Topics
دنیا میں ہزاروں انسان بستے ہیں۔ ہر انسان دوسرے کی زندگی سے ناواقف ہے۔ یعنی ہر انسان کی زندگی راز ہے جس کو دوسرے نہیں جانتے۔ اس راز کی بدولت ہر انسان اپنی غلطیوں کو چھپاتے ہوئے خود کو بہتر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور مثالی بننا چاہتا ہے۔ اگر اس کی غلطیاں لوگوں کے سامنے ہوتیں تو پھر وہ خود کو بہتر ظاہر کرنے کی کوشش نہ کرتا اور زندگی کا ارتقاء عمل میں نہ آتا۔
علمِ حصولی
انسانی زندگی کی ساخت میں کچھ ایسے عناصر استعمال ہوئے ہیں جو شعور کی نگاہ سے پوشیدہ ہیں اور شعور کو مثالی یا اعلیٰ زندگی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ گویا اخفاء ایسی حقیقت ہے جس کو ارتقاء کا نام دے سکتے ہیں۔ انسانی ساخت کی یہی خصوصیت اسے جانوروں کی ساخت سے ممتاز کرتی ہے۔ لیکن حیوانی زندگی کے عناصر حیوان کے شعور سے مخفی نہیں۔ ہر ایک حیوان کے اعمال معین ہیں جن کو اس کا شعور پوری طرح جانتا ہے۔ اس ہی باعث ایک جانور خود کو دوسرے جانور سے بہتر ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔
انسانی ساخت کا یہ شعوری امتیاز ہی تمام علوم و فنون کا مخرج ہے۔ انسان کا یہی شعوری امتیاز انسان کو اپنے لاشعور سے جدا کرتا ہے۔ یہیں سے انسان ایسی حد قائم کرتا ہے جو علم حضوری کے اجزاء سے ایک علم کی داغ بیل ڈال دیتی ہے۔ یہی علم تمام طبعی علوم کا مجموعہ ہے۔ تصوف کی اصطلاح میں اس کو علم حصولی کہتے ہیں۔ اس علم کے خدوخال زیادہ ترقیاسات اور مفروضات پر مشتمل ہوتے ہیں۔
علم لدُنّی
یہ علم علم حضوری اور علم حصولی دونوں کی حدیں قائم کرتا ہے۔اور دونوں کو ایک دوسرے سے متعارف کراتا ہے۔ یہ ان حقائق پر مبنی ہے جو علم حصولی کی گہرائیوں میں تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ اس علم کے خدوخال آیاتِ الٰہی سے بنتے ہیں۔ آیات الٰہی سے مراد وہ نشانیاں ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے بار بار قرآن پاک میں توجہ دلائی ہے۔ دراصل تمام طبعی قوانین روحانی قوانین کا اتباع کرتے ہیں۔
طبعی قوانین سے روحانی قوانین کا سراغ لگانا اور ان کی حقیقت تک پہنچ کر علم حضوری سے روشناس ہونا علم لدنی کا شعار ہے۔ جب یہ علم انبیاء کو حاصل ہوتا ہے توعلم نبوت کہلاتا ہے اور جب یہی علم اولیاء اللہ کو حاصل ہوتا ہے تو علم لدنی کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ وحی انبیاء کے لئے مخصوص ہے اور الہام اولیاء کیلئے۔
یہ علم انبیاء یا اولیاء کو کس طرح حاصل ہوتا ہے؟ اس چیز کو ذیل کی سطور میں اجمالاً بیان کیا گیا ہے کیونکہ تفصیل کی اس کتاب میں گنجائش نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا تو کسی دوسری کتاب میں اس کی تفصیل بیان کی جا سکے گی۔
کائنات کی ساخت چار بُعد یا چار دائروں پر مشتمل ہے۔ گزشتہ صفحات میں ان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن وہاں ان کے اوصاف صرف ایک زاویہ پر تذکرہ میں آئے ہیں۔ ان دائروں کا دوسرا زاویہ تصوف کی اصطلاح میں الگ الگ چار نام رکھتا ہے۔
۱۔ راح
۲۔ روح
۳۔ رویاء
۴۔ رویت
اس زاویہ کے یہ چار اوصاف لاشعور سے تعلق رکھتے ہیں۔ راح منفی لاشعور ہے اور روح مثبت لاشعور۔ اس ہی طرح رویاء منفی شعور ہے اور رویت مثبت شعور۔
راح یعنی منفی لاشعور میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔ وہاں لامکان اور مکان یعنی زمانی اور مکانی دونوں فاصلے معدوم ہیں۔ ازل سے ابد تک کی تمام واردات ایک ہی نقطہ میں پائی جاتی ہیں۔ جب یہ نقطہ حرکت میں آتا ہے تو اس کا نام بدل جاتا ہے۔ پہلے یہ نقطہ راح کہلاتا تھا لیکن حرکت پیدا ہونے کے بعد یہی نقطہ روح کہلاتا ہے۔ اس نقطہ میں حرکت کی نمود ہی زمانی اور مکانی فاصلے پیدا کرتی ہے۔
پہلے صفحات میں کائناتی نظر کا بیان ہوا ہے۔ یہی کائناتی نظر، راح ہے۔ یہی نظر زمانی اور مکانی فاصلوں میں تقسیم ہونے کے بعد حقیقت واردہ یا روح کہلاتی ہے۔
اگر ہم کسی شخص کے سنانے کو سورج کا نام لیں تو آناً فاناً اس کے ذہن سے سورج کا عکس گزرتا چلا جائے گا۔ فی الواقع اس کے ذہن سے گزرنے والا وہ سورج ہے جس سے وہ خارج میں روشناس ہے۔ وہ اور کسی سورج کو نہیں جانتا۔ وہ فقط اس ہی سورج سے واقف ہے جو اس کے ذہن میں وارد ہے۔ یہ حرکت روح کہلاتی ہے گویا روح انسانی ذہن سے ایک حقیقت واردہ کی صورت میں متعارف ہے۔ اور ساری موجودات میں یکساں طور پر جاری و ساری ہے۔ جب کوئی شخص اس حقیقت واردہ کو اپنے ذہن میں قائم کرتا ہے تو یہ تصور کی شکل اختیار کر لیتی ہے یعنی روح شعور میں سما جانے کے بعد تصور بن جاتی ہے۔ اس ہی حالت کو رویاء کہتے ہیں لیکن جب یہ تصور زاویۂ بصر کی سطح پر آ جاتا ہے تو رویت کہلاتا ہے۔ اس وقت کسی شخص کی بصارت شئے کو بالمقابل مجسم شکل میں دیکھتی ہے۔ نظر کا کردار اس منزل میں بھی وہی رہتا ہے جو راح، روح اور رویاء میں تھا۔ عام اصطلاح میں پہلے دائرے کو لاشعور، دوسرے کو ادراک، تیسرے کو تصور اور چوتھے کو شئے کہتے ہیں۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )