Topics
تصرف
تجّلی تنزل کر کے نور بنتی ہے اور نور تنزل کر کے روشنی یا مظہر بن جاتا ہے۔ یہی مظہر شئے ہے جو تجّلی اور نور کی مظاہراتی شکل ہے۔ بہ الفاظِ دیگر تجّلی تنزل کر کے نور بنی اور نور تنزل کر کے شئے یا مظہر بنا۔ مظہر تجّلی اور نور سے تخلیق ہوا پھر نور اور تجّلی ہی میں فنا ہو گیا۔ اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اس ناموجود کو پھر موجود کر دے گا۔ عارف علم شئے میں ہی تصرف کرتا ہے جس کا اثر شئے پر براہ راست پڑتا ہے۔
تصرف کی تین قسمیں ہیں:
۱۔ معجزہ
۲۔ کرامت
۳۔ استدراج
یہاں تینوں کا فرق سمجھنا ضروری ہے۔ استدراج وہ علم ہے جو اعراف کی بری روحوں یا شیطان پرست جنات کے زیر سایہ آدمی میں خاص وجوہ کی بنا پر پرورش پا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور میں بھی پیش آئی ہے۔
اس دور میں صاف ابن صیاد نام کا ایک لڑکا مدینے کے قریب کسی باغ میں رہتا تھا۔ موقع پا کر شیطان کے شاگردوں نے اسے اچک لیا اور اس کی چھٹی حس کو بیدار کر دیا۔ وہ چادر اوڑھ کر آنکھیں بند کر لیتا اور ملائکہ کی سرگرمیوں کو دیکھتا اور سنتا رہتا۔ وہ سرگرمیاں عوام میں بیان کر دیتا۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی شہرت سنی تو ایک روز حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’آؤ، ذرا ابن صیاد کو دیکھیں!‘‘
اس وقت وہ مدینے کے قریب ایک سرخ ٹیلے پر کھیل رہا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس سے سوال کیا۔
’’بتا! میں کون ہوں؟‘‘
وہ رُکا اور سوچنے لگا۔ پھر بولا:
’’آپ امیوں کے رسول ہیں لیکن آپ کہتے ہیں کہ میں خدا کا رسول ہوں۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’تیرا علم ناقص ہے، تو شک میں پڑ گیا۔ اچھا بتا! میرے دل میں کیا ہے؟‘‘
اس نے کہا۔ ’’دخ ہے۔‘‘ (ایمان نہ لانے والا) یعنی آپﷺ میرے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ میں ایمان نہ لاؤں گا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔
’’پھر تیرا علم محدود ہے۔ تو ترقی نہیں کر سکتا۔ تو اس بات کو بھی نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا:
’’یا رسول اللہﷺ! اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کی گردن مار دوں۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا:
’’اے عمر! اگر یہ دجال ہے تو اس پر تم قابو نہیں پا سکو گے اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کا قتل زائد ہے۔ اس کو چھوڑ دو۔‘‘
غیب کی دنیا میں لفظ اور معنی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہر چیز شکل و صورت رکھتی ہے خواہ وہ وہم ہو، خیال ہو یا احساس۔ اگر کسی انسان کی چھٹی حس بیدار ہے تو اس کے ذہن میں غیب بینی کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ عبرانی زبان میں نبی غیب بیں کو کہتے ہیں۔ اور رسول غیب کے قاصد کو۔ اس ہی وجہ سے ابن صیاد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مرتبۂ رسالت کو صحیح نہیں سمجھ سکا۔ اس نے جو کچھ دیکھا وہ یہ تھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام غیب کے قاصد ہیں اور اس کی غیب کی روشناسی اپنی ہی حد تک تھی یا ان اجنہ کی حد تک تھی جو اس کے دوست یا استاد تھے۔ جب اس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سمجھنے کی کوشش کی تو معرفت الٰہی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو غیب کا رسول قرار دیا۔ اس کی غیب بینی صرف اس حد تک تھی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک امی قوم میں پیدا ہوئے ہیں اور ان کے معجزات کا مظاہرہ امی قوم میں ہوا۔ اس فکر کے تحت اس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو امیوں کا رسول کہا۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو استدراج کی حدوں میں مقید دیکھا تو اس سے یہ سوال کیا کہ بتا میرے دل میں کیا ہے جس کے جواب میں اس نے دخ کہا اور حضورﷺ نے جب یہ دیکھا کہ ابن صیاد کو معرفت حاصل نہیں ہو گی تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو ترقی نہیں کر سکتا۔
چنانچہ ابن صیاد کی طرح کسی بھی صاحب استدراج کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں ہو سکتی۔ علم استدراج اور علم نبوت میں یہی فرق ہے کہ استدراج کا علم غیب بینی تک محدود رہتا ہے۔ اور علم نبوت انسان کو غیب بینی کی حدوں سے گزار کر اللہ تعالیٰ کی معرفت تک پہنچا دیتا ہے۔
علم نبوت کے زیر اثر جب کوئی خارقِ عادت نبی سے صادر ہوتی تھی اس کو معجزہ کہتے تھے اور جب کوئی خارقِ عادت ولی سے صادر ہوتی ہے تو اس کو کرامت کہتے ہیں لیکن یہ بھی علم نبوت کے زیر اثر ہوتی ہے۔ معجزہ اور کرامت کا تصرف مستقل ہوتا ہے۔ مستقل سے مراد یہ ہے کہ جب تک صاحب تصرف اس چیز کو خود نہ ہٹا دے وہ نہیں ہٹے گی۔ لیکن استدراج کے زیر اثر جو کچھ ہوتا ہے وہ مستقل نہیں ہوتا اور اس کا اثر فضا کے تاثرات بدلنے سے خود بہ خود ضائع ہو جاتا ہے۔ استدراج کے زیر اثر جو کچھ ہوتا ہے اس کو جادو کہتے ہیں۔
تجّلی کی جو رو برتر از ورائے شعور ہے اس ہی سے تخلیق کی تمام اصلیں متصل ہیں۔ یہ اجزائے کائنات کے ہر ذرے میں محدود ترین مرکزیت کی آخری حد تک گشت کرتی ہے۔ اگر اس تجّلی کو محدود ترین مرکز کائنات سے گزرتے وقت کوئی ناپسندیدہ امر پیش آ جائے تو اس کے اندر ایک طرح کی حالت جلال پیدا ہو جاتی ہے۔
استدراج کے اصول محدود ترین مرکز میں کوئی ناخوشگوار اثر پیدا کر دیتے ہیں۔ اس ناخوشگوار اثر کی وجہ سے تجّلی جو خیر کی حقیقت ہے بیزار ہو جاتی ہے اور بیزاری کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی تخریبی اثر مرتب ہو جاتا ہے۔ جب کوئی شخص محدود ترین مرکز کے خول میں کسی قسم کا تعفن یا کسی قسم کی کثافت پیدا کر لیتا ہے تو اس کی قوتیں تخریب اور شکست و ریخت پر قابو پا جاتی ہیں وہ صرف اس لئے کہ تجّلی نے بے رخی اختیار کر لی ہے اور اس کی بے رخی سے خیر کی تاثریات معطل ہو گئیں۔ محدود ترین مرکز کا خول انسانی جسم ہے۔
مثلاً سادھو اپنے محدود ترین مرکز کے خول یعنی جسم پر راکھ مل کر جلدی مسامات کو بالکل بند کر لیتے ہیں۔ چنانچہ ان کے جسم کی اندرونی روشنیاں جن کو زندگی کا قوام کہنا چاہئے، کثیف ہو کر رقیق بن جاتی ہیں۔ یہی تعفن کسی دوسرے جسم یا اجسام کے محدود ترین مرکزوں کی طرف بہنے لگتا ہے اور وہاں اپنی تاثیریں پیدا کر دیتا ہے جس سے وہ جسم یا اجسام تخریبی سرگرمیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ہر مذہب میں عبادت کے لئے غسل یا وضو کا اہتمام کیا جاتا ہے حالانکہ عبادت کا تعلق صرف ذہن سے ہے جسم سے نہیں۔ غسل اور وضو کا منشا طبیعت کو شگفتہ کر کے انہماک پیدا کرنا ہے۔
قانون:
یہاں یہ سمجھناپڑے گا کہ ہمارے اشغال و اعمال جو جسمانی اعضاء کے ذریعے صادر ہوتے ہیں کہاں تخلیق پاتے ہیں اور ان کی تخلیق کس طرح ہوتی ہے۔ اب ذرا ماہیت کی طرف رجوع کیجئے۔ یہ ماہیت شخص اکبر کا خاصہ ہے۔ اور شخص اکبر تمام مخلوقات کی مختلف انواع کا مجموعہ ہے جن میں سے ہم کتنی ہی انواع و مخلوقات کو جانتے ہیں۔ شیر، گھوڑا، شاہین، ستارے، چاند، سورج، زمین، آسمان، جن، فرشتے، انسان، ہوا، پانی، چاندی، سونا، جواہرات، کنکر پتھر، پہاڑ، سمندر، سبزہ اور حشرات الارض ان میں سے ہر ایک، ایک نوع یا مخلوق ہے۔ ان کی نوع یا نوعیت ہی ان کی ماہیت ہے۔ اس ماہیت کا وقوع ہمیشہ ایک ہی طرز پر ہوتا ہے۔ جیسے شیر ایک شکل وصورت اور ایک خاص طبیعت رکھتا ہے۔ اس کی آواز بھی مخصوص ہے۔ یہ چیزیں اس کی پوری نوع پر مشتمل ہیں۔ بالکل اسی طرح انسان بھی خاص شکل و صورت، خاص عادتیں اور خاص صلاحیتیں رکھتا ہے لیکن یہ دونوں نوعیں اپنی ماہیتوں میں ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں۔ البتہ اصل ماہیت دونوں کی ایک ہے اور دونوں میں یکساں جسمانی تقاضے پیار اور رنج و غضب پایا جاتا ہے۔ یہ اشتراک نوع کی ماہیت میں نہیں بلکہ اصل ماہیت میں ہے یہ اصل ماہیت زندگی کا وہ مرکز ہے جہاں زندگی کی انتہاؤں میں چھوٹے چھوٹے کیڑے کی زندگی اور چاند سورج کی زندگی مجتمع ہو جاتی ہے۔ اس قانون سے ہمیں روح کے دو حصوں کی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ہر ایک نوع کی جداگانہ ماہیت ، دوسرے تمام انواع کی واحد ماہیت۔ یہی واحد ماہیت روح اعظم اور شخصِ اکبر ہے اور ہر نوع کی جداگانہ ماہیت شخص ِاصغر ہے۔ اور اس ہی شخص ِاصغر کے مظاہر افراد کہلاتے ہیں۔ مثلاً تمام انسان شخصِ اصغر کی حدود میں ایک ہی ماہیت ہیں۔
اول ہر نوع کے افراد شخصِ اصغر کی حدود میں یعنی اصغر ماہیت کے دائرے میں ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں۔ دوئم ہر فرد تمام انواع کے افراد سے شخصِ اکبر کی حدود یعنی اکبر ماہیت کے دائرے میں متعارف ہے۔ شیر دوسرے شیر کو بحیثیت شیر کے شخصِ اصغر کی صلاحیت سے شناخت کرتا ہے مگر یہی شیر کسی آدمی کو یا دریا کے پانی کو یا اپنے رہنے کی زمین کو یا سردی گرمی کو شخصِ اکبر کی صلاحیت سے شناخت کرتا ہے۔ اصغر ماہیت کی صلاحیت ایک شیر کو دوسرے شیر کے قریب لے آتی ہے۔ لیکن ایک شیر کو جب پیاس لگتی ہے اور وہ پانی کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس کی طبیعت میں یہ تحریک اکبر ماہیت کی طرف سے ہوتی ہے اور وہ صرف اکبر ماہیت کی بدولت یعنی شخص اکبر کی وجہ سے یہ بات سمجھتا ہے کہ پانی پینے سے پیاس رفع ہو جاتی ہے۔
کشش کا قانون
چنانچہ ذی روح یا غیر ذی روح ہر فرد کے اندر اکبر صلاحیت ہی اجتماعی زندگی کی فہم رکھتی ہے۔ ایک بکری سورج کی حرارت کو اس لئے محسوس کرتی ہے کہ وہ اور سورج شخص اکبر کی حدود میں ایک دوسرے سے الحاق رکھتے ہیں۔ اگر کوئی انسان شخص اکبر کی حدود میں فہم و فراست نہ رکھتا ہو تو وہ کسی دوسری نوع کے افراد کو نہیں پہچان سکتا اور نہ اس کا مصرف جان سکتا ہے۔ جب آدمی کی آنکھ ستارہ کو ایک مرتبہ دیکھ لیتی ہے تو اس کا حافظہ ستاروں کی نوع کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے۔ حافظہ کو یہ صلاحیت شخصِ اکبر سے حاصل ہوتی ہے لیکن جب کوئی انسان اپنی نوع کے کسی انسان کو دیکھتا ہے تو اس کی طرف ایک کشش محسوس کرتا ہے۔ یہ کشش شخص اصغر کا خاصہ ہے۔ یہاں سے اصغر ماہیت اور اکبر ماہیت کی تخصیص ہو جاتی ہے۔ اکبر ماہیت کششِ بعید کا نام ہے اور اصغر ماہیت کششِ قریب کا۔
تجّلی کی رو تمام انواع کی مخلوقات میں کشش بعید کا باہمی تعلق پیدا کرتی ہے۔ یہی تجّلی جب تنزل کر کے نور کی شکل اختیار کرتی ہے تو کشش قریب بن جاتی ہے تیسرے درجہ میں جب یہ تجّلی نور سے تنزل کر کے روشنی کی صورت اختیار کرتی ہے تو ایک ہی نوع کے دو افراد کے درمیان باہمی کشش کو حرکت میں لاتی ہے۔
روحانی دنیا میں غیر ارادی حرکت کا نام کشش اور ارادی حرکت کا نام عمل ہے۔ غیر ارادی تمام حرکات شخص اکبر کے ارادے سے واقع ہوتی ہیں لیکن فرد کی تمام حرکات فرد کے اپنے ارادے سے عمل آتی ہیں۔ جہاں تک نہر تسوید، تجرید اور تشہید کے اوصاف ذات ِانسانی میں حرکت کرتے ہیں۔ وہاں تک اس کا مقام اجتماعی اور شخص اکبر کا مقام ہے۔ البتہ جہاں سے نہر تظہیر کا وصف حرکت میں آتا ہے وہاں سے ذات انسانی کا مقام انفرادی ہے۔
نہر تسوید، نہر تجرید اور نہر تشہید کی حدود حرکت میں جب کوئی خرق عادت پیش آتی ہے تو کرامت کہلاتی ہے۔ جب نہر تظہیر کی حدود میں حرکت میں کوئی فرق عادت پیش آتی ہے تو استدراج ہوتی ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اَللہُ نُوْرُ السّمٰوٰاتِ وَالْاَرْض۔ اس کا تذکرہ پہلے آ چکا ہے۔ اس کی مزید تشریح یہ ہے کہ تمام موجودات ایک ہی اصل سے تخلیق ہوتی ہیں خواہ وہ موجودات بلندی کی ہوں یا پستی کی۔ ہم ساخت کی ترتیب کو حسب ذیل مثال سے واضح کر سکتے ہیں۔
شیشے کا ایک بہت بڑا گلوب ہے۔ اس گلوب کے اندر دوسرا گلوب ہے۔ اس دوسرے گلوب کے اندر ایک تیسرا گلوب ہے۔ اس تیسرے گلوب میں حرکت کا مظاہرہ ہوتا ہے اور یہ حرکت شکل وصورت، جسم و مادیت کے ذریعے ظہور میں آتی ہے۔ پہلا گلوب تصوف کی زبان میں نہر تسوید یا تجّلی کہلاتا ہے۔ یہ تجلی موجودات کے ہر ذرہ سے لمحہ بہ لمحہ گزرتی رہتی ہے تا کہ اس کی اصل سیراب ہوتی رہے۔
دوسرا گلوب نہر تجرید یا نور کہلاتا ہے۔ یہ بھی تجلی کی طرح لمحہ بہ لمحہ کائنات کے ہر ذرہ سے گزرتا رہتا ہے۔ تیسرا گلوب نہر تشہید یا روشنی کا ہے۔ اس کا کردار زندگی کو برقرار رکھتا ہے۔ چوتھا گلوب نسمہ کا ہے جو گیسوں کا مجموعہ ہے۔ اس ہی نسمہ کے ہجوم سے مادی شکل وصورت اور مظاہرات بنتے ہیں۔ انجیل کے اندر اس ہی چیز کو حسب ذیل الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
انجیل۔ اعمال، باب نمبر ۱۷، آیت ۲۴ تا ۲۸
نمبر ۱۔ آیت نمبر ۲۴
جس خدا نے دنیا اور اس کی سب چیزوں کو پیدا کیا وہ آسمانوں اور زمین کا مالک ہو کر ہاتھ کے بنائے ہوئے مندروں میں نہیں رہتا۔
اس آیت میں نہر تسوید اور نہر تجرید کا بیان ہے۔ اول اللہ تعالیٰ کی قوتِ خالقیت پوری کائنات کے ذرہ ذرہ پر مسلط ہے۔ اس ہی قوت کے تسلط کو روحانیت کی زبان میں نہر تجرید یا نور کہتے ہیں۔ (دنیا اور اس کی سب چیزوں کو پیدا کیا۔۔۔نہر تسوید، آسمانوں اور زمین کا مالک ہو کر ۔۔۔نہر تجرید)
نمبر۲۔ آیت نمبر۲۵
نہ کسی چیز کا محتاج ہو کر آدمیوں کے ہاتھوں سے خدمت لیتا ہے کیونکہ وہ تو خود ہی سب کو زندگی، سانس اور سب کچھ دیتا ہے۔
(زندگی نہر تشہید، سب کچھ نہر تظہیر یا نسمہ)
نمبر۳:
نہر تشہید یا روشنی جسے انجیل کی زبان میں زندگی کہا گیا ہے۔ اس کی عطا کا سلسلہ ازل سے ابد تک جاری ہے۔
نمبر۴:
نہر تظہیر کی رو جس کا دوسرا نام نسمہ ہے کائنات کے مادی اجسام کو محفوظ اور متحرک رکھتی ہے۔
* (نوٹ): اللہ تعالیٰ کے یہ چاروں تسلط مسلسل اور مستقل ہیں۔ ان میں سے کوئی تسلط اگر منقطع ہو جائے تو کائنات فنا ہو جائے گی۔ وہ تسلط خالقیت کا ہو، مالکیت کا ہو یا عطائے زندگی کا ہو یا عطائے نسمہ کا۔
تشریح:
نمبر۱، کائنات کا لاشعور، نہر تسوید۔ نمبر ۲، کائنات کا شعور، نہر تجرید۔ نمبر۳، کائنات کا ارادہ، نہر تشہید۔ نمبر۴، کائنات کی حرکت، نہر تظہیر ہے۔
نوٹ: تمام حرکات نسمہ کا عمل ہے۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے ’’میں نے کھایا یا میں نے لکھا۔‘‘ وہ یہ نہیں کہتا کہ میرے منہ نے کھایا یا میرے ہاتھ نے لکھا۔ شعوری طور پر نسمہ ہی تمام اعمال کا دعویدار ہے اوربرائی بھلائی کا صدور اسی سے ہوتا ہے۔ اس ہی کی تشریح انجیل، باب۱۷ آیت ۲۷۔۲۸ میں کی گئی ہے۔
’’تا کہ خدا کو تلاش کریں شاید کہ اسے پا لیں ہر چند وہ ہم میں سے کسی سے دور نہیں ہے۔‘‘(نہر تجرید) کیونکہ ’’اس ہی میں ہم جیتے‘‘(نہر تشہید)، ’’چلتے پھرتے(نہر تظہیر)، ’’اور موجود ہیں‘‘(نہر تسوید) ہے۔
نوٹ: ان دونوں آیتوں میں بھی چاروں نہروں کا تذکرہ ہے جن میں سے ایک نہر تظہیر یا نسمہ ہے۔ اس ہی مفہوم کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مَنْ عَرَفْ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ میں بیان فرمایا ہے۔ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا یعنی سب انسان کے نفس ناطقہ سے بالکل متصل ہے۔ یہاں پڑھنے والے کے ذہن میں یہ خیال آ سکتا ہے کہ برائی بھلائی سب کا خالق اللہ ہے۔ یہ بات صحیح ہے۔ اسلام اس کا شاہد ہے لیکن برائی بھلائی کا خالق ہونے سے اللہ تعالیٰ پر کسی فعل کے صدور کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی جب کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو برائی یا بھلائی کرنے کا اختیار دیا ہے۔ اس کی سب سے پہلی مثال حضرت آدمؑ کے لئے شجر ممنوعہ کے قریب جانے کی ممانعت تھی۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ممانعت کرنے سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ وہ شجر ممنوعہ کے قریب جائیں یا نہ جائیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں برائی بھلائی کا خالق ہونا اللہ تعالیٰ کا وصف ہے لیکن برائی کرنا یا نہ کرنا انسان کا اپنا اختیار ہے۔ ) *
اب ہم نسمہ کی صلاحیتوں کا تذکرہ کریں گے۔ اس تذکرہ کے بعض حصے استدراج کے خصوصی بیانات ہیں۔ قرآن پاک سے یہ بات ثابت ہے کہ ازل سے ابد تک اللہ تعالیٰ کا حکم نافذ ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر محیط ہیں اَلَااِنَّھُمْ فِیْ مِریَۃٍ مِّنْ لِّفَآ ءِ رَبِّھِمْ اَلَا اِنَّہٗ بِکُلِّ شَیْءٍی مُّحِیْط (آیت ۵۴، سورہ حٰم السجدہ، پارہ ۲۵)
اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی اور اللہ تعالیٰ کے علم سے کسی چیز کا باہر ہونا ناممکن ہے۔ دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ریکارڈ علم کا ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور ایک ریکارڈ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔
اللہ تعالیٰ کی معرفت قدیم ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرح ہمیشہ اور ہمیشہ قائم رہے گی۔ چنانچہ یہ دونوں ریکارڈ اللہ تعالیٰ کی صفتِ علم اور صفتِ حکم میں موجود ہیں۔ صفت علم کو ’’علم القلم‘‘ اور صفت حکم کو ’’لوح محفوظ‘‘ کہتے ہیں۔ ان دونوں ریکارڈوں کی موجودگی ایسی غیب کی دنیا کا پتہ دیتی ہے جس سے ہماری دنیا کی ابتدا ہوتی ہے۔ لوحِ محفوظ کے تمام احکامات بصورتِ تمثال عالم غیب میں موجود ہیں اور یہ احکامات علم الٰہی کے مطابق تفصیل کے ساتھ عالم ناسوت یعنی اس مادی دنیا میں نازل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے۔ میں نے ہر چیز کو دو رخوں پر پیدا کیا ہے۔ اس نزول کا ایک رخ عمل کرانے والے یعنی فرشتے ہیں اور دوسرا رخ عمل کرنے والی عالم ناسوت کی مخلوق ہے۔
نہروں کی حدود چار عالموں سے موسوم ہیں۔
نہر تسوید کی حدود عالم لاہوت
نہر تجرید کی حدود عالم جبروت
نہر تشہید کی حدود عالم ملکوت اور
نہر تظہیر کی حدود عالم ناسوت ہے۔
عالم لاہُوت وہ دائرہ ہے جس کے اندر علم الٰہی بصورت غیب متمکن ہے۔ اس دائرہ کی تجّلی میں ایسے لاشمار دائرے ہیں جو خفیف ترین نقطہ سے دائرہ کی شکل میں توسیع اختیار کر کے پوری کائنات کو محیط ہوتے رہتے ہیں۔ تجّلی کا ہر نقطہ جب دائرہ بنتا ہے تو پہلے ہر نقطہ کے دائرے سے بڑا ہوتا ہے۔ تجّلی کے یہ لاشمار دائرے کائنات کی تمام اصلوں کی اصل ہیں۔ ہم اس غیب کا نام برترازورائے شہود(غیب الغیب) رکھ سکتے ہیں۔ لاشعور کی اصل تجّلی کے ان ہی دائروں سے انواع کائنات کی اصلیں بنتی ہیں۔ اگر ساری موجودات کی صلاحیتیں جمع کی جائیں اور ہم ان صلاحیتوں کی ماہیت کو تلاش کرنا چاہیں تو اس تلاش کی انتہا پر تجّلی کے دائرے پائیں گے۔ لیکن ان دائروں کو صرف روح کی نگاہ دیکھ سکتی ہے جو تخلیق کی اصل ہے۔
جب یہ تجّلی اپنی حد سے نزول کرتی ہے تو انواع کائنات کی ماہیت (تصور) بن جاتی ہے۔ ہم اس کو عام الفاظ میں لاشعور (غیب) کہہ سکتے ہیں۔ تصوف میں ایسی ماہیت کی حدود کا نام نہر ِتجرید ہے۔ جب یہ نہر اپنی حدوں سے نزول کرتی ہے تو شعور بن جاتی ہے۔ اس ہی دائرہ شعور کا نام نہر تشہید ہے۔ جب نہر تشہید اپنی حدوں سے نزول کرتی ہے تو عالم محسوس کی حدوں میں داخل ہو جاتی ہے جس کو عالم ناسوت یا مادی دنیا بھی کہتے ہیں۔ یہی دنیا حرکت کا ظہور ہے۔ اس ہی کو تصوف کی زبان میں مظہر کہتے ہیں۔
علم کی دو قسمیں ہیں۔۔۔۔۔۔علمِ حضوری اور علمِ حصولی۔
علم حضوری کی دو قسمیں ہیں:
غیب الغیب اور غیب (علم القلم اور علم لوح)
علم حصولی کی بھی دو قسمیں ہیں:
علم شعور اور علم احساس
علم حضوری کائنات کے صفاتی احساس کا مجموعہ ہے۔ علم حضوری روح کی بیداری سے میسر آتا ہے۔
علم حصولی اگرچہ محض روح کی تحریکات کا نتیجہ ہے لیکن اس کا اظہار جسم کے ذریعے ہوتا ہے۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )