Topics
اب ہم ہلکے نیلے اورگہرے رنگ کے خواص بیان
کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ہلکے نیلے رنگ کااثردماغی خلیوں پرپڑتاہے۔ اگرچہ دماغی خلیوں
کا رنگ ہلکا نیلا الگ الگ ہوتاہے۔ لیکن ان خلیوں کی دیواریں ہلکی اور موٹی ہوتی
ہیں۔ پھر ان میں رنگوں کے چھاننے کے اثرات بھی موجود ہیں۔ ایک خلیہ اپنے ہلکے نیلے
رنگ کو جب چھانتاہے تواس رنگ میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اس طرح لاکھوں خلئے مل کر
اپنا تصرف کرتے ہیں۔ تصرف کا مطلب یہ ہے کہ ایک فلسفی ان خلیوں کو اور ان خلیوں کے
تمام تصرفات کوایک ہی طرف متوجہ کرلیتاہے۔ اب تصرف کا اختلاف قسم قسم کے فلسفے
تخلیق کرتاہے اور ان کی تخلیقات یہاں تک ہوتی ہیں کہ وہ اکثر ایک عملی شکل اختیار
کرلیتی ہیں پھر اسی علم کے اندر اختلافات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ جس سے بحث کی
باریکیاں نکل آتی ہیں۔ منشاء اس کے بیان کرنے کا یہ ہے کہ یہ اختلاف ایک دوسرے
فلسفہ کا مخالف فلسفہ بن جاتاہے۔ پہلے دلائل میں معمولی اختلافات ہوتے ہیں۔ پھر
یہی معمولی اختلافات بڑھ کر غیر معمولی ہوجاتے ہیں۔ یہ سب اسی تصرف کا کرشمہ ہے جو
خلیوں کا رنگ بدلنے سے ہوتاہے ۔ کبھی کبھی ان خلیوں کا رنگ انتا تبدیل ہوجاتاہے کہ
نگاہ انہیں بالکل سرخ ، سبز، زرد وغیرہ رنگوں میں دیکھنے لگتی ہے۔ اس لئے کہ باہر
سے جو روشنیاں جاتی ہیں۔ ان میں اسپیس(SPACE)نہیں ہوتا بلکہ خلیوں کے تصرف سے اسپیس بنتاہے ۔ خلیوں کاتصرف جب اسپیس
بناتاہے توآنکھوں کے ذریعہ باہر سے جانے والی کرنوں کو الٹ پلٹ کر دیتاہے نتیجہ
میں رنگوں کی تبدیلیاں یہاں تک واقع ہوتی ہیں کہ وہ ساٹھ سے زیادہ تک گنے جاسکتے
ہیں۔
مثلاً سرخ رنگ کو لیجئے خلئے ان پر اتنا
تصرف کرتے ہیں کہ ذرات مل کر آنکھ کے پردوں پر اپنی تیزی پھینکتے ہیں۔ یہ تیزی ایک
دوسرے میں غلط ملط ہونے کے بعد سرخ رنگ نظرآنے لگتی ہے۔ اسی طرح خلیوں کا اورتصرف
ہوتا ہے، مثلاً رنگ تبدیل ہوکر سبز ہوجاتے ہیں۔ زرد ہوجاتے ہیں، نارنجی ہوجاتے ہیں
وغیرہ وغیرہ ۔ اور کتنے ہی رنگ بدل جاتے ہیں۔ ان رنگوں میں عجیب عجیب تاثرات ہیں۔
یہی رنگ مل کر حواس بناتے ہیں ۔
مثلاً سننے کے حواس بہت سارے خلیوں کے عمل
سے ترتیب پاتے ہیں۔
ہمارے ارد گرد بہت سی آوازیں پھیلی ہوئی
ہیں۔ ان کے قطر بہت چھوٹے اوربہت بڑے ہوتے ہیں جن کو انگریزی میں ویولینتھ (Wave Length)کہتے ہیں۔
سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ چار
سوقطرسے نیچے کی آوازیں آدمی نہیں سن سکتا۔ ایک ہزارچھ سو قطر سے زیادہ اونچی
آوازیں بھی آدمی نہیں سن سکتا۔ چارسو ویولینتھ (Wave
Length)سے نیچے کی آوازیں برقی روکے ذریعہ سنی جا
سکتی ہیں اور ایک ہزار چھ سو ویو لینتھ کی آوازیں بھی بجز برقی رو کے سننا ممکن
نہیں۔ یہ ایک قسم کی حس کا عمل ہے جو دماغی خلئے بناتے ہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے
کہ یہ سب آسمانی رنگ کے تاثر سے ہوتاہے۔ یہ رنگ خلیوں میں خلیوں کی بساط کے مطابق
عمل کرتاہے ۔ تبانا یہ مقصود ہے کہ آسمانی رنگ جوفی الواقع ایک برقی روہے دماغی
خلیوں میں آنے کے بعد اسپیس بن جاتاہے۔ یہ اسپیس بے شمار رنگوں میں تقسیم ہوجاتی
ہے اور یہ ہی رنگ آنکھ کے پردہ پر مختلف شکلوں میں نظر آتے ہیں۔
آنکھ کے پردوں پر جو عمل ہوتاہے وہ خلئے
کے اندر بہنے والی رو سے بنتاہے۔ آنکھ کی جس جس قدرتیزہوتی ہے۔ اتنا ہی رو میں
امتیاز کر سکتی ہے لیکن پھر بھی خلیوں کی روکا آپس کا تعلق برقرار رہتاہے۔ اس تعلق
کی وجہ سے نگاہ کے پردے متاثر ہوتے ہیں اور ان میں ساٹھ سے زیادہ رنگ تک امتیاز
ہوجاتاہے ۔ اس کے بعد برقی روسے امداد لینا پڑتی ہے بالکل اس طرح جس طرح کان کی
ویو لینتھ کو چار سو سے کم یا سولہ سوبڑھاکر کی جاتی ہے۔
ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ کوئی
شخص ساٹھ رنگ سے زیادہ قبول نہ کرے یا اس سے کم پر اکتفا کرلے۔ لیکن یہ بات یہاں
بتانا اس لئے ضروری ہے کہ دماغ خلیوں سے اور ان کی برقی رو سے تمام اعصاب کا تعلق
ہے۔ تمام اعصاب پر اس کا اثرپڑتاہے جیسا کہ ہم نے تذکرہ کیا ہے کہ کان کی ویولینتھ
، برقی رو کے ذریعہ چارسو سے کم یا سولہ سے زیادہ کی جا سکتی ہے۔ اس کے معنی یہ
بھی نکلتے ہیں کہ ہم مستقل برقی رو میں گھرے ہوئے ہیں۔ یہ برقی روکتنے قسم کی ہے
کتنی تعداد پر مشتمل ہیں ۔ اس کا شمار کیاہے، آدمی کسی ذریعہ سے گن نہیں سکتا۔
البتہ یہ برقی رودماغی خلیوں کے تصرف سے باہر آتی ہے تو طرح طرح کے رنگوں کا جال
آنکھوں کے سامنے لاتی ہے۔ علاوہ آنکھوں کے ، چکھنے کی حس، سونگھنے کی حس، سوچنے کی
حس، بولنے کی حس، اورچھونے کی حس وغیرہ اسی سے بنتی ہے۔
وغیرہ سے مراد یہ نہیں ہے کہ حسّیں تعداد میں اتنی ہی ہیں بلکہ یقیناًاور بہت سی حسّیں ہیں جو انسان کے علم میں نہیں ہیں۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
زمین پرموجودہرشےمیں کوئی نہ کوئی رنگ نمایاں ہے،کوئی شےبےرنگ نہیں ہے۔ کیمیائی سائنس بتاتی ہےکہ کسی عنصرکوشکست وریخت سےدوچارکیاجائےتومخصوص قسم کےرنگ سامنےآتےہیں ۔ رنگوں کی یہ مخصوص ترتیب کسی عنصرکی ایک بنیادی خصوصیت ہے۔ چنانچہ ہرعنصرمیں رنگوں کی ترتیب جداجداہے۔ یہی قانون انسانی زندگی میں بھی نافذہے۔ انسان کےاندربھی رنگوں اورلہروں کامکمل نظام کام کرتاہے ۔ رنگوں اورلہروں کاخاص توازن کےساتھ عمل کرناکسی انسان کی صحت کاضامن ہے ۔ اگرجسم میں رنگوں اورروشنیوں میں معمول سےہٹ کرتبدیلی واقع ہوتی ہےتوطبیعت اسکوبرداشت نہیں کرپاتی ہےاوراسکامظاہرہ کسی نہ کسی طبعی یاذہنی تبدیلی کی صورت میں ہوتاہے ۔
ہم اسکوکسی نہ کسی بیماری کانام دیتےہیں مثلاًبلڈپریشر،کینسر،فسادخون،خون کی کمی،سانس کےامراض،دق وسل،گٹھیا،ہڈیوں کےامراض،اعصابی تکالیف اوردیگرغیرمعمولی احساسات وجذبات وغیرہ۔
اس کتاب میں آدمی کےدوپیروں پرچلنےکاوصف بیان کیاگیاہےاوراس بات کی تشریح کی گئی ہےکہ ا نسان اورحیوان میں روشنی کی تقسیم کاعمل کن بنیادوں پرقائم ہےاورتقسیم کےاس عمل سےہی انسان اورحیوان کی زندگی الگ الگ ہوتی ہے ۔ روشنی ایک قسم کی نہیں ہوتی بلکہ انسانی زندگی میں دورکرنےوالی روشنیوں کی بےشمارقسمیں ہیں ۔ یہ روشنیاں انسان کوکہاں سےملتی ہیں اورانسانی دماغ پرنزول کرکےکسطرح ٹوٹتی اوربکھرتی ہیں۔ ٹوٹنےاوربکھرنےکےبعد دماغ کےکئی ارب خلئےان سےکسطرح متاثرہوکرحواس تخلیق کرتےہیں۔ مختلف رنگوں کےذریعےبیماریوں کےعلاج کےعلاوہ عظیمی صاحب نےاس کتاب میں انسانی زندگی پرپتھروں کےاثرات کےحوالےسےبھی معلومات فراہم کی ہیں۔