Topics

تخلیق کا فارمولا

ہم نے پہلے تذکرہ کیا ہے کہ یہ چاروں شعور سطح رکھتے ہیں۔ شعور اول قرآن پاک کی زبان میں اسمائے الٰہیہ یا صفات الٰہیہ کے نام سے موسوم ہے۔ جب اسمائے الٰہیہ اظہار کی طرف میلان کرتے ہیں تو احکامِ واردہ بن کر بداعت کا رنگ قبول کر لیتے ہیں۔ چنانچہ جب بداعت اول شعور سے دوئم شعور میں منتقل ہوتی ہے تو امرِ الٰہیہ کی صورت میں رونمائی کرتی ہے۔ اور عام اصطلاح میں روح کہلاتی ہے۔ جب روح بداعت (حیاتی دباؤ) کے تحت اظہار کی ایک اور شرط پوری کرتی ہے تو رویاء کی سطح میں داخل ہو جاتی ہے اور بداعت کی آخری کوشش کا نتیجہ فرد (شعور چہارم) کی حیثیت میں رونما ہوتا ہے۔ اگر ان تحریکات پر غور کیا جائے تو بداعت کے نزول کا طریقہ واضح ہو جاتا ہے۔ گویا فرد بداعت کی محدود ترین شکل ہے۔ اب اگر کوئی فرد بداعت کے نفوذ کو وسعت دینا چاہے تو یہ کوشش صعود کہلائے گی اور اس کی حرکت نزول کے خلاف واقع ہو گی۔ یعنی بداعت شعور چہارم، فرد سے ابھر کر شعور سوئم یا نوع کے شعور کی سطح پر پہنچ جائے گی۔ یہاں فرد کا ذہن نوعی شعور کا احاطہ کر لے گا۔ اس مضمون کواجمالاً یہ کہیں گے کہ فرد نے اپنے لاشعور کا احاطہ کر لیا۔ اگر پھر بھی فرد کا ذہن صعود کرنا چاہے تو تمام انواع کے شعور یعنی کائناتی سطح پر قدم رکھ سکتا ہے۔ یہاں فرد کے ذہن کی صفات امر الٰہیہ کی صفات میں جذب ہوں گی۔ اس کی طرزِ فکر صفات الٰہیہ کے جزو اور رنگ کا حکم رکھے گی۔

اول شعور نور مفرد اور دوئم شعور نور مرکب ہے۔ یہ نور کی دو قسمیں ہوئیں۔ اسی طرح سوئم شعور نسمۂ مفرد اور چہارم شعور نسمۂ مرکب ہے۔ چنانچہ نسمہ کی بھی دو قسمیں ہوئیں۔ کائنات کی چار مکانیتوں میں پہلی دو مکانیتیں نور کی ساخت ہیں اور بعد کی دو مکانیتیں نسمہ کی۔ ان میں ہر مکانیت کی دو سطح ہیں۔

۱۔ نورِ مفرد کی دونوں سطح سے الگ الگ دو شعاعیں نکلتی ہیں۔ اور صفاتی تقاضے کے تحت جس نقطہ پر مجتمع ہو کر مظاہرہ کرتی ہیں، وہ نورِ مفرد کی تخلیق ہے۔ اس تخلیق کو ملاء اعلیٰ کہا جاتا ہے۔

۲۔ نورِ مرکب کی دو سطحوں سے بھی الگ الگ دو شعاعیں نکلتی ہیں۔ اور صفاتی تقاضے کے تحت جس نقطہ پر مجتمع ہو کر مظاہرہ کرتی ہیں، وہ نورِ مرکب کی ایک تخلیق ہے۔ اس تخلیق کو ملائکہ کہتے ہیں۔

۲۔ نسمۂ مفرد کی دو سطحوں سے بھی الگ الگ دو شعاعیں نکلتی ہیں اور صفاتی تقاضے کے تحت جس نقطہ پر مجتمع ہو کر مظاہرہ کرتی ہیں، وہ نسمۂ مفرد کی تخلیق ہے۔ اس تخلیق کا نام جنات ہے۔

۴۔ نسمۂ مرکب کی دو سطحوں سے بھی الگ الگ دو شعاعیں نکلتی ہیں۔ اور صفاتی تقاضے کے تحت جس نقطہ پر مجتمع ہو کر مظاہرہ کرتی ہیں، وہ نسمۂ مرکب کی تخلیق ہے۔ اس تخلیق کا نام عنصری مخلوق ہے۔ اس ہی مخلوق کا ایک جزو ہمارا کرۂ ارضی بھی ہے۔

کائناتی نسمہ کا مظہر

جو کچھ ہمارے علم و احساس میں ہے اس کا بڑا حصہ زیادہ تر مجرد یعنی بے شکل و صورت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ غلط ہے۔ ہر چیز شکل و صورت رکھتی ہے، چاہے وہم و خیال ہی کیوں نہ ہو۔ اصطلاح میں جس کو عدم کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ بھی ایک وجود ہے، ایسا وجود جو شکل وصورت رکھتا ہے۔

وہم کیا ہے؟

خیال کہاں سے آتا ہے؟ یہ بات غور طلب ہے۔ اگر ہم ان سوالات کو نظر انداز کر دیں تو کثیر حقائق مخفی رہ جائیں گے اور حقائق کی زنجیر جس کی سو فی صد کڑیاں اس ہی مسئلہ کے سمجھنے پر منحصر ہیں، انجانی رہ جائیں گی۔

جب ذہن میں کوئی خیال آتا ہے تو اس کا کوئی کائناتی سبب ضرور موجود ہوتا ہے۔ خیال کا آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ذہن کے پردوں میں حرکت ہوئی۔ یہ حرکت ذہن کی ذاتی حرکت نہیں ہو سکتی۔ اس کا تعلق کائنات کے ان تاروں سے ہے جو کائنات کے نظام کو ایک خاص ترتیب میں حرکت دیتے ہیں۔ مثلاً جب ہوا کا کوئی تیز جھونکا آتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ کرۂ ہوائی میں کوئی تغیر واقع ہوا۔ اس ہی طرح جب انسان کے ذہن میں کوئی چیز وارد ہوتی ہے تو اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ انسان کے لاشعور میں کوئی حرکت واقع ہوئی ہے۔ اس کا سمجھنا خود ذہن انسانی کی تلاش پر ہے۔ ذہن انسانی کی دو سطح ہیں۔ ایک سطح وہ ہے جو فرد کی ذہنی حرکت کو کائناتی حرکت سے ملاتی ہے یعنی یہ حرکت فرد کے ارادوں اور محسوسات کو فرد کے ذہن تک لاتی ہے۔ ذہن کی دونوں سطحیں دو قسم کے حواس تخلیق کرتی ہیں۔ اگر ایک سطح کی تخلیق کو مثبت حواس کہیں تو دوسری سطح کی تخلیق کو منفی حواس کہہ سکتے ہیں۔ دراصل مثبت حوا س ایک معنی میں حواس کی تقسیم ہے۔ یہ تقسیم بیداری کی حالت میں واقع ہوتی ہے۔ اس تقسیم کے حصے اعضائے جسمانی ہیں۔ چنانچہ ہماری جسمانی فعلیت میں یہی تقسیم کام کرتی ہے۔ ایک ہی وقت میں آنکھ کسی ایک شعبہ کو دیکھتی ہے اور کان کسی آواز کو سنتا ہے۔ ہاتھ کسی تیسری شئے کے ساتھ مصروف ہوتے ہیں اور پیر کسی چوتھی چیز کی پیمائش کرتے ہیں۔ زبان کسی پانچویں شئے کے ذائقہ میں اور ناک کسی اور چیز کے سونگھنے میں مشغول رہتی ہے۔ اور دماغ میں ان چیزوں سے الگ کتنی ہی اور چیزوں کے خیالات آ رہے ہوتے ہیں۔ یہ مثبت حواس کی کارفرمائی ہے لیکن اس کے برعکس منفی حواس میں جو تحریکات ہوتی ہیں ان کا تعلق انسان کے ارادےسےنہیں ہوتا۔

مثلاً خواب میں باوجود اس کے کہ مذکورہ بالا تمام حواس کام کرتے ہیں، اعضائے جسمانی کے سکوت سے اس بات کا سراغ مل جاتا ہے کہ حواس کا اجتماع ایک ہی نقطۂ ذہنی میں ہے۔ خواب کی حالت میں اس نقطہ کے اندر جو حرکت واقع ہوتی ہے۔ وہی حرکت بیداری میں جسمانی اعضاء کے اندر تقسیم ہو جاتی ہے۔

تقسیم ہونے سے پیشتر ہم ان حواس کو منفی حواس کا نام دے سکتے ہیں لیکن جسمانی اعضاء میں تقسیم ہونے کے بعد ان کو مثبت کہنا درست ہو گا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ منفی اور مثبت دونوں حواس ایک ہی سطح میں متمکن نہیں رہ سکتے۔ ان کا قیام ذہن کی دونوں سطحوں میں تسلیم کرنا پڑے گا۔ تصوف کی اصطلاح میں منفی سطح کا نام نسمۂ مفرد اور مثبت سطح کا نام نسمۂ مرکب لیا جاتا ہے۔

نسمۂ مرکب ایسی حرکت کا نام ہے جو تواتر کے ساتھ واقع ہوتی ہے یعنی ایک لمحہ، دوسرا لمحہ، پھر تیسرا لمحہ اور اس طرح لمحہ بعد لمحہ حرکت ہوتی رہتی ہے۔ اس حرکت کی مکانیت لمحات ہیں جس میں ایک ایسی ترتیب پائی جاتی ہے جو مکانیت کی تعمیر کرتی ہے۔ ہر لمحہ ایک مکان ہے۔ گویا تمام مکانیت لمحات کی قید میں ہے۔ لمحات کچھ ایسی بندش کرتے ہیں جس کے اندر مکانیت خود کو محبوس پاتی ہے۔ اور لمحات کے دور میں گردش اور کائناتی شعور میں خود کو حاضر رکھنے پر مجبور ہے۔ اصل لمحات اللہ کے علم میں حاضر ہیں اور جس علم کا یہ عنوان ہے، کائنات اس ہی علم کی تفصیل اور مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے ہر چیز کو دو رخوں پر پیدا کیا ہے۔ چنانچہ تخلیق کے یہی دو رخ ہیں۔ تخلیق کا ایک رخ خود لمحات ہیں۔ یعنی لمحات کا باطن یا شعور یک رنگ ہے۔ اور دوسرا رخ لمحات کا ظاہر یا شعور کل رنگ ہے۔ ایک طرف لمحات کی گرفت میں کائنات ہے اور دوسری طرف لمحات کی گرفت میں کائنات کے افراد ہیں۔ لمحات بیک وقت دو سطحوں میں حرکت کرتے ہیں۔ ایک سطح کی حرکت کائنات کی ہر شئے میں الگ الگ واقع ہوتی ہے۔ یہ حرکت اس شعور کی تعمیر کرتی ہے جو شئے کو اس کی منفرد ہستی کے دائرے میں موجود رکھتا ہے۔ دوسری سطح کی حرکت کائنات کی تمام اشیاء میں بیک وقت جاری و ساری ہے۔ یہ حرکت اس شعور کی تعمیر کرتی ہے جو کائنات کی تمام اشیاء کو ایک دائرہ میں حاضر رکھتا ہے۔ لمحات کی ایک سطح میں کائناتی افراد الگ الگ موجود ہیں۔ یعنی افراد کا شعور جدا جدا ہے۔ لمحات کی دوسری سطح میں کائنات کے تمام افراد کا شعور ایک ہی نقطہ پر مرکوز ہے۔ اس طرح لمحات کی دونوں سطحیں دو شعور ہیں۔ ایک سطح انفرادی شعور ہے اور دوسری سطح اجتماعی شعور ہے۔ عام اصطلاح میں مرکزی شعور ہی کو لاشعور کہا جاتا ہے۔

اگر ہم کائنات کو ایک فرد مان لیں اور کائنات کے اندر موجود اشیاء کو اس کے اجزاء فرض کر لیں تو کائناتی شعور کو مرکزی شعور کہیں گے۔ پھر اس ہی مرکزی شعور کی تقسیم کا نام منفرد شعور رکھیں گے۔ دراصل ایک ہی شعور ہے جو کائنات کی ہر شئے میں الگ الگ دور کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر کسی فرد کے شعور میں اس کے اپنے مخصوص ماحول کی اشیاء ہوتی ہیں۔ گویا لمحات کی ایک سطح اس خاص وقت میں فرد کے شعور کی تعمیر کرتی ہے، ساتھ ہی لمحات کی دوسری سطح میں کائنات کے ذرہ ذرہ کی تحریکات دور کرتی ہیں۔ یہ کیفیت مرکزی شعور کی ہے۔ اب ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ فرد کو ماحول کی معلومات لمحات کی اوپری سطح سے ہوتی ہے۔ اور کائنات کی مکمل معلومات لمحات کی نچلی سطح سے مل سکتی ہیں۔ لمحات کی نچلی سطح فرد کا مرکزی شعور ہے۔ اس ہی میں ازل سے ابد تک کا پورا ریکارڈ موجود ہے۔ اور لمحات کی ایک سطح فرد کا وقتی شعور ہے۔ اور لمحات کی دوسری سطح فرد کا دوامی شعور ہے۔ فرد کے دوامی شعور(لاشعور) میں ازل سے ابد تک کی تمام تحریکات ایک لمحہ کے اندر مقیم ہیں۔ اس کو ہم جاودانی لمحہ کہیں گے۔ یہی لمحہ فرد کے شعور کی گہرائی ہے۔ اس ہی لمحہ کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لِیْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتُٗ ارشاد فرمایا ہے۔

ترجمہ: وقت میں میرا اور اللہ کا ساتھ ہے۔

یہی لمحہ حقیقی ہے۔ زمان مسلسل اس ہی لمحہ کا ایک شعبہ ہے۔ یہی لمحہ علم الٰہیہ ہے۔ اس ہی لمحہ کو علم حضوری کہا جاتا ہے۔ اس ہی لمحہ کے اندر اللہ تعالیٰ کی وہ صفات مجتمع ہیں جن کو قرآن پاک میں شیؤن کہا گیا ہے۔ ہمارا منشاء یہاں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات سے ہرگز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات تو لامتناہی ہیں۔ یہاں محض ان صفات کا تذکرہ ہے جو کائنات سے متعارف ہیں۔ یہ لمحہ جس کو ہم نے علم الٰہیہ کہا ہے، اس ہی لمحہ کے اندر ارادۂ الٰہیہ جاری ہے اور ارادۂ الٰہیہ کے اجزاء ہی زمانِ مسلسل ہیں۔

لازمان اور زمان کی تعبیر کئی طرح ہو سکتی ہے۔ ابتدا ہی سے انبیاء نے اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے حکم کا تعارف کرایا ہے۔ انبیاء نے اپنی تعلیم میں ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ ذات مطلق کو سمجھنے کی کوشش ضروری ہے۔ بغیر ذات مطلق کے سمجھے اس کے امر کا سمجھنا ممکن نہیں۔ یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ امر خود امر ہی کو سمجھنے کا مکلف ہو سکتا ہے۔ اس کا جواب اثبات میں دینا پڑے گا۔ اگر امر کسی بات کا مکلف ہے تو وہ بات بجز اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ امر اپنی حقیقت کی تلاش صاحب امر کے تعارف سے حاصل کرے۔ پھر یہ امکان نکلتا ہے کہ امر اپنے بارے میں فہم پیدا کر سکے۔ اور اپنی کُنہ کو جان لے۔ ذات مطلق کا تعارف حاصل کئے بغیر امر اپنی ذات کو نہیں پہچان سکتا۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طُور پر روشنی دیکھ کر سوال کیا’’کون؟‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے جواباً ارشاد فرمایا تھا۔’’میں ہوں تیرا رب۔‘‘ اس ہی واقعہ سے ذاتِ مطلق اورذات امر کی حدود کا سراغ ملتا ہے۔موسیٰ علیہ السلام ذات امر ہیں اور اللہ تعالیٰ ذاتِ مطلق۔نیز اللہ تعالیٰ کی صفت ربانیت اور موسیٰ علیہ السلام کی مربوبیت کا پتہ چلتا ہے۔ ایک طرف ذات مطلق اور اس کی صفات، دوسری طرف ذات امر اور اس کی احتیاج۔ یہی وہ چار باتیں ہیں جن پر علوم نبوت کا دارومدار ہے۔ بعض لوگوں نے اپنے پیرایۂ بیان میں ذات مطلق کو حقیقت مطلقہ کہا ہے اور امر مطلق کو کائنات کہا ہے۔ یہ پیرایۂ بیان حکمائے ربانی کا ہے۔ انبیائے ربانی اور حکمائے ربانی میں یہ فرق ہے کہ انبیاء باطن سے ظاہر کو تلاش کرتے ہیں اور حکماء ظاہر سے باطن کو تلاش کرتے ہیں۔ کسی حد تک حکماء کی طرز تلاش غلط نہیں ہے۔ لیکن اس طرز میں ایک نقص ہے کہ وہ جن چیزوں کی علامتیں خارج میں نہیں دیکھتے ان کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس رویہ سے کائنات کی ساخت میں جتنے حقائق مخفی ہیں وہ زیادہ تر انجانے رہ جاتے ہیں۔ انبیاء کے رویہ میں یہ نقص نہیں ہے۔ وہ ذات مطلق کے ذریعہ امر مطلق کو تلاش کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی فکر ایسے اجزاء کو پالیتی ہے جو مظاہر کے پابند نہیں ہیں۔ انبیاء مظاہر کو نظر انداز نہیں کرتے تاہم وہ مظاہر کو اصل قرار دے کر صرف مظاہر کی روشنی میں گم نہیں ہو جاتے۔ وہ مظاہر کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی مظاہر کی اصلوں کو۔ انبیاء کی زبان میں مظاہر کی اصلوں کا نام صفات الٰہیہ ہے۔ وہ اس رویہ سے یعنی صفات کے ذریعہ ذات مطلق تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ ان پر ذات مطلق کی مصلحتیں منکشف ہو جاتی ہیں۔ پھر یہ ان کے لئے ناممکن ہے کہ ان مصلحتوں کو نظر انداز کر دیں یا مقصد حیات نہ بنائیں۔ انبیاء کی فکر میں ذات مطلق ہی حیات ہے۔ اس لئے وہ حیات کو ابدی قرار دینے پر مجبور ہیں۔ چنانچہ ان کے زاویۂ نظر میں یہیں سے کائنات ثانوی درجہ میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس کے برخلاف مظاہر کو اولیت دینے والے حیات کی کامل گہرائیوں اور پہنائیوں تک نہیں پہنچ سکتے۔

انبیاء نے یہ بات تحقیق کی ہے کہ فکر انسانی میں ایسی روشنی موجود ہے جو کسی ظاہر کے باطن کا، کسی حضور کے غیب کا مشاہدہ کر سکتی ہے۔ اور غیب کا مشاہدہ حضور کے اجزاء کی تحلیل میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر اگر ہم کسی چیز کے باطن کو دیکھ سکیں توپھر اس کے ظاہر کا پوشیدہ رہنا ممکن نہیں ہے۔ اس طرح ظاہر کی وسعتیں ذہن انسانی پر منکشف ہو جاتی ہیں اور یہ جاننے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں کہ حیات کی ابتدا کہاں سے ہوتی ہے اور انتہا کہاں تک ہے۔ انبیاء موت کے بعد کی زندگی پر اس ہی لئے زور دیتے ہیں۔ 


Topics


لوح وقلم

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )