Spiritual Healing
سوال: میرا ذہن خوف میں جکڑا ہوا ہے۔ سوتے وقت عہد کرتی ہوں کہ ہر خوف بھول جاؤں گی مگر پھر دوسرے دن جیسے کوئی نادیدہ قوت اکساتی ہے کہ وقفے وقفے سے ہر بات پر گھبرا اٹھتی ہوں۔ اپنے گھر اور باہر کی دنیا کو خوش اور مطمئن دیکھتی ہوں۔ نہایت بزدل ہو چکی ہوں۔ ہر بات چاہے معمولی ہو یا غیر معمولی اس کو ذہن سے چمٹا لیتی ہوں اکیلی کہیں آ جا نہیں سکتی حتیٰ کہ کالج جانا بھی گویا جوئے شیر لانا ہے۔ یکسوئی سے پڑھائی نیہں ہو سکتی۔ ہر وقت ذہن میں وسوسے اور فضول خیالات گردش کرتے رہتے ہیں۔ یہ نفسیاتی عارضہ چند ماہ پیشتر کالج کی چھٹیوں کے دوران لاحق ہوا تھا۔ عمر صرف 18سال ہے۔ مگر دل سو سال کی بڑھیا کی طرح مردہ ہو چکا ہے۔ سہیلیاں دیکھتی ہیں تو حیرت کرتی ہیں کیونکہ میں اپنے گروپ کی شریر ترین لڑکی تھی۔ وہ پوچھتی ہیں کہ مجھے کیا ہوا ہے۔ میں انہیں کیا جواب دوں؟ سب ہنستی کھیلتی ہیں ایک میں ہی ہر وقت خوف میں جکڑی رہتی ہوں۔ گھر میں بھی کسی قسم کی حق تلفی نہیں ہوتی کیونکہ میں والدین کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ اخبار تک نہیں پڑھا جاتا۔ ٹی وی یا ریڈیو پر خبریں آتی ہیں۔ تو بند کر دیتی ہوں یا خود اٹھ جاتی ہوں۔ مبادا کوئی ’’بری خبر‘‘ سن لوں کسی کی موت یا بیماری کے ذکر سے تو میرا حال برا ہو جاتا ہے۔ ذہن میں سب سے پہلا خیال یہی آتا ہے کہ یہ سب کچھ مجھے بھی ہو جائے گا۔
میرا کسی کام میں جی نہیں لگتا۔ ہر وقت سستی رہتی ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی چیز کھو گئی ہے۔ کسی جگہ سکون نہیں ملتا۔ کسی سے میری نہیں بنتی حالانکہ میں کوشش کرتی ہوں کہ ہر ایک سے خوش اخلاقی سے پیش آؤں۔ لیکن اس کے باوجود زبان پر اختیار نہیں۔ بہن بھائیوں اور والدین سے نفرت سی ہے۔ کوئی ذرا بھی کچھ کہتا ہے غصہ سے بھر جاتی ہوں۔ خود اگر کوئی کام کرتی ہوں تو اس پر یقین نہیں آتا کہ میں نے کام ٹھیک کیا ہے۔ بلکہ اس پر بار بار غور کرتی ہوں کہ یہ غلط تو نہیں۔ کوئی چیز کسی جگہ رکھوں اسے ہزار بار دیکھتی ہوں کہ ٹھیک رکھی ہے یا نہیں۔ دیکھ کر بھی یقین نہیں آتا۔ غسل کروں یا کپڑے دھونے بیٹھوں تو خوب پانی گرا کر بھی صفائی کی تسلی نہیں ہوتی۔ لوگوں سے لڑ جھگڑ کر بعد میں توبہ کرتی ہوں۔
جواب: رات کو سونے سے پہلے آرام دہ نشست میں بیٹھ کر آنکھیں بند کریں اور بند آنکھوں سے دیکھیں کہ آپ خود آپ کی بند آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ جب یہ تصور قائم ہو جائے تو دیکھیں کہ آپ کے دماغ سے ایک لہر نکل کر آپ کے مثالی جسم کے دماغ میں جذب ہو رہی ہے۔ ایک منٹ تک یہ تصور کریں۔ اور آنکھیں کھول دیں۔ یہ علاج دو ہفتوں تک بلا ناغہ کرتے رہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔