Topics

خواب اور بیداری

روح کی ساخت مسلسل حرکت چاہتی ہے۔ بیداری کی طرح نیند میں بھی انسان کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے۔ لیکن وہ جو کچھ کرتا ہے اس سے واقف نہیں ہوتا۔ صرف خواب کی حالت ایسی ہے جس کا اسے علم ہوتا ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ ہم خواب کے علاوہ نیند کی باقی حرکات سے کس طرح مطلع ہوں۔ انسان کی ذات نیند میں جو حرکات کرتی ہے اگر حافظہ کسی طرح اس لائق ہو جائے کہ اس کو یاد رکھ سکے تو ہم باقاعدگی سے اس کا ایک ریکارڈ رکھ سکتے ہیں۔ حافظہ کسی نقش کو اس وقت یاد رکھتا ہے جب وہ گہرا ہو۔ یہ مشاہدہ ہے کہ بیداری کی حالت میں ہم جس چیز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اس کو یاد رکھ سکتے ہیں اور جس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اسے بھول جاتے ہیں۔ قانونی طور پر جب ہم نیند کی تمام حرکات کو یاد رکھنا چاہیں تو دن رات میں ہمہ وقت نگاہ کو باخبر رکھنے ک اہتمام کریں گے۔ 

یہ اہتمام صرف جاگنے سے ہی ہو سکتا ہے۔ طبیعت اس بات کی عادی ہے کہ آدمی کو سُلا کر ذات کو بیدار کر دیتی ہے۔ پھر ذات کی حرکات شروع ہو جاتی ہیں۔ پہلے پہل تو اس عادت کی خلاف ورزی کرنا طبیعت کے انقباض کا باعث ہوتا ہے۔ کم سے کم دو دن دو رات گزر جانے کے بعد طبیعت میں کچھ بسط پیدا ہونے لگتا ہے اور ذات کی حرکات شروع ہو جاتی ہیں۔ اول اول آنکھیں بند کر کے ذات کی حرکات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ مسلسل اسی طرح کئی ہفتے یا کئی ماہ جاگنے کا اہتمام کرنے کے بعد آنکھیں کھول کر بھی ذات کی حرکات سامنے آنے لگتی ہیں۔ اہل تصوف بند آنکھوں کی حالت کو ورود اور کھلی آنکھوں کی حالت کو شہود کہتے ہیں۔ ورود یا شہود میں نگاہ کے دیکھنے کا ذریعہ لطیفۂ خفی کا لینسLENSہوتا ہے اور جو کچھ نظر آتا ہے۔ جویہ کے انطباعات ہوتے ہیں۔ یہ انطباعات ثابتہ کی وہ تجلیات ہیں جن کا عکس جویہ میں شکل وصورت اور حرکات بن جاتا ہے۔ جب تک یہ تجلیاں ثابتہ میں ہیں غیب ُ الغیب کہلاتی ہیں اور ان کو علم الٰہی بھی کہا جاتا ہے۔ ان تجلیوں کے عکس کو اعیان میں غیب یا احکام الٰہی کہتے ہیں۔ پھر ان ہی تجلیوں کا عکس جویہ کی حد میں داخل ہونے پر ورود یا شہود بن جاتا ہے۔ 


Topics


لوح وقلم

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )