Topics

علم ’’لا‘‘ اور علم ’’اِلّا‘‘

جب ہمیں ایک چیز کی معرفت حاصل ہو گئی، خواہ وہ لاعلمی ہی کی معرفت ہو، بہرصورت معرفت ہے اور ہر معرفت لوح محفوظ کے قانون میں ایک حقیقت ہوا کرتی ہے۔ پھر بغیر اس کے چارہ نہیں کہ ہم لاعلمی کی معرفت کا نام بھی علم ہی رکھیں۔ اہل تصوف لا علمی کی معرفت کو علم ’’لا‘‘ اور علم کی معرفت کو علم ’’اِلّا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ دونوں معرفتیں الف انوار کی دو تجلیاں ہیں۔۔۔۔۔۔ایک تجّلی  ’’لا‘‘ اور دوسری تجّلی  ’’اِلّا‘‘۔

جب کوئی فرد اپنے ذہن میں ان دونوں حقیقتوں کو محفوظ کر لے تو اس کے لئے شہود کے اجزاء کو سمجھنا آسان ہے۔ چنانچہ ہر شہود کے یہی دو اجزاء ہیں جن میں سے پہلا جزو یعنی علم’’لا‘‘ کو لاشعور کہتے ہیں۔ جب کوئی طالب روحانیت لاشعور یعنی علم ’’لا‘‘سے متعارف ہونا چاہتا ہے تو اسے خارجی دنیا کے تمام تواہمات، تصورات اور خیالات کو بھول جانا پڑتا ہے۔ اس کو اپنی ذات یعنی اپنے ذہن کی داخلی گہرائیوں میں فکر کرنی چاہئے۔ یہ فکر ایک ایسی حرکت ہے جس کو ہم کسی فکر کی شکل اور صورت میں محدود نہیں کر سکتے۔ ہم اس فکر کو ’’فکرِلا‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی ہمارے ذہن میں تھوڑی دیر کے لئے یا زیادہ دیر کے لئے ایسی حالت وارد ہو جائے جس میں ہر زاویہ لا علمی کا ہو۔ اس ’’فکر لا‘‘ کو ہم عمل استرخاء کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں۔ عمل استرخاء کے تواتر سے ذہن کے اندرونی دائرے ہر فکر سے خالی ہو جاتے ہیں۔ گویا اس وقت ذہن ’’فکرلا‘‘میں مستغرق ہو جاتا ہے اور اس استغراق میں لاشعور کا شہود حاصل ہو جاتا ہے۔

’’لا‘‘ کے انوار الم کے انوار کا جزو ہیں۔ الم کے انوار کو سمجھنے کے لئے لا کے انوار کا تعین اور ان کی تحلیل ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ لا کے انوار اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات ہیں جو وحدانیت کا تعارف کراتی ہیں۔ کئی مرتبہ لوگ یہ سوال کر بیٹھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے پہلے کیا تھا؟ ایک صوفی کے یہاں جب سلوک کا ذہن پوری طرح تربیت پا جاتا ہے اور لا کے انوار کی صفت سے واقف ہو جاتا ہے تو پھر اس کے ذہن سے اس سوال کا خانہ حذف ہو جاتا ہے کیونکہ صوفی اللہ تعالیٰ کی صفت لا سے واقف ہونے کے بعد خیال کو بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی سے پہلے بھی کسی موجودگی کا امکان ہے۔ لا کے انوار سے واقف ہونے کے بعد سالک کا ذہن پوری طرح وحدانیت کے تصور کو سمجھ لیتا ہے۔ یہی وہ نقطۂ اول ہے جس سے ایک صوفی یا سالک اللہ تعالیٰ کی معرفت میں پہلا قدم رکھتا ہے۔ اس قدم کے حدود اور دائرے میں پہلے پہل اسے اپنی ذات سے روشناس ہونے کا موقع ملتا ہے۔ یعنی وہ تلاش کرنے کے باوجود خود کو کہیں نہیں پاتا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا صحیح احساس اور معرفت کا صحیح مفہوم اس کے احساس میں کروٹیں بدلنے لگتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس کو فنائیت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کو بعض لوگ فناء الٰہیت بھی کہتے ہیں۔ جب تک کسی سالک کے ذہن میں ’’لا‘‘ کے انوار کی پوری وسعتیں پیدا نہ ہو جائیں وہ اس وقت تک ’’لا‘‘ کے مفہوم یا معرفت سے روشناس نہیں ہو سکتا۔ کوئی سالک ابتدا میں ’’لا‘‘ کے انوار کو اپنے ادراک کی گہرائیوں میں محسوس کرتا ہے۔ یہ احساس شعور کی حدوں سے بہت دور اور بعید تر رہتا ہے۔ اس ہی لئے اس احساس کو شعور سے بالاتر یا لاشعور کہہ سکتے ہیں لیکن فکر کی پرواز اس کو چھو لیتی ہے۔ وہ حالت جو عام طور سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا استغراق پیدا کرتی ہے۔ سالک کے ذہن میں اس فکر کو تخلیق کرتی ہے اور تربیت دیتی ہے۔ تفہیم کے اسباق میں پہلا سبق جو جاگنے کا عمل ہے، اس استغراق کے حصول میں بڑی حد تک معاون ہوتا ہے جب اس سبق کے ذریعے صوفی کا ذہن استغراق کے نقش و نگار کی ابتدا کر چکتا ہے اور اس کے اندر قدرے قوتِ القاء پیدا ہو جاتی ہے تو اس فکر کی بنیادیں پڑ جاتی ہیں۔ پھر استرخاء کے ذریعے اس فکر میں حرکت، آب و تاب اور توانائی آنے لگتی ہے۔ جب یہ توانائی نشوونما پا چکتی ہے، اس وقت ’’لا‘‘ کے انوار ورود میں نگاہ باطن کے سامنے آنے لگتے ہیں اور پھر ان انوار کا ورود اس فکر کو اور زیادہ لطیف بنا دیتا ہے۔ جس سے لاشہود نفسی کی بنا قائم ہو جاتی ہے۔ اس ہی لاشہود کے ذہن میں خضر علیہ السلام، اولیائے تکوین اور ملائکہ پر نظر پڑنے لگتی ہے اور ان سے گفتگو کا اتفاق ہونے لگتا ہے۔ اس ہی لاشہود نفسی کی ایک صلاحیت خضر علیہ السلام، اولیائے تکوین اور ملائکہ کے اشارات و کنایات کا ترجمہ سالک کی زبان میں اس کی سماعت تک پہنچاتی ہے۔ رفتہ رفتہ سوال و جواب کی نوبت آ جاتی ہے اور ملائکہ کے ذریعے غیبی انتظامات کے کتنے ہی انکشافات ہونے لگتے ہیں۔

’’لا‘‘ کے مراقبے میں آنکھوں کے زیادہ سے زیادہ بند رکھنے کا اہتمام ضروری ہے۔ مناسب ہے کہ کوئی روئیں دار رومال یا کپڑا آنکھوں کے اوپر بطور بندش استعمال کیا جائے۔ بہتر ہو گا کہ کپڑا تولیہ کی طرح روئیں دار ہو یا اس قسم کا تولیہ ہی استعمال کیا جائے۔ جس کا رؤاں لمبا اور نرم ہو۔ لیکن رؤاں باریک نہ ہونا چاہئے۔ بندش میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ آنکھوں کے پپوٹے تولیہ یا کپڑے کے روئیں کی گرفت میں آ جائیں۔ یہ گرفت ڈھیلی نہیں ہونی چاہئے۔ اور نہ اتنی سخت کہ آنکھیں درد محسوس کرنے لگیں۔ منشاء یہ ہے کہ آنکھوں کے پپوٹے تھوڑا سا دباؤ محسوس کرتے رہیں۔ مناسب دباؤ سے آنکھوں کے ڈیلوں کی حرکت بڑی حد تک معطل ہو جاتی ہے۔ اس تعطل کی حالت میں جب نگاہ سے کام لینے کی کوشش کی جاتی ہے تو آنکھ کی باطنی قوتیں جن کو ہم روحانی آنکھ کی بینائی کہہ سکتے ہیں، حرکت میں آ جاتی ہیں۔


Topics


لوح وقلم

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )