Topics
مراقبہ کی حالت میں باطنی نگاہ سے کام لینا ہی مقصود ہوتا ہے۔ یہ مقصد اس ہی طرح پورا ہو سکتا ہے کہ آنکھ کے ڈیلوں کو زیادہ سے زیادہ معطل رکھا جائے۔ آنکھ کے ڈیلوں کے تعطل میں جس قدر اضافہ ہو گا اس ہی قدر باطنی نگاہ کی حرکت بڑھتی جائے گی۔ دراصل یہی حرکت روح کی روشنی میں دیکھنے کا میلان پیدا کرتی ہے۔ آنکھ کے ڈیلوں میں تعطل ہو جانے سے لطیفۂ نفسی میں اشتعال ہونے لگتا ہے۔ اور یہ اشتعال باطنی نگاہ کی حرکت کے ساتھ تیز تر ہوتا جاتا ہے جو شہود میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
مثال:
انسان کے جسم کی ساخت پر غور کرنے سے اس کی حرکتوں کے نتائج اور قانون کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ بیداری میں آنکھوں کے ڈیلوں پر جلدی غلاف متحرک رہتا ہے۔ جب یہ غلاف حرکت کرتا ہے تو ڈیلوں پر ہلکی ضرب لگاتا ہے اور آنکھ کو ایک لمحہ کے لئے روشنیوں اور مناظر سے منقطع کر دیتا ہے۔ غلاف کی اس حرکت کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ خارجی چیزیں جس قدر ہیں آنکھ ان سے بالتدریج مطلع ہوتی ہے اور جس جس طرح مطلع ہوتی جاتی ہے ذہن کو بھی اطلاع پہنچاتی رہتی ہے۔ اصول یہ بنا کہ مادی اشیاء کا احساس ہلکی ضرب کے بعد روشنیوں سے انقطاع چاہتا ہے۔ اس اثناء میں وہ ذہن کو بتا دیتا ہے کہ میں نے کیا دیکھا ہے جن چیزوں کو ہم مادی خدوخال میں محسوس کرتے ہیں ان چیزوں کے احساس کو بیدار کرنے کے لئے آنکھوں کے مادی ڈیلے اورغلاف کی مادی حرکات ضروری ہیں۔ اگر ہم ان ہی چیزوں کی معنوی شکل وصورت کا احساس بیدار کرنا چاہیں تو اس عمل کے خلاف اہتمام کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں آنکھ کو بند کر کے آنکھ کے ڈیلوں کو معطل اور غیر متحرک کر دینا ضروری ہے۔ مادی اشیاء کا احساس مادی آنکھ میں نگاہ کے ذریعے واقع ہوتا ہے۔ اور جس نگاہ کے ذریعے مادی احساس کا یہ عمل وقوع میں آتا ہے وہی نگاہ کسی چیز کی معنوی شکل وصورت دیکھنے میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ یا یوں کہیئے کہ نگاہ مادی حرکات میں اور روحانی حرکات میں ایک مشترک آلہ ہے۔ دیکھنے کا کام بہر صورت نگاہ ہی انجام دیتی ہے۔ جب ہم آنکھوں کے مادی وسائل کو معطل کر دیں گے اور نگاہ کو متوجہ رکھیں گے تو لوح محفوظ کے قانون کی رو سے قوت القاء اپنا کام انجام دینے پر مجبور ہے۔ پھر نگاہ کسی چیز کی معنوی شکل و صورت کو لازمی دیکھے گی۔ اس لئے کہ جب تک نگاہ دیکھنے کا کام انجام نہ دے دے، قوت القاء کے فرائض پورے نہیں ہوتے۔ اس طرح جب ہم کسی معنوی شکل وصورت کو دیکھنا چاہیں، دیکھ سکتے ہیں۔ اہل تصوف نے اس ہی قسم کے دیکھنے کی مشق کا نام مراقبہ رکھا ہے۔ یہاں ایک اور ضمنی قانون بھی زیر بحث آتا ہے۔ جس طرح لوح محفوظ کے قانون کی رو سے مادی اور روحانی دونوں مشاہدات میں نگاہ کا کام مشترک ہے ، اس ہی طرح مادی اور روحانی دونوں صورتوں میں ارادے کا کام بھی مشترک ہے۔ جب ہم آنکھیں کھول کر کسی چیز کو دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلی حرکت ارادہ کرنا ہے یعنی پہلے قوت ارادی میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ اس حرکت سے نگاہ اس قابل ہو جاتی ہے کہ خارجی اطلاعات کو محسوس کر سکے۔ اس ہی طرح جب تک قوت ارادی میں حرکت نہ ہو گی معنوی شکل وصورت کی اطلاعات فراہم نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی شخص عادتاً نگاہ کو معنوی شکل وصورت کے دیکھنے میں استعمال کرنا چاہے تو اسے پہلے پہل ارادے کی حرکت کو معمول بنانا پڑے گا۔ یعنی جب مراقبہ کرنے والا آنکھیں بند کرتا ہے تو سب سے پہلے ارادے میں تعطل واقع ہوتا ہے۔ اس تعطل کو حرکت میں تبدیل کرنے کی عادت ڈالنا ضروری ہے۔ یہ بات مسلسل مشق سے حاصل ہو سکتی ہے۔ جب آنکھ بند کرنے کے باوجود ارادہ میں اضمحلال پیدا نہ ہو اور ارادہ کی حرکت متوسط قوت سے جاری رہے تو نگاہ کو معنوی شکل و صورت دیکھنے میں تساہل نہ ہو گا اور مخفی حرکات کی اطلاعات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ جب ہر قسم کی مشق مکمل ہو چکے گی تو اسے آنکھ کھول کر دیکھنے میں یا آنکھ بند کر کے دیکھنے میں کوئی فرق محسوس نہ ہو گا۔
لوح محفوظ کے قانون کی رو سے قوت القاء جس طرح مادی اثرات پیدا کرنے کی پابند ہے، اس ہی طرح معنوی خدوخال کے تخلیق کرنے کی بھی ذمہ دار ہے۔ جتنا کام کسی شخص کی قوت القاء مادی قدروں میں کرتی ہے۔ اتنا ہی کام روحانی قدروں میں بھی انجام دیتی ہے ۔ دو آدمیوں کے کام کی مقدار کا فرق ان کی قوت القاء کی مقدار کے فرق کی وجہ سے ہوا کرتا ہے۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )