Topics
رنگوں کا فرق بھی یہیں سے شروع ہوتاہے۔
ہلکا آسمانی رنگ بہت ہی کمزور قسم کا وہم پیداکرتاہے، یہ وہم دماغ فضا میں تحلیل
ہوجاتاہے۔ اس طرح کہ ایک ایک خلئے میں درجنوں آسمانی رنگ کے پرتو ہوتے ہیں یہ پر
تو الگ الگ تاثرات رکھتے ہیں، وہم کی پہلی روخاص کر بہت ہ کمزور ہوتی ہے۔ جب یہ رو
دو یا دو سے زیادہ چھ تک ہو جاتی ہیں۔ اس وقت ذہن اپنے اندر وہم کو محسوس کرنے
لگتا ہے یہ وہم اتنا طاقتور ہوتاہے کہ اگرجنبش نہ کرے اور ایک جگہ مرکوز ہوجائے
توآدمی نہایت تندرست رہتاہے اسے کوئی اعصابی کمزوری نہیں ہوتی بلکہ اس کے اعصاب
صحیح سمت میں کام کرتے ہیں۔ اس رو کا اندازہ بہت ہی شاذ ہوتاہے۔ اگریہ روکسی ایک
ذرہ پر یاکسی ایک سمت میں یا کسی ایک رخ پر مرکوز ہوجائے اور تھوڑی دیر بھی مرکوز
رہے تو دوردراز تک اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔
انسان کو اس روکے ذریعہ متاثر کیاجا
سکتاہے ۔ ٹیلی پیتھی کا اصل اصول یہی ہے کہ وہم ان چیزوں کو بھی متاثر کرتا ہے ذی
روح نہیں سمجھی جاتیں۔
سب سے پہلااثراس کا دماغی اعصاب پرہوتاہے
یہاں تک کہ دماغ کے لاکھوں خلئے اس کی چوٹ سے فنا ہوجاتے ہیں۔ اب دماغی خلئے جو
باقی رہتے ہیں وہ ام الدماغ کے ذریعہ اسپائنل کورڈ(SPINAL
CORD)میں اپنا تصرف لے جاتے ہیں۔ یہی وہ تصرف
ہے جو باریک ترین ریشوں میں تقسیم ہوتاہے ، اس تصرف لے پھیلنے سے حواس بنتے ہیں۔
ان میں سب سے پہلی حس نگاہ کی ہے۔ آنکھ کی پتلی پر جب کوئی عکس پڑتاہے تو وہ اعصاب
کے باریک ترین ریشوں میں ایک سنسناہٹ پیداکردیتاہے۔ یہ ایک مستقل برقی رو ہوتی ہے
اگر اس کا رخ صحیح ہے تو آدمی بالکل صحت مند ہے ۔ اگر اس کا رخ صحیح نہیں ہے تو
دماغ کی فضا کا رنگ گہراہوجاتاہے اور گہرا ہوتاچلاجاتاہے۔ یہاں تک کہ دماغ میں
کمزوری پیداہوجاتی ہے اور اعصاب اس رنگ کے پریشر کو برداشت نہیں کر سکتے۔ آخر میں
یہ رنگ اتنا گہراہوجاتاہے کہ اس میں تبدیلیاں واقع ہو جاتی ہیں۔ مثلاً آسمانی رنگ
سے نیلا رنگ بن جاتاہے۔ درمیان میں جو مرحلے پڑتے ہیں وہ بے اثر نہیں ہیں۔ سب سے
پہلے مرحلے کے زیر اثر آدمی کچھ وہمی ہوجاتاہے اسی طرح یکے بعد دیگر ے مرحلے رونما
ہوتے ہیں۔ رنگ گہراہوتاجاتاہے اوروہم کی قوتیں بڑھتی جاتی ہیں۔باریک ترین ریشے بھی
اس تصرف کا اثر قبول کرتے ہیں۔ اب کیفیت مختلف اعصاب میں مختلف شکلیں پیداکر دیتی
ہے۔ باریک اعصاب میں بہت ہلکی اورمعمولی اورتنومند اعصاب میں مضبوط اور طاقتور اسی
طرح یہ مرحلے گہرے نیلے رنگ میں تبدیلیاں شروع کر دیتے ہیں۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
زمین پرموجودہرشےمیں کوئی نہ کوئی رنگ نمایاں ہے،کوئی شےبےرنگ نہیں ہے۔ کیمیائی سائنس بتاتی ہےکہ کسی عنصرکوشکست وریخت سےدوچارکیاجائےتومخصوص قسم کےرنگ سامنےآتےہیں ۔ رنگوں کی یہ مخصوص ترتیب کسی عنصرکی ایک بنیادی خصوصیت ہے۔ چنانچہ ہرعنصرمیں رنگوں کی ترتیب جداجداہے۔ یہی قانون انسانی زندگی میں بھی نافذہے۔ انسان کےاندربھی رنگوں اورلہروں کامکمل نظام کام کرتاہے ۔ رنگوں اورلہروں کاخاص توازن کےساتھ عمل کرناکسی انسان کی صحت کاضامن ہے ۔ اگرجسم میں رنگوں اورروشنیوں میں معمول سےہٹ کرتبدیلی واقع ہوتی ہےتوطبیعت اسکوبرداشت نہیں کرپاتی ہےاوراسکامظاہرہ کسی نہ کسی طبعی یاذہنی تبدیلی کی صورت میں ہوتاہے ۔
ہم اسکوکسی نہ کسی بیماری کانام دیتےہیں مثلاًبلڈپریشر،کینسر،فسادخون،خون کی کمی،سانس کےامراض،دق وسل،گٹھیا،ہڈیوں کےامراض،اعصابی تکالیف اوردیگرغیرمعمولی احساسات وجذبات وغیرہ۔
اس کتاب میں آدمی کےدوپیروں پرچلنےکاوصف بیان کیاگیاہےاوراس بات کی تشریح کی گئی ہےکہ ا نسان اورحیوان میں روشنی کی تقسیم کاعمل کن بنیادوں پرقائم ہےاورتقسیم کےاس عمل سےہی انسان اورحیوان کی زندگی الگ الگ ہوتی ہے ۔ روشنی ایک قسم کی نہیں ہوتی بلکہ انسانی زندگی میں دورکرنےوالی روشنیوں کی بےشمارقسمیں ہیں ۔ یہ روشنیاں انسان کوکہاں سےملتی ہیں اورانسانی دماغ پرنزول کرکےکسطرح ٹوٹتی اوربکھرتی ہیں۔ ٹوٹنےاوربکھرنےکےبعد دماغ کےکئی ارب خلئےان سےکسطرح متاثرہوکرحواس تخلیق کرتےہیں۔ مختلف رنگوں کےذریعےبیماریوں کےعلاج کےعلاوہ عظیمی صاحب نےاس کتاب میں انسانی زندگی پرپتھروں کےاثرات کےحوالےسےبھی معلومات فراہم کی ہیں۔