Topics

پر اسرار گارڈ

 عثمان عرضِ مدعا نہ کر سکا اور اٹھ کر چلنے ہی والا تھا کہ باباؒ کی آواز آئی۔ "اونالائق! توکائے کو ڈرتاہے؟ ڈنڈا رکھ کے سونا۔ وہ آئیں گے، مار دینا۔" عثمان ان کی طرف متوجہ ہو اتو ہنس کے بولے۔"تیری سمجھ میں بھی آجائے گا، معراج جسمانی ہوئی کہ روحانی۔"

پھر دوسرے لوگوں کی جانب متوجہ ہوگئے اور مخصوص انداز میں بولنے لگے۔ اسی لمحے عثمان کو بنکٹ راؤ گارڈ کونے میں بیٹھا نظر آیا۔ وہ ٹکٹکی باندھے باباکو دیکھے جا رہا تھا۔ اس وقت چھ بجے تھے اور بنکٹ راؤ کو سواچھ بجے والی گاڑی لے کر بمبئی جانا تھا۔لیکن ابھی تک اس نے وردی بھی نہیں پہنی تھی۔ اور اتنے کم وقت میں وہ اسٹیشن مشکل ہی سے پہنچ سکتاتھا۔ بابا نے بنکٹ راؤ کو "سلیمان" کہہ کر مخاطب کیا اور آہستہ سے کچھ کہا۔ اس پروہ مسکرا دیا لیکن اسی جگہ بیٹھا رہا۔

یہ چاروں باباتاج الدین ؒ کی روشن ضمیر سے بے حد متاثر ہوکر اٹھے۔ عثمان کو تو جیسے چپ ہی لگ گئی تھی۔ ڈنڈارکھ کے سونا، وہ آئیں گے، ماردینا۔" بابا کے الفاظ اس کے ذہن میں گونج رہے تھے اور وہ ان کے مفہوم سے بے خبر تھا۔ پھر سوچنے لگا، ڈنڈے سے کیا بنے گا۔

راستے میں عثمان نے تفصیل سے آسیبی بنگلے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے دوستوں کو بابا صاحبؒ کی ہدایت بتائی کہ ڈنڈا رکھ کر سونا۔ وہ سب حیران رہ گئے اور معمہ حل نہ کر سکے۔ پروگرام بناکر پہلے اسٹیشن پر چائے پی جائے اورپھر بھوت بنگلہ کی سیر کی جائے۔

عثمان نے کہا۔"میں بنکٹ راؤ کے بارے میں سوچ رہاہوں۔ اسے سوا چھ بجے پسنجر لے کر اٹاری جاتاہے لیکن وہ تو باباکے پاس بیٹھا ہے اور واپس آتا نظر بھی نہیں آیا۔ سواچھ بجنے میں ایک منٹ باقی ہے۔"

فضل الکریم نے بے ساختہ پوچھا۔" یہ وہی گارڈ تو نہیں جو دوہری شخصیت کی وجہ سے مشہور ہے۔ بیک وقت بابا کے پاس رہتاہے اورڈیوٹی پر بھی۔ سنا ہے بابا صاحب  کا خاص معتقد اورفنا نی الشیخ ہے۔"

وہ سیدھے اسٹیشن پہنچے اورپلیٹ فارم پر قدم رکھا ہی تھا کہ اٹاری پسنجر سیٹی دے کر روانہ ہوئی۔ گارڈ کا ڈبہ سامنے سے گزرا اوروہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بنکٹ راؤ وردی میں ملبوس سبز جھنڈی ہلارہا ہے۔ پھر اس نے انہیں سیر کی جنبش سے سلام کیا۔ اوردور تک مسکرا تارہا۔بنکٹ راؤ کا اتنے کم وقت میں اسٹیشن پہنچ جانا ان کے لئے معمہ بن گیا۔ پھر ایک ساتھی نے تجویز پیش کی۔ ہمیں باباجی کے پاس جاکر تمام واقعے کی تحقیق کرنی چاہئے۔ وہ لوگ دوبارہ شکر دراپہنچے۔ فضل الکریم اورعباسی سڑک ہی پر رک گئے کہ باباجی کے سامنے جاتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔ عبدالغفار اورعثمان نے ہمت کی حجرے میں میلا د شریف کا غلغلہ بلند تھا۔ انہوں نے جھانک کر دیکھا۔ سلام پڑھا جا رہاتھا۔ باباجی حالتِ وجد میں جھوم رہے تھے۔ اوربنکٹ راؤ ان کے قریب مؤدب کھڑاتھا۔ باباجی آنکھیں بندتھیں اور ان سے اشک رواں تھے۔

Topics


سوانح حیات بابا تاجُ الدین ناگپوریؒ

خواجہ شمس الدین عظیمی

عارف باﷲخاتون

مریم اماں

کے نام

جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم حضرت بابا تاج الدین ؒ

کا ارشاد ہے:

"میرے پاس آنے سے پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"