Topics

نیابت کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کائنات کے انتظامی امور کو سمجھنا اور اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم الاسماء کی روشنی میں ان انتظامی امور کو چلانا نیابت کے دائرے میں آتا ہے۔ 

جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلیفۃ اللہ بنا دیا تو یہ امر یقینی ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے جس قدر شعبے ہیں ان شعبوں میں اللہ کے نائب کا کہیں نہ کہیں اور کوئی نہ کوئی تعلق ہے۔

حکمت تکوین کی روشنی میں یہاں علم الاسماء کا تھوڑا سا تجزیہ کر دینا ضروری ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کن فیکون۔ میں نے کہا ہو جا اور وہ ہو گیا۔ یعنی یہ تمام کائنات (موجودات) میں نے کن کہہ کر بنا دی۔ کن کے چار تکوینی شعبے ہیں۔ پہلا شعبہ ابداء جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ظہور موجودات کے کوئی اسباب و وسائل موجود نہیں تھے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کن تو یہ ساری موجودات بغیر اسباب و وسائل کے مرتب اور مکمل ہو گئیں۔ یہ تکوین کا پہلا شعبہ ہے۔

تکوین کا دوسرا شعبہ خلق ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ جو کچھ موجودات کی شکل و صورت میں ظاہر ہوا اس میں حرکت و سکون کی طرزیں رونما ہو گئیں اور زندگی کے مراحل یکے بعد دیگرے وقوع میں آنا شروع ہو گئے یعنی موجودات کے عملِ زندگی کا آغاز ہو گیا۔

تکوین کا تیسرا شعبہ تدبیر ہے۔ یہ موجودات کے اعمال زندگی کی ترتیب اور محل وقوع کے ابواب پر مشتمل ہے۔حکمتِ تکوین کا چوتھا شعبہ تدلّٰی ہے۔ تدلّٰی کا مطلب حکمت تکوین کا وہ شعبہ ہے جس کے ذریعے قضا و قدر کے نظم و ضبط کی کڑیاں اور فیصلے مدون ہوتے ہیں۔

انسان کو بحیثیت خلیفۃ اللہ علم الاسماء کی حکمت تکوین کے اسرار و رموز اس لئے عطا کئے گئے ہیں کہ وہ نظامت کائنات کے امور میں نائب کے فرائض پورے کر سکے۔

کائنات کی ساخت کو سمجھنے کے لئے اس کے مراتب اور اجزا کا جاننا ضروری ہے۔ خاکہ میں شخص اکبر کو باطن الوجود، عالم خفیف کے تین مراتب اور عالم شدید کے تین مراتب کو ظاہر الوجود کا نام دیا گیا ہے۔ ان دونوں عالموں کے چھ مراتب میں ہر مرتبہ کا تعلق ایک نوع سے ہے۔ گویا یہ چھ انواع ہوئیں۔ ان کے علاوہ ایک نوع کو جس کانام نوع آدم ہے شخص اصغر کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ شخص اصغر خلاصہ ہے ان چھ انواع کا اور برزخ یعنی واسطہ ہے شخص اکبر، باطن اور ظاہر الوجود کا۔

ذکر شدہ چھ انواع میں سے ہر نوع لاشمار افراد پر مشتمل ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہر نوع کا ایک نفس کلیہ ہے۔ اس ہی نفس کلیہ کو ہم نوع کہتے ہیں۔ گویا یہ نفسِ کلیہ اپنی نوع کے تمام افراد کے اصلوں کا مجموعہ ہے۔ ہر نوع کی ماہیت، کیفیت اور فعلیت اس نوع کے اپنے نفس کلیہ میں قرار پذیر ہے۔ یہ تینوں حیثیتیں (ماہیت، کیفیت اور فعلیت) اس نفسِ کلیہ کے تعینات کہلاتے ہیں۔ یہ ایک طرح کے معین نقش و نگار ہیں جو ازل تا ابد کی مکانیت اور زمانیت کو احاطہ کرتے ہیں۔

جب عالم ناسوت میں ان نقش و نگار کا نزول ہوتا ہے تو حرکت یا فعلیت ان ہی نقش و نگار کو زمان اور مکان کے مراتب بخش دیتی ہے۔

روح میں مطلقیت کے سوا حرکت کے تمام شعبے داخل ہیں۔ مطلقیت سے مراد اللہ تعالیٰ کی وہ تجّلی  ہے جس کو تصوف میں تسوید کا نام دیا جاتا ہے۔ اس مطلق تجّلی  کے دو شعبے ہیں۔ نیچے درجے کا شعبہ خفی اور اونچے درجے کا شعبہ اخفیٰ ہے۔ اول شعبۂ اخفیٰ سے تجّلی  الٰہیہ کا نزول شعبۂ دوئم خفی کی طرف ہوتا ہے۔ یہ تجّلی  کا آخری شعبہ ہے۔ اس کے بعد مدارج ظاہری یعنی حرکت شروع ہو جاتی ہے۔ اس حرکت کا پہلا شعبہ لطیفۂ سری ہے۔ دوسرا، تیسرا اور چوتھا لطیفۂ روحی، لطیفۂ قلبی اور لطیفۂ نفسی ہے۔ ان لطائف میں قلبی اور نفسی دو شعبے نسمہ کہلاتے ہیں۔ یہ دونوں مدارج حرکت کے آخری اجزاء ہیں۔ لطیفہ سری اور روحی کے شعبے کو مدارج ماہیت کہا جاتا ہے۔ لطیفۂ قلبی کو کیفیت اور لطیفۂ نفسی کو فعلیت کا نام دیا جاتا ہے۔

مذکورہ بالا بیان کے مطابق روح کے چھ شعبے ہوئے، دو شعبے باطنی اور چار شعبے ظاہری۔ شعبہائے ظاہری سے مراد شعبہائے حرکت ہیں اور شعبہائے باطنی سے مراد تجّلی  مطلق کے مدارج ہیں جس کے بارے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حدیث ہے:

مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ

ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اللہ کی صفت ربانیت کو پہچان لیا۔

یہی صفت ربانیت باطن کے دو شعبوں پر منقسم ہے جو تجّلی  کی مستقل اور مسلسل رو کی صورت میں باطنِ انسان سے گزرتی ہے۔ باطن کے دو شعبوں اخفیٰ اور خفی اور ظاہر کے دو شعبوں سری اور روحی کا تعلق شخص اکبر سے ہے اور ظاہر کے دو شعبوں قلبی اور نفسی کا تعلق شخص اصغر سے ہے۔

تجّلی  کی سب سے پہلی رو کا نام نہر تسوید ہے اور دوسری رو کا نام نہر تجرید، تیسری رو کا نام نہر تشہید اور چوتھی رو کا نام نہر تظہیر ہے۔ نہر تسوید کی تجّلی  لطیفۂ اخفیٰ، لطیفہ خفی کو بالترتیب سیراب کرتی ہے۔ اخفیٰ، خفی یہ دونوں شعبے اصل نفس ہیں۔ تجّلی  کا تنزل فی الواقع

 لطیفۂ سری سے شروع ہوتا ہے۔ یہی مرحلہ اہل روحانیت کے لئے خطرناک ہے جب کہ وہ ملکوتیت سے تنزل کرکے ناسوتیت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ شیطانی وسوسوں کی ابتدا لطیفۂ سری سے ہوتی ہے کیونکہ یہی لطیفہ روح انسانی کا پہلا شعبہ ہے۔ اس ہی شعبہ سے انسان مطلقیت کو بھولنے کی اور ربانیت سے منکر ہونے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی اصل سے گریزاں رہتا ہے۔

اگر وہ اپنی اصل کا مشاہدہ کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ کی کھلی ہوئی نشانیاں موجود ہیں۔ مثلاً آدمی کا سانس لینا اس کے شعور سے الگ ایک چیز ہے۔ وہ سانس لیتا ہے لیکن سانس لینے کی ابتدا اس کے ارادے سے نہیں ہوتی۔ پلک جھپکتا ہے لیکن اس کا تعلق اس کے شعور سے کچھ نہیں۔ اس ہی طرح خون کا گردش کرنا اور جسم کی اندرونی حرکات ایسے افعال ہیں جو انسان کی اپنی اصل یعنی ورائے شعور سے تعلق رکھتے ہیں جب انسان اپنی اصل یعنی ورائے شعور سے تنزل کر کے شعور کی دنیا میں قدم رکھتا ہے اس وقت وہ اپنی زندگی کی فعلیتوں سے باخبر ہوتا ہے حالانکہ تمام ماہیات اور کیفیات ورائے شعور میں واقع ہوئی تھیں۔

ربانیت کی پہلی تجّلی  جس کا نام تسوید ہے شخص اکبر یعنی نفس کلی میں سب سے پہلے ربانیت کا کردار پورا کرتی ہے۔ اور اس کردار کو قرآن کریم نے یوں بتایا ہے :

اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکوٰۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحُٗ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ نُجَاجَۃٍ

(سورۂ نور۔ آیت ۳۵)

ترجمہ: اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا، اس نور کی مثال طاق کی مانند ہے جس میں چراغ رکھا ہو اور وہ چراغ شیشے کی قندیل میں ہے۔ 

یعنی برتر ازورائے شعور۔ اور ورائے شعور کی ترتیب اور تدوین اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس کی بنیادیں خود اللہ تعالیٰ کی تجّلی  ہی پر قائم ہیں۔ تسوید کی سیرابی کا تعلق اخفیٰ اور خفی سے ہے۔ یہ دونوں شعبے برتر ازورائے شعور ہیں۔ ان ہی دو شعبوں کو تصوف میں مطلقیت کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ دونوں شعبے تجّلی  کے اوپر والے دائرے ہیں۔ پہلا دائرہ اخفیٰ، دوسرے دائرہ خفی سے محض اس لئے الگ ہے کہ دائرۂ خفی کی تجّلی  اس سے کم لطیف ہے۔ یہ وہی دو شعبے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے نُوْرُ السَّمٰوٰاتِ کہا ہے۔ ان کے بعد لطیفۂ سری اور لطیفۂ روحی کے دو شعبے آتے ہیں۔ یہ دونوں شعبے تنزل شدہ تجّلی  کے مزید دو دائرے ہیں جن میں پہلا دائرہ زیادہ لطیف نورانیت رکھتا ہے اور دوسرا کم لطیف نورانیت رکھتا ہے۔ ان دونوں شعبوں کو اللہ تعالیٰ نے شیشے کی قندیل کہا ہے۔

یہ چاروں شعبے یعنی تجّلی ، چاروں دائرہ، علم عالمِ خفیف یا عالمِ غیب میں شمار ہوتے ہیں اور ان ہی چار دائروں کا نام شخص اکبر ہے۔

روح کے آخری دو شعبے لطیفۂ قلبی اور لطیفۂ نفسی کے دو روشن دائرے ہیں جن کو نسمہ یا عالم شدید کہتے ہیں۔ نسمہ کی مثال اللہ تعالیٰ نے چراغ کی لو سے دی ہے۔ یہی عالمِ حرکت یا عالمِ شہادت ہے۔ یہی عالم زمانیت و مکانیت دونوں کا مجموعہ ہے۔ روح کے ان دونوں دائروں کو شخصِ اصغر کہتے ہیں۔ نفسِ کلی شخصِ اکبر ہے جو چار شعبوں کامجموعہ ہے اور نفسِ جزوی شخصِ اصغر ہے جو دو شعبوں کا مجموعہ ہے۔ نفسِ کلی غیب ہے اور نفسِ جزوی حضور ہے۔ نفسِ کلی صفات اور ماہیت کا نام ہے۔ نفسِ جزوی کیفیت اور فعلیت کا نام ہے۔ نفسِ کلی علمِ تخلیق ہے اور نفسِ جزوی تخلیق۔ نفسِ کلی احاطہ کئے ہوئے ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفت ربانیت کا شعبہ ہے۔

تخلیق کی ساخت دو قسموں اور دو وضع پر ہے۔ اول نفسِ کلی یا علم شئے اور دوئم نفسِ جزوی یا خود شئے۔ گویا علم شئے، پھر شئے اور شئے کے بعد علمِ شئے ہے۔

مثال:

جب ہم گلاب کو دیکھتے ہیں تو یقین کی حد تک یہ سمجھتے ہیں کہ گلاب کے اوپر کی نسلیں موجود تھیں۔ یہ نسلیں علمِ شئے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگرچہ وہ باغبان کے سامنے موجود نہیں ہیں اور باغبان ان کو دیکھ بھی نہیں سکتا لیکن گلاب کا موجود ہونا اوپر کی نسلوں کے موجود ہونے کی شہادت کامل ہے۔ شئے کے بعد پھر علمِ شئے آتا ہے یعنی گلاب کے بعد گلاب کی آئندہ نسلوں کا ہونا یقینی ہے حالانکہ گلاب کی آئندہ نسلیں بھی باغبان کے سامنے نہیں ہیں۔

علمِ شئے کو بقائے دوام حاصل ہے اور اسی کا دوسرا نام عدم ہے۔ علم توحید کی ابتداء یہیں سے ہوتی ہے۔ علم شئے کبھی فنا نہیں ہوتا۔ صرف شئے فنا ہوتی ہے جیسے گلاب کے اجداد اور گلاب کی اولاد۔ گلاب شئے ہے اور اجداد و اولاد علمِ شئے ہے اوریہی علمِ شئے صفت ربانیت ہے۔ صرف شئے یعنی گلاب فنا ہونے والی چیز ہے۔ لیکن علمِ شئے یا صفت ربانیت کو ہمیشگی حاصل ہے۔


Topics


لوح وقلم

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )