Topics
نواب صدیق
علی خاں صاحب تحریکِ پاکستان کے ایک بہت فعال اور سرگرم رکن رہے ہیں۔ انہوں نے تحریکِ
پاکستان کے مختلف پہلوؤں اوراس کے واقعات پر ایک قابلِ قدر کتاب "بے تیغ سپاہی"
قلم بندکی جس میں انہوں نے حضرت تاج الاولیاء باباتاج الدینؒ کا ذکر بھی کیاہے۔ وہ
لکھتے ہیں:
جب میں والد مرحوم کی انگلی پکڑکر باباکے دربار
میں گاہے گاہے جایا کرتاتھا باباصاحبؒ بالعموم لمباکرتا پہنتے اوربرہنہ سراور برہنہ
پارہتے تھے۔ وہ اپنا زیادہ وقت پاپیادہ چلتے میں گزارا کرتے تھے۔ ایک دن اپنے سلیم
شاہی جوتے پہنے ہوئے جس کی ایڑی کے حصے کو میں نے شرارت میں سپاٹ بنادیاتھا۔ باباصاحبؒ
کے پیچھے پیچھے والد کے ساتھ جارہاتھا کہ باباصاحبؒ ایک دم رک گئے اورمجھ سے فرمایا۔"لاؤجی
ہم تہاری جوتی پہنیں گے۔" میں گھبرا گیا اور ٹھٹک کر کھڑا ہوگیا۔ والدصاحب نے
فوراً حکم کی تعمیل کرنے کو کہا۔ باباصاحبؒ نے اپنے پیروں کی چند انگلیاں ڈال کر میری
جوتیاں پہن لیں اور تھوڑی دیر تک اِدھراُدھر پھرتے رہے۔ یقینایہ میری بڑی سرفرازی تھی۔
ایک عرصہ کے بعد اس کے بڑے دوررس نتائج برآمد ہوئے اورجولائی ۱۹۶۱ ء میں افریقہ کی سفارتی صحر انوردی کے بعدختم
ہوئے۔
ان کو روزانہ کا معمول تھا کہ وہ اپنا کچھ
وقت تانگہ میں بیٹھ کرناگپور کے گلی کوچوں میں پھر کر گزاراکرتے تھے۔ وہ اکثرہمارے
آبائی گھر کے سامنے سے جو میرے بزرگوں کے بسائے ہوئے نواب محلہ میں واقع تھا سواری
میں گزارکرتے اوراسے رشکِ ارم بنائے۔ جذبۂ عشق خداوندی سے وہ اکثر اوقات بے تاب ہوکر
بلند وپست آواز میں سلسلۂ تکلم جاری رکھتے جو بعض اوقات مجھ ایسے کوڑھ مغزوں کے لئے
بے معنیٰ لیکن عارفین حق کے لئے معرفت کا ایک بحرِذخّار ہوتا۔ ان کا جلال کبھی اتنا
بڑھ جاتا کہ ستانے والوں کو زدوکوب سے بھی باز نہ آتے۔ اورحصوصاً ان کی بہت پٹائی کرتے
جو ان کے سامنے منہ کے بل اوندھے پڑجاتے یا پیر پکڑکر منتیں مرادیں مانگتے۔ میں اس
دن کا واقعہ سنانا چاہتاہوں جس دن میری بڑی بہن جو صرف خاندان ہی میں نہیں بلکہ اس
سے باہر بھی بہت محبت وعزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔ ہم سب کوروتا چھوڑ کر اس دنیاسے
منہ موڑنے والی تھیں۔دوپہر سے قبل ہم سب نے بابا کی سواری کو اپنے غم کدہ کے سامنے
سے گزرتے ہوئے دیکھا اور سب اہلِ خاندان میری بہن کی گرتی ہوئی حالت دیکھ کر طالبِ
دعا ہوئے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ان کی حالت تیزی سے بگڑنے لگی اور سب کو یقین
ہوگیا کہ بس اب دمِ واپسیں ہے۔ عزیزوں نے خاموش آہ و زاری شروع کر دی۔ عصر ومغرب کے
درمیان اطلاع ملی کہ حضور کی سواری پھرآرہی ہے۔ میں چشمِ پرنم کے ساتھ بے تحاشہ بھاگتاہواسڑک
پر پہنچا۔ حضور نے سواری رکوائی ۔ کچھ بے ربط جملے فرمائے جو میں اس وقت سمجھ نہ سکا۔
غالباً رحلت کی اطلاع اوردلاسا دینا مقصود تھا۔
تیسرے واقعے کا تعلق میرے ہم عمر عزیز دوست
سید عظیم الدین عرف میر صاحب سے ہے جو میرے بھائیوں جیسے تھے۔ میرے والد نے میر صاحب
کی والدہ کو بہن بنایاتھا۔ اس مناسبت سے میں انہیں پھوپھی اور سید احمد حسین صاحب پٹیل
کو پھوپھا کہتا تھا انہوں نے باباصاحبؒ سے بے پناہ عقیدت کی بنا پر ان کے دربارِ عرفان
میں دنیا چھوڑکر مستقل سکونت اختیار کر لی تھی۔ میر صاحب کو شکار کا اتنا شوق تھا کہ
وہ ناگپور کے اکناف یا اپنے مال گزاری گاؤں کے اطراف تمام وقت ہرن کا شکار کھیلا کر
تے تھے۔ المختصر وہ دماغی توازن کھو بیٹھے اورمارنے پیٹنے پر اتر آئے۔ لوگ اور محلے
والے ان سے ہراساں اورخوف زدہ رہنے لگے۔ ان کے والد نے دلی وابستگی کی وجہ سے میر صاحب
کے ہاتھ پاؤں لوہے کی زنجیر میں باندھ کر ان کو تاج الاولیاءؒ کے دربار میں پہنچا دیا۔
میر صاحب تنو مند، گورے چٹے، خوبصورت، دراز قد نوجوان تھے۔ دست درازی اوروشنام طرازی
اس زمانے میں ان کا شغلِ حیات بن گیا تھا۔ میں ان کی حالتِ زار دیکھنے اور چار آنسو
بہانے روزانہ جاتاتھا۔ ایک دن میرے والد محترم نے جنہیں علمِ طب سے شفقت تھا فرمایا
اگر میر صاحب کی فصد کھلوائی جائے تو وہ اچھے ہوجائیں گے۔ جب میں نے یہ پیغام پٹیل
صاحب کو ان کی فرودگاہ پر پہنچایا تو وہ بالکل چراغ پاہوگئے اور فرمایا کہ باباصاحب
کے دربار ان کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کیا جائے گا۔ میں آزردہ خاطر اپنا سامنہ لے کر
گھر لوٹا اوروالد کو کل احوال سنایا ۔ وہ خاموش ہوگئے۔ لیکن میں نے دوسرے دن تک اپنا
تمام وقت یہ سوچنے میں کاٹا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ حسبِ معمول عازمِ شکردرہ ہوا۔ دل
نے کہا بابا صاحبِ کشف ہیں۔ ان سے دل ہی دل میں کہہ ڈالو کہ میر صاحب کے والد کے دل
میں خدافصد کھلوانے کا خیال ڈال دے تاکہ میرا محبوب ترین دوست پھر سے تندرست ہوجائے۔
میں دربار میں پہنچا۔ وہاں روز جیسی چہل پہل تھی۔ عقیدت مند اور حاجت مندباباصاحب کو
دوتہائی گھیر میں لئے بیٹھے تھے۔ باباصاحب ہمیشہ کے مطابق جذب سے سرشار اونچی اونچی
آواز میں بولے چلے جارہے تھے۔ دائرہ کا جو ایک نہائی حصہ کھلا پڑاتھا۔ اس سمت میں بہت
دور میر صاحب زنجیروں کے بندھن میں چیختے چلّاتے ہاتھ پیر مارتے ہوئے پڑے تھے۔ ایسی
حالت میں بھی وہ مجھ سے قولاًیا فعلاً بری طرح پیش نہیں آئے۔ میں ان کے قریب جاکر بیٹھ
گیا اور باباصاحبؒ کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت کی۔ کیا دیکھتاہوں کہ اس جھرمٹ
میں پٹیل صاحب پھوپھا ہاتھ باندھے ہوئے بیٹھے ہیں۔ان کی غیر متوقع موجودگی نے میری
دل تمنا کو تازیانہ لگایا۔ اورمیرا دل تڑپ گیا۔ اپنی دلی خواہش کو زبان ہلائے بغیر
باباصاحبؒ تک پہنچا دیا۔ اورمیں انتہائی توجہ کے ساتھ اپنے خواب کے لئے ہمہ تن گوش
ہوگیا۔ باتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ اورمیں نے بے چینی سے جواب کا منتظر تھا کہ بہ آوازِ
بلند ایک جملہ فرمایا گیا تاکہ پھوپھا صاحب ، میں اور دیگر سامعین اچھی طرح سن لیں۔
ٹھیٹ مدراسی لب و لہجہ میں ارشاد فرمایا۔" پیشانی کی رگ کاٹ کر خون نکال دیوجی،
اچھے ہوجاتے۔" میں فرطِ مسرت سے اچھل پڑااور پھوپھا صاحب کی طرف جھپٹا۔ انہوں نے مجھے موقع دیئے بغیر کہا۔"جاؤ
بابا، تمہارا جو جی چاہے کرو۔"میں میر صاحب کو ٹانگہ میں دال کر گھر لے گیا۔ والد
صاحب بہت خوش ہوئے اور بھونسلہ راجاؤں کے خاندانی جراح سید احمد صاحب کو جونالے پار
رہاکرتے تھے۔ شام کو بلواکر میر صاحب کی فصد کھلوائی اورپھر میرصاحب اﷲکی مہربانی سے
دوبارہ بھلے چنگے ہوگئے۔
اسی زمانے کا ایک اورواقعہ سنا کر اپنی عقیدتمند
انہ شگفتگی کو تازہ اورزیادہ مستحکم کردوں۔ اس زمانے میں سی پی ویر آر کے ہائی اسکولوں
کا الحاق الٰہ آباد یونیورسٹی سے ہونے کی وجہ سے میٹرک کے امتحان کے پرچے الٰہ آباد
یونیورسٹی سے آیا کرتے تھے۔ حساب کے تین علیٰحدہ پرچے ہواکرتے تھے۔ میں میٹرک کے امتحان
میں شریک ہوا لیکن حساب میں بہت کمزور ہونے کی وجہ سے ناکام ہوگیا۔ والد صاحب کے دل
کو بہت ٹھیس لگی کیوں کہ انہوں نے میرے لئے بہت سے منصوبے تیار کھے تھے۔ میں بہت مایوس
و شرمسار تھا۔ بالآخر کلکتہ یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان دینے کی اجازت مل گئی۔ وہاں
سب سے بڑی آسانی یہ تھی کہ حساب کا صرف ایک پرچہ ہواکرتاتھا۔ امتحان میں شریک ہوااور
کلکتہ سے روزانہ ہوتے وقت چاردوستوں کو تاکید کرکے ناگپور لوٹاکہ نتیجہ جیسے ہی شائع
ہو مجھے فوراً مطلع کریں۔ آپ جانتے ہیں کہ امتحان کے نتیجے کا انتظار ایک طالبِ علم
کے لئے کس قدر جان لیواثابت ہوتاہے۔ چنانچہ میری بھی یہی اضطرابی کیفیت تھی ۔ اور کبھی
کبھی تو میرا اضطراب اس خیال سے ہوش اڑادیتاتھا کہ اگر اب کے ناکام ہوگیاتو والد صاحب
کو ناقابلِ بیان صدمہ ہوگا اورمیں نہیں اپنا منحوس چہرہ کیسے دکھاؤں گا۔ کلکتہ سے نتیجے
کی وصول یابی میں کافی تاخیر ہوجانے کی وجہ سے دل بہت پریشان تھا۔ میں اس دن شکردرہ
میر صاحب کی عیادت کو گیا تڑپتے دل سے دل ہی دل میں باباصاحبؒ سے عرضِ مدعا کر بیٹھا
یعنی آپ اﷲ سے دعا فرمائیں کہ میں کامیاب ہوجاؤں۔ اس دربار سے تو کوئی خالی ہاتھ نہیں
جاتاتھا۔ لہٰذا میں کیسے بے مرام ہوتا۔ فدائیوں نے حضورکو گھیر رکھا تھا۔ میں بہت دور
سوالی بنا ہوامیر صاحب کے پاس بیٹھا کسی کرامت کا انتظار کر رہا تھا۔ معلوم نہیں زور
زور سے کیا کیا بہت سے بے ربط جملے ارشاد کئے جا رہے تھے کہ کیا دیکھتا ہوں عیسیٰ خاں
صاحب جوان کی خدمت میں اکثر حاضر رہا کرتے اور باباصاحبؒ کی ڈاک رکھا کرتے تھے باباصاحبؒ
کے جو کھردری زمین پر لیٹے ہوئے تھے۔ پیردبارہے تھے، باباصاحبؒ اچانک اٹھ بیٹھے۔ عیسیٰ
صاحب کے کرتے کی بالائی جیب میں ہاتھ ڈال کر چارپوسٹ کارڈ ہوامیں پھینکتے ہوئے بآواز
بلند فرمایا۔"جاؤ جی، نتیجہ آگیا، پہلے درجے میں پاس کر گئے۔ "میں خوشی خوشی
بائیسکل لے کر گھر کے لئے روانہ ہوا۔ مکان کے باہر شہ نشیں کے فریب پہنچ کر سائیکل
سے اترا ہی تھا کہ دور سے کسی نے زور سے پکار کر کہا۔ "میاں!میاں! ذرارک جائیے
اور اپنی ڈاک لیتے جائیے۔"دھڑکتے ہوئے دل سے مڑکر دیکھا۔ ڈاکیہ نے چار پوسٹ کارڈ
دیئے۔ مضمون من وعن وہی تھا جس کا انکشاف پہلے ہی تاج الاولیاء کر چکے تھے۔
نواب صدیق علی خاں مزید لکھتے ہیں۔"ایک
دن میرے والد صاحب حضرت باباصاحبؒ کے لئے نہایت اہتمام سے انڈے کی مٹھائی جسے پیوسی
کہا جاتاتھا، بنواکر لے گئے ۔ باباصاحبؒ پاگل خانے کے باہر سڑک کے کنارے گٹی کے ڈھیر
پر بیٹھے ہوئے تھے۔ چند حاجت مندلوگ منت اورمرادوں کے کشکول لئے ہوئے دربار میں موجود
تھے۔ والد نے مٹھائی پیش کی جسے حضور بہت شوق اور رغبت سے کھانے لگے۔ والد صاحب کے
دل میں مغایہ خیال آی کہ حضور کو ایسی مٹھائی کہان سے ملتی ہوگی۔حضور نے فوراً ہاتھ
روک لیا اور پتھر اٹھا کر اس طرح آسانی سے کھانے لگے جیسے بڑالذیذ حلوہ کھا رہے ہوں۔
جب والد نے ندامت کے آنسو بہائے اوردل سے توبہ کی تو حضور نے پتھروں کا کھانا بندکر
دیا۔"
سوانح حیات بابا تاجُ الدین ناگپوریؒ
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"