Topics

’’جُو‘‘ کا واسطہ

انسانی زندگی کے دو رخ ہیں۔ ایک ظاہری رخ اور دوسرا باطنی رخ۔ ظاہری رخ دیکھنے والوں کے لئے پہچان کاذریعہ ہے کہ یہ فلاں شخص ہے یا یہ فلاں چیز ہے اور باطنی رخ دیکھی ہوئی چیزوں کی یادداشت کا تصویر خانہ ہے یعنی دیکھی ہوئی تمام چیزیں اس رخ میں بشکل تصویر محفوظ رہتی ہیں۔ ہم ان دونوں رخوں کو پوری طرح سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ جو کچھ ہمارے باطنی رخ میں منقش اور موجود ہے، وہ جب ظاہری طور پر ہماری آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو ہم بلا تامل اسے شناخت کر لیتے ہیں۔ اب یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ جو کچھ باطن میں ہے وہی ظاہر میں ہے اور جو چیز باطن میں موجود نہیں ہے وہ ظاہر میں موجود نہیں ہو سکتی۔ گویا ظاہر باطن کا عکس ہے۔ باطن اصل ہے اور ظاہر اس کا پَرتو ہے۔ اور کسی شخص کا باطن اس کی اپنی ذات ہے، ایسی ذات جو امر ربی یا جزولاتجزاء یا روح کہلاتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کی ذات میں پوری کائنات کے تمام اجزاء اور اجزاء کی حرکتیں منقوش اور موجود ہیں۔

انسان کی ذات دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ داخلی ہے اور دوسرا حصہ خارجی ہے۔ داخلی حصہ اصل ہے اور خارجی حصہ اس ہی اصل کا سایہ ہے۔ داخلی حصہ وحدت کی حیثیت رکھتا ہے اور خارجی حصہ کثرت کی۔ داخلی حصہ میں مکان اور زمان دونوں نہیں ہوتے لیکن خارجی حصہ میں مکان اور زمان دونوں ہوتے ہیں۔ داخلی حصہ میں ہر چیز جزولاتجزاء کی حیثیت رکھتی ہے، کسی مکانیت کا احاطہ بھی موجود نہیں ہے۔ خارجی حصہ میں مکانیت اور زمانیت دونوں موجود ہیں۔

مثال:

ہم کسی عمارت کی ایک سمت میں کھڑے ہو کر اس عمارت کے ایک زاویہ کو دیکھتے ہیں۔ جب اس عمارت کے دوسرے زاویہ کو دیکھنا ہوتا ہے تو چند قدم چل کے اور کچھ فاصلہ طے کر کے ایسی جگہ کھڑے ہوتے ہیں جہاں سے عمارت کے دوسرے رخ پر نظر پڑتی ہے اور فاصلہ طے کرنے میں تھوڑا سا وقفہ بھی صرف ہوا۔ اس طرح نظر کا ایک زاویہ بنانے کے لئے مکانیت اور زمانیت دونوں وقوع میں آئیں۔ ذرا وضاحت سے اس ہی مسئلہ کو یوں بیان کر سکتے ہیں کہ جب ایک شخص لندن ٹاور کو دیکھنا چاہے تو کراچی سے سفر کر کے اسے لندن پہنچنا پڑے گا۔ ایسا کرنے میں اس کو ہزاروں میل کی مکانیت اور کئی دنوں کا زمانہ لگانا پڑا۔ اب نگاہ کا وہ زاویہ بنا جس سے لندن ٹاور دیکھا جا سکتا ہے۔ مقصد صرف نگاہ کا وہ زاویہ بنانا تھا جو لندن ٹاور کو دکھا سکے۔ یہ انسان کی ذات کے خارجی حصے کا زاویہ نگاہ ہے۔

اس زاویہ میں مکانیت اور زمانیت استعمال ہونے سے کثرت پیدا ہو گئی۔ اگر ذات کے داخلی زاویۂ نگاہ سے کام لینا ہو تو ہم اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے ذہن میں لندن ٹاور کا تصور کر سکتے ہیں۔ تصور کرنے میں جو نگاہ استعمال ہوتی ہے وہ اپنی ناتوانی کی وجہ سے ایک دھندلا سا خاکہ دکھاتی ہے۔ لیکن وہ زاویہ ضرور بنا دیتی ہے جو ایک طویل سفر کر کے لندن ٹاور تک پہنچنے کے بعد ٹاور کو دیکھنے میں بنتا ہے۔ اگر کسی طرح نگاہ کی ناتوانی دور ہو جائے تو زاویۂ نگاہ کا دھندلا خاکہ روشن اور واضح نظارے کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے اور دیکھنے کا مقصد بالکل اس ہی طرح پورا ہو جائے گا جو سفر کی جدوجہد اور سفر کے بہت سے وسائل استعمال کرنے کے بعد پورا ہوتا ہے۔ اصل چیز زاویۂ نگاہ کا حصول ہے جس طرح بھی ممکن ہو۔

یہ واضح ہو گیا کہ ایک انسان کی روح فی نفسہٖ جزولاتجزاء ہے۔ ہر انسان زاویۂ نگاہ کے تحت اپنی ذات میں پوری کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس کائنات کا جو خود بھی جزولاتجزاء کی حیثیت رکھتی ہے۔ ذات کا داخلی حصہ وحدت اور ذات کا خارجی حصہ کثرت ہے۔ وحدت وہ حصہ ہے جس میں مکانیت ہے نہ زمانیت، صرف شاہد اور مشہود اور مشاہدہ۔ یعنی احساس کے تین حصوں کی موجودگی پائی جاتی ہے اور ذات کی خارجی حصہ میں محض اس احساس کا عکس ہے جس کا نام کثرت رکھ لیا گیا ہے۔ یہ عکس مکانیت اور زمانیت دونوں کو احاطہ کرنے کے بعد احساس کو ٹھوس شکل میں پیش کرتا ہے۔ جیسے ہی انسان ایک سمت میں چلا گیا اور ذرا سا وقفہ گزرا، اس نے اپنے احساس میں ایک دباؤ سا محسوس کیا، فوراً احساس کے ٹکڑے ہوتے چلے گئے۔ وہ سوچنے لگا، وہ دیکھنے لگا، سننے لگا، سونگھنے لگا اور چھونے لگا۔ یہ احساس بھی جو شاہد کی حیثیت میں سب کچھ کر رہا ہے جزو لاتجزاء ہے۔ مشہود کی حیثیت میں جو کچھ بھی محسوس ہو رہا ہے وہ بھی جزولاتجزاء ہے اور مشاہدہ کی حیثیت میں جو شاہد اور مشہود کا درمیانی واسطہ ہے وہ بھی جزولاتجزاء ہے۔ یہ ہے کُنہِ احساس اور وحدت و کثرت کی حقیقت۔


Topics


لوح وقلم

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )