Topics
کائنات میں ہر مخلوق شعور رکھتی ہے۔ مثلاً درختوں اور جانوروں کو پیاس لگتی ہے اور پانی پی کر پیاس بجھانے کا شعور حاصل ہے۔ اسی طرح ہوا کو پانی کے ننھے ننھے ذروں کا اور ان کو اپنے دوش پر اٹھا لینے کا شعور حاصل ہے۔ یہ عام سطح کا شعور ساری موجودات میں پایا جاتا ہے۔ لیکن اس بات کا سمجھنا کہ موجودات کو یہ وصف کہاں سے ملا صرف انسان کو میسر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کے پُتلے میں اپنی روح پھونک کر یہ علم اس کو بخشا ہے۔
قرآن پاک میں تینوں علوم کا تذکرہ ملتا ہے۔
۱۔ علم حضوری
۲۔ علم حصولی
۳۔ علم تدلّٰی یا علم نبوت
علم حضوری
ہر ذی شعور کائنات کا محل وقوع جانتا ہے۔ وہ یہ ضرور سوچتا ہے کہ آخر یہ تمام کس جگہ قائم ہیں۔ کس سطح پر رُکی ہوئی ہیں۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ اس سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ بار بار اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں علیم ہوں، میں خبیر ہوں، میں بصیر ہوں، میں محیط ہوں، میں قدیر ہوں، میں زمین و آسمان کا نور ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام عبارتوں سے لازماً یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ کائنات کا محل وقوع اللہ تعالیٰ کا علم ہے۔
کائنات اللہ تعالیٰ کے علم میں کس طرح واقع ہے؟ یہ بات سمجھنے کے لئے کائنات کے اجزاء کی داخلی ساخت جاننا ضروری ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر چیز اپنے مقام سے قدم قدم چل کر منزل کی طرف سفر کر رہی ہے۔ اس سفر کا نام ارتقاء ہے۔ اب یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ارتقا کیا ہے۔ اور کس طرح وقوع میں آ رہا ہے۔
ہم روشنی کے ذریعے دیکھتے یا سنتے، سمجھتے اور چھوتے ہیں۔ روشنی ہمیں حواس دیتی ہے۔ جن حواس کے ذریعے ہمیں کسی شئے کا علم حاصل ہوتا ہے وہ روشنی کے دیئے ہوئے ہیں۔ اگر روشنی درمیان سے حذف کر دی جائے تو ہمارے حواس بھی حذف ہو جائیں گے۔ اس وقت نہ تو خود ہم اپنے مشاہدہ میں باقی رہیں گے اور نہ کوئی دوسری شئے ہمارے مشاہدہ میں باقی رہے گی۔
مثال:
اگر کوئی مصور سفید کاغذ پر رنگ بھر کے درمیان میں ایک کبوتر کی جگہ خالی چھوڑ دے۔ پھر وہ کاغذ دکھا کے کسی شخص سے پوچھا جائے تمہیں کیا نظر آ تا ہے تو وہ کہے گا میں ایک سفید کبوتر دیکھ رہا ہوں۔
جس طرح یہ مثال پیش کی گئی بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ کا علم کائنات کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔ کائنات کا ہرذرہ بصورت خلاء اللہ تعالیٰ کے نور میں واقع ہے۔ دیکھنے والے کو اللہ تعالیٰ کا نور نظر نہیں آتا، صرف کائنات کا خلاء نظر آتا ہے۔ جس کو وہ اشیاء چاند، سورج، زمین، آسمان، آدمی، جانور وغیرہ وغیرہ کہتا ہے۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )