Topics
اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ آدم اور اس کی اولاد زندگی خوش ہو کر گذارے اور اس کے اوپر غم و آلام اور مصائب و پریشانی کی پرچھائی بھی نہ پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو مستوحب ملائکہ بنانے کے بعد جنت میں بھیجا اور فرمایا۔
’’تو اور تیری بیوی حوا جنت میں رہو اور یہاں سے دل چاہے خوش ہو کر کھاؤ پیو۔ اگر تم شجرہ ممنوعہ کے قریب گئے تو خوشیاں تم سے روٹھ جائیں گی اور تم اپنے اوپر ظلم کرو گے۔‘‘
جب آدم کے اوپر سے خوشی کی لہروں کا نورانی غلاف نہ رہا تو آدم کو جنت یعنی خوشی نے رد کر دیا۔
آدم زمین پر پھینک دینے کے بعد دو کشتیوں میں سوار مسافر ہے۔
زندگی کا اصل رخ خوشی اور زندگی کا دوسرا رخ ناخوشی، ناخوشی یہ ہے کہ آدم زاد نے اصل زندگی کو فراموش کر دیا ہے اور Fictionزندگی کو اصل زندگی سمجھ لیا ہے۔ Fictionزندگی یہ ہے کہ عارضی چیزوں کو، عارضی وسائل کو، عارضی ماہ و سال کو، عارضی دلچسپیوں کو، اصل یا حقیقت سمجھ لیا جائے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ بیسویں صدی ترقی کی معراج کی صدی ہے لیکن اس صدی میں انسان کے اوپر جتنے مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے ہیں اور انسان جس قدر پریشانیوں میں مبتلا ہوا ہے اور جتنی نئی نئی بیماریوں نے اس کو نگل لیا ہے۔ نوع انسانی کی پوری تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی اور اس کی واضح روش موجودہ صدی پر Fictionفکشن ترقی کے پیچھے کا حصول نمایاں ہے۔ جسے انسانی ذہن دولت پرستی میں مبتلا ہو رہا ہے۔ اسی تناسب سے غم، خوف اور عدم تحفظ کے احساس نے غلبہ حاصل کر لیا ہے۔
Fictionاحوس سے نجات حاصل کرنے کے لئے نوع انسانی کے پاس جو یقینی رازتہ ہے وہ دولت پرستی سے آزادی ہے۔
دولت پرستی بجائے خود ایک شرک ہے۔ تاریخ پر نظر رکھنے والے لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ جس قوم میں دولت پرستی عام ہو جائے تو زمین پر سے اس کا وجود ختم کر دیا گیا۔
اس لئے نافرمانی اور شرک دو ایسے گناہ ہیں جو انسان کے ضمیر کے اندر نور کو ختم کر دیتے ہیں اور Fictionاحوس کی تاریکی اس کے اوپر مسلط ہو جاتی ہے۔
لاعلاج بیماریاں لقمہ تر سمجھ کر نگل لیتی ہیں۔ پریشانیاں اس کو بے چین اور مضطرب کر دیتی ہیں۔ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمیؔ (ابا حضور) مسلسل 30سال سے اللہ کی مخلوق کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ دنیا کی چیزیں استعمال کے لئے ہیں۔ دنیاوی وسائل آرام و آسائش حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ یہ سارے آرام و آسائش کے سامان اس لئے بنے ہوئے ہیں کہ اللہ کی مخلوق ان سے فائدہ اٹھائے اور ان کو زندگی کا مقصد نہ قرار دے۔ پیچیدہ صورت حال کو سامنے رکھ کر نوع انسانی کے لئے حضرت عظیمی صاحب نے ایسے علاج تجویز کئے ہیں جن کا تعلق براہ راست انسان کے Innerیعنی روح سے ہے۔
میں نے مرشد کریم حضرت عظیمی صاحب کی خدمت خلق کے اس 30سالہ ریکارڈ کو جمع کیا اور روحانی ڈاک(1)، روحانی ڈاک(2)اللہ کی مخلوق کی خدمت میں پیش کر دیں۔ اب روحانی ڈاک(3) آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ انشاء اللہ روحانی ڈاک(4) جلد پیش کرے۔ اس 30سالہ علاج اور بیماریوں سے متعلق یہ ریکارڈ پورا ہو جائے گا۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نوع انسانی کو وہ سکون عطا کرے جو اسے جنت میں حاصل تھا۔ جہاں نہ دکھ تھا، نہ پریشانی تھی اور نہ کسی قسم کا خوف اور عدم تحفظ کا احساس تھا۔ اللہ رحمت اللعالمین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آ لہ و سلم اور حضور قلندر بابا اولیاء کی نسبت اور رحمت سے میں(میاں مشتاق احمد عظیمی)پُریقین ہوں کہ میری اس کاوش سے اللہ کی مخلوق کو فائدہ ہو گا اور بے سکونی کا ہر دن کا جلتا ہوا سمندر تبدیل ہو کر پر سکون دریا بن جائے گا اور اس دریا میں سے نہریں، ندیاں بہہ نکلیں گی۔ انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو متحد ہو کر امتہ مسلم بننے کی توفیق عطا کرے اور ہمارے اندر آپس میں تفرقہ بازی ختم ہو جائے اور ہم متحد ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ اس طرح پکڑیں کہ تفرقہ کی بنیاد ختم ہو جائے۔ آمین یا رب العالمین!
میاں مشتاق احمد عظیمی
روحانی فرزند خواجہ شمس الدین عظیمیؔ
مراقبہ ہال158۔ مین بازار مزنگ لاہور
فون نمبر:7243541
تاریخ27-01-95
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔