلہ ازل سے ابد تک جاری و ساری ہے۔ مذکورہ بالا چار شعوروں کی مرکزیتیں الگ الگ چار زندگیاں رکھتی ہیں۔ محسوسات کی مرکزیت عالم ناسوت کہلاتی ہے۔ تصور کی مرکزیت نزول میں عالم رویاء، عالم واقعہ یا عالم تمثال اور صعود میں عالم ارواح یا عالم برزخ(علیین و سجین) کہلاتی ہے۔ خیال کی مرکزیت نزول میں مُبداء اور صعود میں حشر و نشر(جنت و دوزخ) کہلاتی ہے۔

شعور کا پہلا شعبہ جس کا نام ’’راح‘‘ لیا گیا ہے واجب الوجود کہلاتا ہے۔ باقی تین شعبے وجودکہلاتے ہیں۔ واجب الوجود میں تغیر نہیں ہوتا لیکن وجود میں طولانی اور محوری گردش مل کر وقفہ یا وجود کہلاتی ہے۔ دونوں گردشوں میں پہلی گردش کائنات کے ذرہ ذرہ کا باہمی ربط ہے۔ اس گردش میں کائنات کا قیام اور کائناتی شعور کی کیفیات کا قیام واقع ہوا ہے۔ محوری گردش فرد کی گردش ہے۔ اس گردش کے اندر فرد کا قیام اور فرد کی کیفیات کا قیام ہے۔ لیکن فرد کی تمام کیفیات کائنات کی مجموعی کیفیات کا ایک عنصر ہوتی ہے۔ اگر ہم کسی ذرہ کے اندر سفر کریں تو سب سے پہلے نسمۂ مرکب کی مکانیت(Space) ملے گی۔ یہ مکانیت محسوسات کی دنیا ہے۔ اس مکانیت کی حدوں میں فرد کا شعور رویت کے حواس میں ڈوبا رہتا ہے۔ گویا رویت بذات خود حواس کا مجموعہ ہے۔ رویت کی مکانیت کے اندر ایک دوسری مکانیت ہے جس کو رویاء کہتے ہیں۔ یہ نسمۂ مفرد کی مکانیت فرد کی ذات کا اندرونی جسم ہے یعنی رویاء ایک ایسی مکانیت ہے جس کو فرد کا اندرونی جسم کہہ سکتے ہیں۔ رویاء کی مکانیت کے اندر بھی ایک اور مکانیت پائی جاتی ہے۔ یہ مکانیت نورِ متغیر کا جسم ہے اور پھر اس مکانیت کے اندر غیر متغیر نور بستا ہے۔ غیر متغیر نور واجب الوجود یا صفات الٰہیہ یا تجّلی  ذات یا لامکان ہے۔ اس کی وسعتیں کائنات کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہیں لیکن ذات باری تعالیٰ اس سے ماوراء ہے۔ البتہ جیسا کہ اوپر تذکرہ کیا جا چکا ہے یہ ذات باری تعالیٰ کا وصف ہے اور قائم بالذات ہے۔

نسمۂ مرکب، نسمۂ مفرد، نور متغیر اور نور غیر متغیر کے حواس الگ الگ ہیں۔ عالم ناسوت میں رویت کے حواس غالب اور باقی حواس مغلوب رہتے ہیں۔ جس وقت فرد رویاء میں رہتا ہے تو اس کی توجہ رویت سے ہٹ کر رویاء میں مرکوز ہوتی ہے۔ گویا رویاء کے حواس غالب اور باقی شعبوں کے حواس مغلوب رہتے ہیں۔ ازل سے عالم ناسوت کی پیدائش تک رویاء کے حواس فرد کے باقی تمام شعوروں پر غالب تھے لیکن عالم ناسوت میں یہ حواس صرف نیند کی حالت میں عود کرتے ہیں۔ اور بیدار ہونے کے بعد رویاء کے حواس مغلوب ہو جاتے ہیں۔ موت کے بعد برزخ یا اعراف میں یہ حواس ایک مرتبہ پھر باقی تمام حواس پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔ شعبۂ روح کے حواس عالم واقعہ میں بھی مغلوب تھے۔ عالم رویت میں بھی مغلوب ہیں اور عالم برزخ میں بھی مغلوب رہیں گے لیکن قیامت کے دن

 شعبۂ روح کے حواس باقی تمام حواس کو مغلوب کر دیں گے اور پھر مستقلاً یہی حواس غالب رہیں گے۔


Topics


لوح وقلم

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )