Topics

عرضِ مکرّر

مختلف کتابیں جو پہلے اس مضمون پر لکھی جا چکی ہیں۔ میں ان کی چھا ن بین کی۔ اسکے علاوہ اپنے ذہن سے اضافے کئے۔ پھر ان اضافوں کا اور اس چھان بین کا تجزیہ کیا۔ یہ تو میں نہیں کہہ سکتاکہ مریضون کو سوفیصد ہی فائدہ ہوا لیکن اتنا ضرور ہے کہ اگر اس کتاب میں لکھے ہوئے علاج کے مطابق عمل کیا جائے تو ننانوے فیصد ی فائدہ ہوگا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ علاج مفت برابر ہے۔ آسان ہے اورکوئی پابندی یا کسی قسم کا قابلِ ذکر پرہیز ان علاجوں میں نہیں کیا جاتا اوریہ علاج ہر گھر میں جو پانی استعمال ہوتاہے اسی پانی سے ہوتاہے۔ فرق اتنا ہے کہ چند قسم کے رنگ اورچند قسم کی روشنیاں پانی میں سرایت کر جاتی ہیں۔ جب یہ پانی استعمال ہوتاہے تو معدہ اس کو چیک نہیں کرتابلکہ براہِ راست یہ پانی خون میں اور اعصاب میں شامل ہوجاتاہے۔ یہ اس کی بہت بڑی خصوصیت ہے جو دنیا کی کسی دوامیں نہیں ہے۔ آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انسانی جسم کے اندر یہ پانی کیا تغیر پیدا کرسکتاہے۔

دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ پانی خون کے اندر دور کرتاہے جیسے عام پانی دورکرتاہے یہ خصوصیت بھی دنیا کی کسی دوامیں نہیں ہے۔

تیسری سب سے بڑی اس کی اہمیت یہ ہے کہ پانی جس وقت خون کے اندر گردش کرتاہے اس وقت رگوں، نسوں اور گوشت پوست کے اندر اس کا رنگ اوراس کی روشنیاں تحلیل ہو جاتی ہیں اور عام پانی جو باقی رہا وہ خارج ہوجاتاہے۔ پسینہ کے ذریعہ یا بول براز کے ذریعہ۔

دنیا کی ہر دوااپنا اثر چھوڑتی ہے اوراپنا اثر چھوڑکر خارج ہو جاتی ہے۔ رنگ اور روشنی کی طرح اعصاب میں پیوست نہیں ہوتی یہ اسی علاج کی ایک اہم خصوصیت ہے۔

رنگ اور روشنی سے تیار شدہ پانی کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ رنگ اورروشنی سے جو پانی الگ ہوتا ہے وہ پانی اعصاب کو، رگوں کو، دل اور دماغ کو اورخون کے ذرّات کو، سب کو، دھوڈالتاہے اور جتنے زہریلے مادّے ہوتے ہیں انہیں اپنے ساتھ لے جاتاہے جو خارج ہو جاتے ہیں۔

کتاب ’’رنگ اور روشنی سے علاج‘‘ کی پہلی اشاعت ہاتھوں ہاتھ نکل گئی اور دوسری اشاعت کے مطالبات کثیر تعداد میں موصول ہوتے رہے ہیں۔ موجودہ اشاعت میں کچھ اضافہ کیا ہے اور وہ انسانی زندگی پر پتھروں کے اثرات سے متعلق ہے۔ اب یہ کتاب زیادہ فائدہ مندہوگئی ہے ۔ اﷲتعالیٰ اس کتاب کو اورزیادہ قبولیت عطا کریں اور لوگ اس سے استفادہ کریں۔

آمین ثم آمین

خواجہ شمس الدین عظیمی

مارچ ۱۹۷۸ ؁ء


Topics


رنگ اور روشنی سے علاج

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

زمین پرموجودہرشےمیں کوئی نہ کوئی رنگ نمایاں ہے،کوئی شےبےرنگ نہیں ہے۔ کیمیائی سائنس بتاتی ہےکہ کسی عنصرکوشکست وریخت سےدوچارکیاجائےتومخصوص قسم کےرنگ سامنےآتےہیں ۔ رنگوں کی یہ مخصوص ترتیب کسی عنصرکی ایک بنیادی خصوصیت ہے۔ چنانچہ ہرعنصرمیں رنگوں کی ترتیب جداجداہے۔ یہی قانون انسانی زندگی میں بھی نافذہے۔ انسان کےاندربھی رنگوں اورلہروں کامکمل نظام کام کرتاہے ۔ رنگوں اورلہروں کاخاص توازن کےساتھ عمل کرناکسی انسان کی صحت کاضامن ہے ۔ اگرجسم میں رنگوں اورروشنیوں میں معمول سےہٹ کرتبدیلی واقع ہوتی ہےتوطبیعت اسکوبرداشت نہیں کرپاتی ہےاوراسکامظاہرہ کسی نہ کسی طبعی یاذہنی تبدیلی کی صورت میں ہوتاہے ۔ 

ہم اسکوکسی نہ کسی بیماری کانام دیتےہیں مثلاًبلڈپریشر،کینسر،فسادخون،خون کی کمی،سانس کےامراض،دق وسل،گٹھیا،ہڈیوں کےامراض،اعصابی تکالیف اوردیگرغیرمعمولی احساسات وجذبات وغیرہ۔ 

اس کتاب میں آدمی کےدوپیروں پرچلنےکاوصف بیان کیاگیاہےاوراس بات کی تشریح کی گئی ہےکہ ا نسان اورحیوان میں روشنی کی تقسیم کاعمل کن بنیادوں پرقائم ہےاورتقسیم کےاس عمل سےہی انسان اورحیوان کی زندگی الگ الگ ہوتی ہے ۔ روشنی ایک قسم کی نہیں ہوتی بلکہ انسانی زندگی میں دورکرنےوالی روشنیوں کی بےشمارقسمیں ہیں ۔ یہ روشنیاں انسان کوکہاں سےملتی ہیں اورانسانی دماغ پرنزول کرکےکسطرح ٹوٹتی اوربکھرتی ہیں۔ ٹوٹنےاوربکھرنےکےبعد دماغ کےکئی ارب خلئےان سےکسطرح متاثرہوکرحواس تخلیق کرتےہیں۔ مختلف رنگوں کےذریعےبیماریوں کےعلاج کےعلاوہ عظیمی صاحب نےاس کتاب میں انسانی زندگی پرپتھروں کےاثرات کےحوالےسےبھی معلومات فراہم کی ہیں۔