Topics
جب اللہ تعالیٰ نے کُن فرمایا تو صفات الٰہیہ کائنات کی شکل وصورت بن گئیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کے اجزاء کثرت کا چہرہ بن گئے۔ یہ چہرہ ان تمام روحوں یا اجزاء کا مجموعہ ہے جن کو الگ الگ مخلوق کی شکل وصورت حاصل ہوئی۔ تخلیق کی پہلی تعریف یہ ہوئی کہ اجزائے لاتجزاء یعنی روحیں جن کو قرآن میں اَمْرربِّیْ کہا گیا ہے موجودات کی صورت میں نمایاں ہو گئیں۔ اس تعریف کو مدنظر رکھ کر ہم اس ربط کو نہیں بھول سکتے جو خالق اور مخلوق کے درمیان ہے۔ اس ہی ربط کو تصوف کی زبان میں ’’جُو‘‘ کہا گیا ہے۔
’’جُو‘‘ کی دوسری تعریف یہ ہے کہ مخلوق ہر قدم پر خالق کے ربط کی محتاج ہے اور خالق کی صفات ہی ہر لمحہ ’’جُو‘‘ کو حیات نو عطا کرتی ہے۔
’’جُو‘‘ کے تیسرے مرحلے میں ایک ایسا سلسلہ سامنے آتا ہے جس کو ہم پیدائش کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ تصوف کی زبان میں اس کا نام رخ اول ہے۔
’’جُو‘‘ کا چوتھا سلسلہ خود پیدائش کی شکل و صورت کے نام ہے جس کو تصوف کی زبان میں رُخِ ثانی کہتے ہیں۔ یہ دونوں رُخ ’’جُو‘‘ کے تنوع کا مجموعہ ہیں۔
’’جُو‘‘ کے پانچویں سلسلہ میں افراد کا ذہن تنظیم کی نوعیت اختیار کر لیتا ہے یعنی
’’جُو‘‘ کا انفرادی احساس ایک ایک فرد کے احساس کا ادراک کر لیتا ہے۔
’’جُو‘‘نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حبْلِ الْوَرِیْد کی شرح ہے۔ کائنات میں جو چیز شعور کو محسوس ہوتی ہے یا نظر آتی ہے یا شعور اس کا ادراک کرتا ہے اس کا وجود تمثل اول کی شکل میں’’جُو‘‘ کے اندر پایا جاتا ہے۔ کوئی فرد جہاں بھی ہے تمثل اول کا عکس ہے خواہ وہ فرد انسان ہو، جن ہو، فرشتہ ہو، نباتات سے ہو یا جمادات سے یا کسی کرّہ کی حیثیت رکھتا ہو۔
کائنات کا ہر فرد ’’جُو‘‘ کے ذریعے لاشعوری طور پر ایک دوسرے کے ساتھ روشناس اور منسلک ہے۔ تصوف کی زبان میں’’جُو‘‘ کی تفصیلات ’’مغیبات اکوان‘‘ کہلاتی ہیں۔ اگر کسی فرد کو مغیبات اکوان کا علم حاصل ہے تو وہ ایک ذرہ کی حرکت کو دوسرے ذرہ کی حرکت سے ملحق دیکھ سکتا ہے۔ بالفاظ دیگر’’جُو‘‘ کا شعور رکھنے والا اگر ہزار سال پہلے کے یا ہزار سال بعد کے واقعات کا مشاہدہ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )