Topics

قوت القاء

قوت القاء کی تفصیل یہ ہے کہ صوفی جس کا نام ’’ہوئیت‘‘ رکھتے ہیں اس کو تفصیلی طور پر ذہن نشین کر لیا جائے۔ دراصل ’’ہوئیت‘‘’’لا‘‘ کی تجلیات کا مرکز ہے۔ اس مرکزیت کا تحقق قوت القاء کی بنا قائم کرتا ہے۔ اس کی شرح یہ ہے کہ ذات کی تجلیات جب تنزل کر کے ’’واجب‘‘ کی انطباعیت میں منتقل ہوتی ہیں تو موجودات کے بارے میں علم الٰہی کا عرف تخلیق پا جاتا ہے۔ یہ پہلا تنزل ہے۔ اس چیز کا تذکرہ ہم نے پہلے ’’علم القلم‘‘ کے نام سے بھی کیا ہے۔ یہ تجلیات ایسے اسرار ہیں جو مشیت ایزدی کا پورا احاطہ کر لیتے ہیں۔ جب مشیت ایزدی ایک مرتبہ اور تنزل کرتی ہے تو یہی اسرار لوح محفوظ کے اجمال کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ان ہی شکلوں کا نام مذہب ’’تقدیر مبرم‘‘ رکھتا ہے۔ دراصل یہ عرف کی عبارتیں ہیں۔ عرف سے مراد وہ معنویت ہے جو حکم الٰہی کی بساط بنتی ہے۔ 

یہ عرف اجمال کی نوعیت ہے۔ اس میں کوئی تفصیل نہیں پائی جاتی۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ابھی تک ’’دورِ ازلیہ‘‘ کا اجراء پایا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں جہاں تک افادہ بالفعل یا فعلیت کی شاخیں یعنی اختراعات و ایجادات کا سلسلہ جاری ہے، دور ازلیہ شمار ہو گا۔ قیامت تک اور قیامت کے بعد ابد الآباد تک جو جو نئے اعمال پیش آتے رہیں گے۔ خواہ اس میں جنت و دوزخ کے قرون اُولیٰ، قرون وسطیٰ اور قرون اخریٰ ہی کیوں نہ ہوں،  دور ازلیہ کے حدود میں ہی سمجھے جائیں گے۔ ابد تک ممکنات کا ہر مظاہرہ ازل ہی کے احاطے میں مقید ہے۔ اس ہی لئے جو بھی تنزل علم القلم کے اسرار کا پیش آ رہا ہے یا پیش آئے گا وہ اس ہی اجمال کی تفصیل ہو گی جو لوح محفوظ کی کلیات کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں لوح محفوظ کا مالک ہوں جس حکم کو چاہوں برقرار رکھوں اور جس حکم کو چاہوں منسوخ کر دوں۔

لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابُٗoیَمْحُواللّٰہُ مَاَ یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ وَعِنْدَہٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِo

(سورۂ رحد۔ آیت ۳۸)

ترجمہ: ہر وعدہ ہے لکھا ہوا۔ مٹاتا ہے اللہ جو چاہے اور رکھتا ہے اور اس کے پاس ہے اصل کتاب۔

یہ فرمان اس ہی اجمال کے بارے میں ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب چاہیں اور جس طرح چاہیں اسرار کے مفہوم اور رجحانات بدل سکتے ہیں۔

یہاں ذرا شرح اور بسط کے ساتھ مذکورہ بالا آیت پر غور کرنے سے دور ازلیہ کی وسعتوں کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنی کسی مصلحت کو تخلیقی اختراعات اور ایجادات کے اجمال میں بدلنا پسند فرماتے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے منافی نہیں ہے۔ دوسرے تنزل کے بعد اجمال کی تفصیل احکامات کے پورے خدوخال پیش کرتی ہے۔ یہاں تک مکانیت اور زمانیت کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ البتہ ’’جُو‘‘ یعنی تیسرے تنزل کے بعد جب کوئی شئے عالم تخلیط کی حدود میں داخل ہو کر عنصریت کے لباس کو قبول کرتی ہے۔ اس وقت مکانیت کی بنیادیں پڑتی ہیں۔ یہ القاء کی آخری منزل ہے۔ اس منزل میں جو حالتیں اور صورتیں گزرتی ہیں ان کو افادہ بالفعل کہتے ہیں۔ اس کی مثال سینما سے دی جا سکتی ہے۔ جب آپریٹر مشین کو حرکت دیتا ہے تو فلمی رِیل کا عکس کئی لینسوں(LENSES) کے ذریعے خلاء سے گزر کر پردہ پر پڑتا ہے۔ اگرچہ خلاء میں ہر وہ تصویر جو پردہ پر نظر آ رہی ہے، اپنے تمام خدوخال اور پوری حرکات کے ساتھ موجود ہے لیکن آنکھ اسے دیکھ نہیں سکتی۔ زیادہ سے زیادہ وہ شعاع نظر آتی ہے جس شعاع کے اندر تصویریں موجود ہیں۔ جب یہ تصویریں پردہ سے ٹکراتی ہیں اس وقت ان کی فعلیت پوری طرح دیکھنے والی آنکھ کے احاطے میں سما جاتی ہے۔ اس مظاہرہ کا نام ہی افادہ بالفعل ہے۔ اس مظاہرہ کی حدود میں ہی ہر مکانیت اور ہر زمانیت کی تخلیق ہوتی ہے۔ جب تک کوئی چیز صرف اللہ تعالیٰ کے علم کے حدود میں تھی اس وقت تک اس نے واجب کا لینس(LENSE) عبور نہیں کیا تھا یعنی اس میں حکم کے خدوخال موجود نہیں تھے لیکن واجب کے لینس سے گزرنے کے بعد جب اس چیز کے وجود نے کلیات یا لوح محفوظ کی حدود میں قدم رکھا۔ اس وقت حکم کے خدوخال مرتب ہو گئے۔ پھر اس لینس سے گزرنے کے بعد ’’جُو‘‘ میں جس کو عالم تمثال بھی کہتے ہیں تمثلات یعنی تصویریں جو حکم کے مضمون اور مفہوم کی وضاحت کرتی ہیں وجود میں آ گئیں۔ اب یہ تصویریں’’جُو‘‘ کے لینس سے گزر کر ایک کامل تمثل کی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔ اس عالم کو عالم تخلیط یا عالم تمثل بھی کہتے ہیں۔ لیکن ابھی عنصریت ان میں شامل نہیں ہوئی یعنی ان تصویروں نے جسم یا جسد خاکی کا لباس نہیں پہنا۔ جب تک ان تصویروں کی عنصریت سے واسطہ نہ پڑے، یہ احساس سے روشناس نہیں ہوتیں۔

القاء کی ابتدا پہلے لینس کے عبوری دور سے ہوتی ہے جب تک موجودات کی تمام فعلیتیں اللہ تعالیٰ کے علم میں رہیں، القاء کی پہلی منزل میں تھیں اور جب لوح محفوظ کے لینس سے گزریں تو احکامات الٰہیہ میں خدوخال اور آثار پیدا ہو گئے۔ یہ القاء کی دوسری منزل ہے۔ 

جب احکام اور مفہوم کی فعلیتیں ’’جُو‘‘ کے لینس سے گزر کر شکل وصورت اختیار کر لیتی ہیں تو یہ القاء کی تیسری منزل ہوتی ہے۔ اس منزل سے عبور حاصل کرنے کے بعد تمام تصاویر عالم ناسوت کے مرحلے میں داخل ہو جاتی ہیں۔ یہاں ان کو مکانیت اور زمانیت اور احساس سے سابقہ پڑتا ہے۔ یہ القاء کی چوتھی منزل ہے۔


Topics


لوح وقلم

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )