Topics
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاِلَی اَللّٰہِ تُرْ جَعُ الْاُمُوْر
تمام امور اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
خلق کے بعد صرف رجوع کا مرحلہ رہ جاتا ہے۔ لیکن امر وہ مرحلہ ہے جس میں نزول ہے۔ نزول کے معنی ہیں خلاء میں تصورات کا داخل ہونا۔ جو اطلاعات خلاء(ذرہ) میں داخل ہوتی ہیں تصورات کہلاتی ہیں۔ ان تصورات کو اللہ تعالیٰ نے ماء(پانی) کا نام دیا ہے۔ دراصل پانی تصورات کا خول ہے، یا وہ ایسے جوہروں کا مجموعہ ہے جس میں ہر جوہر تصور کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ہے پانی کی ماہیت۔ اوپر کی آیت میں اس ہی نوعیت کی طرف اشارہ ہے۔ پانی کے خواص یہ ہیں کہ وہ پھول میں جا کر پھول بن جاتا ہے۔ کانٹے میں جا کر کانٹا بن جاتا ہے۔ پتھر میں جا کر پتھر بن جاتا ہے۔ سونے میں جا کر سونا بن جاتا ہے اور ہیرے میں جا کر ہیرا بن جاتا ہے۔
ہمارے ذہن میں تصورات کا ایک مجموعہ ہے جس کو ہم سونا کہہ کر پکارتے ہیں۔ اور تصورات کا ایک دوسرا مجموعہ ہے جس کو ہیرا کہہ کر پکارتے ہیں۔ سونا اور ہیرا دو لفظ ہیں یا دو خول ہیں، جن میں تصورات کے الگ الگ مجموعے مقید ہیں۔ ان میں ہر مجموعہ ادراک ہے۔ ادراک کو آواز میں قید کیا جائے تو لفظ بن جاتا ہے۔ ادراک کے بہت سے نام ہیں مثلاً خلاء، مبداء (Secret Plan)، امر، وقت(Non-Serial Time) یا نفس وغیرہ۔ یہی کائنات کی اساس ہے۔
انسان کے اندر ادراک ذہن ہے۔ ذہن کی وسعت کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہے۔ اس ہی کا ایک رخ گہرائی یعنی زمان ہے اور دوسرا رخ پہنائی یعنی مکان ہے۔ جب ذہن زمان میں دیکھتا ہے تو اس کی حرکت ’’امر‘‘ ہوتی ہے اور جب مکان میں دیکھتا ہے تو اس کی حرکت خلق ہوتی ہے۔ خلق وہ لفظ ہے جس کی دونوں قسموں کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )