Topics

باصرہ اور شہود نفسی

ہم اوپر کہہ چکے ہیں کہ لطیفۂ نفسی کی روشنیاں موجودات کے ہر ذرے کا احاطہ کرتی ہیں۔ اس ہی لطیفۂ نفسی کی ایک شعاع کا نام باصرہ ہے۔ یہ شعاع کائنات کے پورے دائرے میں دور کرتی رہتی ہے۔ یوں کہنا چاہئے کہ تمام کائنات ایک دائرہ ہے اور لطیفۂ نفسی کی روشنی ایک چراغ ہے۔ اس چراغ کی لو کا نام باصرہ ہے۔ جہاں اس چراغ کی لو کا عکس پڑتا ہے وہاں ارد گرد اور قرب و جوار کو چراغ کی لو دیکھ لیتی ہے۔ اس چراغ کی لو میں جس قدر روشنیاں ہیں ان میں درجہ بندی اور تنوع پایا جاتا ہے۔ کہیں لو کی روشنی بہت ہلکی، کہیں ہلکی، کہیں تیز اور کہیں بہت تیز پڑتی ہے۔ جن چیزوں پر لو کی روشنی بہت ہلکی پڑتی ہے، ہمارے ذہن میں ان چیزوں کا خیال رونما ہوتا ہے۔ جن چیزوں پر لو کی روشنی تیز پڑتی ہے، ہمارے ذہن میں ان چیزوں کا تصور جگہ کر لیتا ہے اور جن چیزوں پر لو کی روشنی بہت تیز پڑتی ہے ان چیزوں تک ہماری نگاہ پہنچ کر ان کو دیکھ لیتی ہے۔ اس طرح لطیفۂ نفسی کی روشنیوں کے چار ابتدائی مرحلے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر مرحلہ لطیفۂ نفسی کی روشنیوں کے شہود کا ایک قدم ہے۔ شہود کسی روشنی تک خواہ وہ بہت ہلکی ہو یا تیز ہو نگاہ کے پہنچ جانے کا نام ہے۔ شہود نفسی ایک ایسی صلاحیت ہے جو ہلکی سی ہلکی روشنی کو نگاہ میں منتقل کر دیتا ہے تا کہ ان چیزوں کو جواب تک محض تواہم تھیں خدوخال، شکل وصورت، رنگ اور روپ کی حیثیت میں دیکھا جا سکے۔

روح کی وہ صلاحیت جس کا نام شہود ہے وہم کو، خیال کو یا تصور کو نگاہ تک لاتی ہے اور ان کی جزئیات کو نگاہ پر منکشف کر دیتی ہے۔ روح کی یہ صلاحیت جب لطیفۂ نفسی کی حدوں میں عود کرتی ہے اور لطیفۂ نفسی کی روشنیوں میں قانونی اصول بن کر رونما ہوتی ہے تو وہ ایسی شرائط پوری کرتی ہے جو بیداری کی حسیات کا خاصہ ہیں اور ان خاصوں کے مظہر کا نام شہود نفسی ہے۔ جن حدوں میں شہود نفسی عمل کرتا ہے ان حدوں کا نام جویہ ہے۔ ان حدوں کی جزئیات بیداری کا نصب العین، بیداری کی حرکتیں، بیداری کا مفہوم اور بیداری کے نتائج پیدا کرتی ہیں۔ یہ مرحلہ شہود نفسی کا پہلا قدم ہے۔ اس مرحلہ میں سارے اعمال باصرہ یا نگاہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس شہود کی مزید ترقی یافتہ شکلیں وہی حالت پیدا کرتی ہیں جو بیداری کے عالم میں باصرہ کے علاوہ اور چار حسیات جن کے نام شامہ، سماعت، ذائقہ اور لامسہ میں پیدا کرتی ہیں۔

جب لطیفۂ نفسی کی روشنیاں مضروب ہو جاتی ہیں یعنی جب باصرہ کی کسی حس کا بار بار اعادہ ہوتا ہے تو درجہ بدرجہ باقی حسیں ترتیب پا جاتی ہیں۔ اس ترتیب کا دارومدار لطیفۂ نفسی کی روشنیوں کے زیادہ سے زیادہ ہو جانے میں ہے۔ یہ اضافہ زیادہ سے زیادہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص بیداری میں ذہنی رجحانات کو مسلسل ایک ہی نقطہ پر مرکوز کرنے کا عادی ہو جائے۔ اور یہ چیز عمل استرخاء کے پے در پے کرنے سے حاصل ہو جاتی ہے۔ 


Topics


لوح وقلم

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )