Spiritual Healing
سوال: خواجہ صاحب! پچھلے دنوں میں میرے ایک خط کے جواب میں آپ نے فرمایا تھاکہ ہمزاد کا عمل ایک سفلی عمل ہے جو شریعت میں حرام ہے اور اسی بناء پر آپ نے مجھے اس عمل کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ میں نے آپ کو خط لکھنے سے پہلے ایک مقامی بزرگ سے مشورہ کیا تھا۔ جنہوں نے وہ طریقہ بتایا جس کے پڑھنے سے ہمزاد قابو نہیں آتا آ جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کلام پاک کی آیت کا عمل کسی بھی طور سے سفلی ہو سکتا ہے۔ براہ کرم تسلی بخش جواب دیں۔
جواب: ماورائی علوم جس میں جادو اور ہمزاد تابع کرنے کا علم بھی ہے اور ان علوم سے استفادہ کرنے کی دو طرزیں ہیں ایک رحمانی طرز ہے اور دوسری طرز کا نام استدراج ہے۔ رحمانی طرز میں تعمیر ہوتی ہے اور شیطانی طرز استدراج میں تخریب ہوتی ہے چونکہ ہمزادکے عمل میں تخریب ہوتی ہے اس لئے یہ علم سیکھنا جائز نہیں ہے۔
ماورائی علم اور اس کی دونوں طرزوں کی تشریح قرآن پاک میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ بیان کی گئی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حق کا نمائندہ بنا کر فرعون کی طرف بھیجا گیا تو فرعون نے پیغمبر خدا کے معجزات کو استدراجی علوم پر قیاس کیا۔ چنانچہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر قرار دے کر اپنے ملک کے تمام بڑے بڑے جادوگروں کو جمع کر لیا تا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ کر کے انہیں شکست دے دیں۔ مقابلے کے دن میدان میں ایک طرف اللہ کے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کھڑے تھے اور دوسری طرف ابلیس، استدراج(جادو) کے نمائندے تھے۔
جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں جو سانپ اور اژدھے بن گئیں۔ ان کے مقابلے میں وحی الٰہی کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پر پھینکا اور وہ اژدھا بن کر تمام طلسمی سانپوں اور اژدھوں کو نگل گیا۔
جادوگروں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ استدراجی علوم اور رحمانی علوم کے درمیان فرق کی ایک اور واضح تشریح ہے۔
اس واقعہ سے یہ بات سامنے آ جاتی ہے ہے کہ جادوگر دنیا کی طمع میں اپنے علم سے فرعون کی خوشنودی چاہتے تھے۔ اس کے برعکس حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مشن خدا کی مخلوق کی خدمت اور رضائے الٰہی کا حصول تھا۔ کوئی صاحب یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمزاد قابو/طابع کر کے بھی اللہ کی مخلوق کی خدمت کی جا سکتی ہے اور اس طرح یہ بھی استدراج کی بجائے رحمانی علم بن سکتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب طرز فکر شیطانی ہو ۔ کسی بزرگ کا یہ کہنا ہے کہ قرآن پاک کی کسی آیت یا کسی سورہ سے ہمزاد تابع ہو جاتا ہے۔
روحانی قوانین کے قطعاً خلاف ہے۔ ہمارے معاشرے میں عامل حضرات، پیر حضرات اور گدی نشین حضرات کا بہت عمل دخل ہے۔ عوام چونکہ ان سب اصطلاحوں سے صرف اس حد تک واقف ہیں کہ پیر فقیر، گدی نشین سب روحانی لوگ ہیں اور لوگوں کے دوست ہیں اس لئے بیچارے سادہ دل بندے فریب کھاتے رہتے ہیں۔ فقیر اور اللہ کے دوست کی ایک بہت آسان پرکھ ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن پاک میں ارشاد کیا ہے، ’’اللہ کے دوستوں کو نہ خوف ہوتا ہے اور نہ غم ہوتا ہے۔‘‘(قرآن)۔ اس آیت کا سیدھا اور عام فہم مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو غم اور خوف ہوتا ہے وہ اللہ کے دوست نہیں ہوتے اور جو بندہ غم اور خوف سے آزاد نہیں ہے ہرگز فقیر کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔