Topics
اب یہ مسلمہ منکشف ہو گیا کہ انسان کسی غیر جانب دار زاویہ سے حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرے تو قانون لوح محفوظ کے تحت انسانی شعور، لاشعور اور تحت لاشعور کا انطباعیہ نقش معلوم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ انطباع وہ نقش ہے جو بصورت حکم اور بشکل تمثال لوح محفوظ (سطح کلیات) پرکندہ ہے۔ اس ہی کی تعمیل من و عن اپنے وقت پر ظہور میں آتی ہے۔
شعور کا یہ قانون ہے کہ اس دنیا میں انسان جتنا ہوش سنبھالتا جاتا ہے اتنا ہی اپنے ماحول کی چیزوں میں انہماک پیدا کرتا جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں ماحول کی تمام چیزیں اپنی اپنی تعریف اور نوعیت کے ساتھ اس طرح محفوظ رہتی ہیں کہ جب اسے ان چیزوں میں سے کسی چیز کی ضرورت پیش آتی ہے تو بہت آسانی سے اپنی مفید مطلب چیز تلاش کر لیتا ہے۔
معلوم ہوا کہ انسانی شعور میں ترتیب کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں کے استعمال کی چیزیں اور حرکات موجود رہتی ہیں۔ گویا ماحول کا ہجوم انسانی ذہن میں پیوست ہے۔ ذہن کو اتنی مہلت نہیں ملتی کہ شعور کی حد سے نکل کر لاشعور کی حد میں قدم رکھ سکے۔
یہاں ایک اصول وضع ہوتا ہے کہ جب انسان یہ چاہے کہ میرا ذہن لاشعور کی حدوں میں داخل ہو جائے تو اس ہجوم کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کرے۔ انسانی ذہن ماحول سے آزادی حاصل کر لینے کے بعد، شعور کی دنیا سے ہٹ کر لاشعور کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔
ذہن کے اس عمل کا نام استغناء ہے۔ یہ استغناء اللہ تعالیٰ کی صفتِ صمدیت کا عکس ہے جس کو عرفِ عام میں انخلائے ذہنی کہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اس کی مشق کرنا چاہے تو اس کے لئے کتنے ہی ذرائع اور طریقے ایسے موجود ہیں جو مذہبی فرائض کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان فرائض کو ادا کر کے انسان خالی الذہن ہونے کی مہارت حاصل کر سکتا ہے۔
سلوک کی راہوں میں جتنے اسباق پڑھائے جاتے ہیں ان سب کا مقصد بھی انسان کو خالی الذہن بنانا ہے۔ وہ کسی وقت بھی ارادہ کر کے خالی الذہن ہونے کا مراقبہ کر سکتا ہے۔
مراقبہ ایک ایسے تصور کا نام ہے جو آنکھیں بند کر کے کیا جاتا ہے۔ مثلاً انسان جب اپنی فنا کا مراقبہ کرنا چاہے تو یہ تصور کرے گا کہ میری زندگی کے تمام آثار فنا ہو چکے ہیں اور اب میں ایک نقطۂ روشنی کی صورت میں موجود ہوں۔ یعنی آنکھیں بند کر کے یہ تصور کرے کہ اب میں اپنی ذات کی دنیا سے بالکل آزاد ہوں۔ صرف اس دنیا سے میرا تعلق باقی ہے جس کے احاطہ میں ازل سے ابد تک کی تمام سرگرمیاں موجود ہیں۔ چنانچہ کوئی انسان جتنی مشق کرتا جاتا ہے۔ اتنی ہی لوح محفوظ کی انطباعیت اس کے ذہن پر منکشف ہوتی جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ غیب کے نقوش اس اس طرح واقع ہیں اور ان نقوش کا مفہوم اس کے شعور میں منتقل ہونے لگتا ہے۔ انطباعیت کا مطالعہ کرنے کے لئے صرف چند روزہ مراقبہ کافی ہے۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )