Topics

نسبت کا بیان

نسبت اویسیہ

نسبت اویسیہ کا انکشاف پہلے پہل حضرت غوث الاعظمؒ کے طریق میں ہوا جس کی مثال پانی کے ایسے چشمے سے دی جا سکتی ہے جو کسی پہاڑ کے اندر یا کسی میدان میں یکایک پھوٹ پڑے اور کچھ دور بہہ کر پھر زمین میں جذب ہو جائے اور مخفی طور پر زمین کے اندر بہتے بہتے پھر کسی جگہ فوارہ صفت پھوٹ نکلے۔ علیٰ ہذالقیاس حضرت غوث الاعظمؒ کے بعد یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ لوگ اس ہی نسبت کو نسبت اویسیہ کہتے ہیں۔ اس نسبت کا فیضان مخفی طور سے یا تو ملاء اعلیٰ کے ذریعے یا پھر انبیاء کی ارواح کی معرفت یا قرب فرائض کے اولیائے سابقین کی روحوں کے واسطے سے ہوتا ہے۔ 

نسبت سُکینہ

یہ نسبت اول جذب، پھر عشق اور پھر سُکینہ کی نسبتوں کے مجموعے پر مشتمل ہے۔ سکینہ وہ نسبت ہے جو اکثر صحابہ کرامؓ کو حاصل تھی۔ یہ نسبت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت کے ذریعے نور نبوت کے حصول سے پیدا ہوتی ہے۔ 

نسبت عشق

جب قلب انسانی میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور احسان کا ہجوم ہوتا ہے اور انسان قدرت کے عطیات میں فکر کرتا ہے، ا س وقت نور اللہ کے تمثلات بار بار طبیعت انسانی میں موجزن ہوتے ہیں۔ یہاں سے اس ربط یا نسبت عشق کی داغ بیل پڑ جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ اس نسبت کے باطنی انہماک کی کیفیتیں رونما ہونے لگتی ہیں پھر ان لطیفوں یا روشنی کے دائروں پر جو انسانی روحوں کو گھیرے ہوئے ہیں روشنی کا رنگ چڑھنے لگتا ہے۔ یعنی ان دائروں میں انوار الٰہیہ پے در پے پیوسط ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح نسبت عشق کی جڑیں مستحکم ہو جاتی ہیں۔

نسبت جذب

اس نسبت کا تیسرا جزو نسبت جذب ہے۔ یہ وہ نسبت ہے جس کو تبع تابعین کے بعد سب سے پہلے خواجہ بہاء الحق والدین نقشبندی نے نشانِ بے نشانی کا نام دیا ہے۔ اس ہی کو نقشبندی جماعت یادداشت کا نام دیتی ہے جب عارف کا ذہن اس سمت میں رجوع کرتا ہے جس سمت میں ازل کے انوار چھائے ہوئے ہیں اور ازل سے پہلے کے نقوش موجود ہیں۔ تو یہی نقوش عارف کے قلب میں بار بار دور کرتے ہیں اور صرف ’’وحدت‘‘ فکرِ عارف کا احاطہ کر لیتی ہے۔ اور ہر طرف ’’ہوئیت‘‘ کا تسلط ہو جاتا ہے تو یہاں سے اس نسبت کی شعاعیں روح پر نزول کرتی ہیں۔ جب عارف ان میں گھر جاتا ہے اور کسی طرف نکلنے کی راہ نہیں پاتا تو عقل و شعور سے دست بردار ہو کر خود کو اس نسبت کی روشنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔

تنزلات

اب ہم تنزلات کا تذکرہ کرتے ہیں تا کہ اس نسبت کی حقیقت واضح ہو جائے۔ جلی تنزلات تین ہیں۔ ان تنزلات میں ہر جلی تنزل کے ساتھ ایک خفی تنزل بھی ہے۔ ہر جلی اور خفی تنزل کے ساتھ ایک ورود یا ایک شہود کا تعلق ہے۔ پہلا جلی تنزل سرِاکبر ہے، دوسرا جلی تنزل روحِ اکبر ہے اور تیسرا جلی تنزل شخصِ اکبر ہے۔ شخصِ اکبر اس مظہر کا نام ہے جس کو کائنات کہتے ہیں۔ اس ہی کائنات کو مادی آنکھ دیکھتی ہے اور پہچانتی ہے۔ کائنات کی ساخت میں بساط اول وہ روشنی ہے جس کو قرآن پاک نے ماء(پانی) کے نام سے یاد کیا ہے۔

موجودہ دور کی سائنس میں اس کو گیسوں GASESکے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان ہی صدہا گیسوں کے اجتماع سے اولاً جو مرکب بنا ہے اس کو پارہ یا پارہ کی مختلف شکلیں بطور مظہر پیش کرتی ہیں۔ ان ہی مرکبات کی بہت سی ترکیبوں سے مادی اجسام کی ساخت عمل میں آتی ہے اور ان ہی مادی اجسام کو موالید ثلاثہ یعنی حیوانات، نباتات اور جمادات کہتے ہیں۔ تصوف کی زبان میں ان گیسوں میں سے ہر گیس کی ابتدائی شکل کا نام نسمہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں نسمہ حرکت کی ان بنیادی شعاعوں کے مجموعہ کا نام ہے جو وجود کی ابتداء کرتی ہے۔

حرکت اس جگہ ان لکیروں کو کہا گیا ہے جو خلاء میں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ نہ تو وہ ایک دوسرے سے فاصلہ پر ہیں اور نہ ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ یہی لکیریں مادی اجسام میں آپس کا واسطہ ہیں۔ ان لکیروں کو صرف شہود کی وہ آنکھ دیکھ سکتی ہے جو روح کی نگاہ کہلاتی ہے۔ کوئی بھی مادی خوردبین اس کو کسی شکل وصورت میں نہیں دیکھ سکتی۔ البتہ ان لکیروں کے تاثرات کو مادیت مظہر کی صورت میں پا سکتی ہے۔ ان ہی لکیروں کو اہل شہود کی تحقیق میں تمثل کی نمود کہا جاتا ہے۔ 


Topics


لوح وقلم

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )