Topics

آسمانی رنگ کیا ہے؟

آسمانی رنگ فی الحقیقت کوئی رنگ نہیں بلکہ وہ ان کرنوں کا مجموعہ ہے جو ستاروں سے آتی ہیں۔ جیساکہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ کہیں بھی ان ستاروں کا فاصلہ پانچ نوری سال سے کم نہیں ہے۔ ایک کرن ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔اس طرح نوری سال کا حساب لگایا جاسکتاہے۔ 

ہرستارہ کی روشنی سفر کرتی ہے اور سفر کرنے کے دوران ایک دوسرے سے ٹکراتی ہے ان میں ایک کرن کا کیا نام رکھا جائے یہ انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ نہ انسان کرن کے رنگ کو آنکھوں میں جذب کر سکتاہے۔ یہ کرنیں مل جل کے جو رنگ بناتی ہیں وہ تاریک ہوتاہے اور اس تاریکی کو نگاہ آسمانی محسوس کرتی ہے انسان کے سر میں اس کی فضا سرایت کر جاتی ہے ۔ نتیجے میں وہ لاتعدادا خلئے جو انسان کے سر میں موجود ہیں اس فضا سے معمور ہو جاتے ہیں اور یہاں تک معمور ہوتے ہیں کہ ان خلیوں میں مخصوص کیفیات کے علاوہ کوئی کیفیت سما نہیں سکتی۔ یا تو ہر خلئے کی ایک یفیت ہوتی ہے یا کئی خلیوں میں مماثلت پائی جاتی ہے ا ور ان کی وجہ سے ایک دوسرے کی کیفیات شامل ہو جاتی ہیں لیکن یہ اس رح کی شمولیت نہیں ہوتی کہ بالکل مدغم ہوجائے بلکہ اپنے اپنے اثرات لے کر غلط ملط ہو جاتی ہے اور اس طرح دماغ کے لاتعداد خلئے ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتے ہیں اور یہاں تک پیوست ہوتے ہیں کہ ہم کسی خلئے کا عمل یاردِّعمل ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتے بلکہ وہ مل جل کر وہم کی صورت اختیارکرلیتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ انسان توہماتی جانور ہے تو بے جا نہیں ہوگا۔ خلیوں کی یہ فضا توہمات کہلا سکتی ہے۔ یا خیالات یا محسوسات یہ توہمات فضا دماغی ریشوں میں سرایت کر جاتی ہے۔ ایسے ریشے جو باریک ترین ہیں۔

خون کی گردشِ رفتار ان میں تیز تر ہوتی ہے۔ اسی گردشِ رفتار کا نام انسان ہے۔ خو ن کی نوعیت اب تک جو کچھ سمجھی گئی ہے فی الواقع اس سے کافی حد تک مختلف ہے۔

آسمانی فضا سے جو تاثرات دماغ کے اوپر مرتب ہوتے ہیں وہ ایک بہاؤ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور حقیقت میں ان کوتوہمات یا خیالات کے سوا اور کوئی نام نہیں دیاجا سکتا۔ جب آسمانی رنگ کی فضا خون کی روبن جاتی ہے تو اس کے اندر وہ حلقے کام کرتے ہیں جودوسرے ستاروں سے آئے ہیں وہ حلقے چھوٹے سے چھوٹے ہوتے ہیں، اس قدر چھوٹے کہ دو ربین بھی انہیں نہیں دیکھ سکتی لیکن ان کے تاثرات عمل کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ انسان کے اعصاب میں وہی حرکات بنتے ہیں اور انہی کی زیادتی یاکمی اعصابی نظام میں خلل پیداکرتی ہے۔


Topics


رنگ اور روشنی سے علاج

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

زمین پرموجودہرشےمیں کوئی نہ کوئی رنگ نمایاں ہے،کوئی شےبےرنگ نہیں ہے۔ کیمیائی سائنس بتاتی ہےکہ کسی عنصرکوشکست وریخت سےدوچارکیاجائےتومخصوص قسم کےرنگ سامنےآتےہیں ۔ رنگوں کی یہ مخصوص ترتیب کسی عنصرکی ایک بنیادی خصوصیت ہے۔ چنانچہ ہرعنصرمیں رنگوں کی ترتیب جداجداہے۔ یہی قانون انسانی زندگی میں بھی نافذہے۔ انسان کےاندربھی رنگوں اورلہروں کامکمل نظام کام کرتاہے ۔ رنگوں اورلہروں کاخاص توازن کےساتھ عمل کرناکسی انسان کی صحت کاضامن ہے ۔ اگرجسم میں رنگوں اورروشنیوں میں معمول سےہٹ کرتبدیلی واقع ہوتی ہےتوطبیعت اسکوبرداشت نہیں کرپاتی ہےاوراسکامظاہرہ کسی نہ کسی طبعی یاذہنی تبدیلی کی صورت میں ہوتاہے ۔ 

ہم اسکوکسی نہ کسی بیماری کانام دیتےہیں مثلاًبلڈپریشر،کینسر،فسادخون،خون کی کمی،سانس کےامراض،دق وسل،گٹھیا،ہڈیوں کےامراض،اعصابی تکالیف اوردیگرغیرمعمولی احساسات وجذبات وغیرہ۔ 

اس کتاب میں آدمی کےدوپیروں پرچلنےکاوصف بیان کیاگیاہےاوراس بات کی تشریح کی گئی ہےکہ ا نسان اورحیوان میں روشنی کی تقسیم کاعمل کن بنیادوں پرقائم ہےاورتقسیم کےاس عمل سےہی انسان اورحیوان کی زندگی الگ الگ ہوتی ہے ۔ روشنی ایک قسم کی نہیں ہوتی بلکہ انسانی زندگی میں دورکرنےوالی روشنیوں کی بےشمارقسمیں ہیں ۔ یہ روشنیاں انسان کوکہاں سےملتی ہیں اورانسانی دماغ پرنزول کرکےکسطرح ٹوٹتی اوربکھرتی ہیں۔ ٹوٹنےاوربکھرنےکےبعد دماغ کےکئی ارب خلئےان سےکسطرح متاثرہوکرحواس تخلیق کرتےہیں۔ مختلف رنگوں کےذریعےبیماریوں کےعلاج کےعلاوہ عظیمی صاحب نےاس کتاب میں انسانی زندگی پرپتھروں کےاثرات کےحوالےسےبھی معلومات فراہم کی ہیں۔