Topics
۱۸۹۲ ء میں پیدا ہوئے۔ دو سال کی عمر میں والد صاحب کا
انتقال ہو گیاتو پھوپھی نے گود لیکر پالا۔ پھوپھی کا خاندان ناندوراضلع بلڈانا (برار)
میں آباد تھا۔ مڈل تک پڑھنے کے بعد آگے کی تعلیم کھام گاؤں میں حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ
ہوکر جی آئی پی ریلوے میں ملازمت کی درخواست دی۔ ٹکٹ کلکٹر کی ملازمت مل گئی۔ اور جلد
ہی ترقی کرکے بحیثیت گارڈ بھساول جنکشن پر تعینات کئے گئے۔
قاضی صاحب اپنے ایک ساتھی سید محمد سبحان الدین
کے ساتھ باباصاحبؒ کی خدمت میں پہنچے۔ باباصاحبؒ نے آپ کو گیارہ روز تک اپنے پاس رکنے
کا حکم دیا۔ گیارہویں دن صبح باباصاحبؒ نے کہا۔"ریل پر جانے والوں کو بلاؤ۔"
بآوازِ بلند یہ بات پکاری گئی۔ تو صرف قاضی امجد علی ریلوے سے متعلق نکلے۔ قاضی امجد
علی باباصاحبؒ کے پاس پہنچے تو انہوں نے قاضی صاحب کے سرو پشت پر دستِ شفقت پھیر کر
کہا۔"حضرت جاکوآؤ۔" حسبِ حکم ناگپور سے بھساول پہنچے۔ اگلے دن صبح ڈیوٹی
پر حاضرہونا تھا۔ لیکن رات کو باباصاحبؒ نے بذریعۂ کشف حکم دیا"واپس آتے جی حضرت۔"آپ
پہلی ٹرین سے روانہ ہوئے ۔ باباصاحبؒ اسٹیشن پر ٹہل رہے تھے۔ باباصاحبؒ نے سرپر ہاتھ
پھیر کر دعا دی۔ اور واپس جانے کا حکم دیا۔ باباصاحبؒ کے پاس قاضی صاحب کی ملازمت کا
عجیب حال ہوگیا۔ باباصاحبؒ حکم دیتے کہ "یہیں رہتے جی۔" تو آپ ملازمت سے
بے نیاز ہوکر باباصاحبؒ کے پاس رہنے لگتے۔ اور جب واپسی کا حکم ملتا، دوبارہ ملازمت
کی درخواست دیتے اور اسی عہدہ پر بحال کر دیئے جاتے۔ ایک مرتبہ رات میں باباصاحبؒ کی
طرف سے حکم ہوا۔"حضرت یہاں آتے جی۔" اگلی صبح ناگپور تبادلہ کا تار ملا۔
ناگپور پہنچے تو باباصاحبؒ نے فرمایا۔"آؤجی !حضرت، یہیں آم کے درخت کے نیچے رہتے۔
بھٹیاراپکاتااپن کھاتے۔"قاضی صاحب آم کے درخت کے نیچے ٹھہر گئے۔ اور باباصاحبؒ
انہیں نظرِ فیض سے نوازتے رہے۔
قاضی صاحب کی عمر ۲۸؍سال کی ہوئی تو باباصاحبؒ نے پھول کا ہار، ایک کتاب
اور ایک روپیہ عنایت کرکے کہا۔"حضرت سنت کی پیروی کرتے جی۔جا کوآؤ۔" قاضی
صاحب پھوپھی کے پاس ناندورا پہنچے تو وہ ان کی شادی کے لئے منتظر بیٹھی تھیں۔ قاضی
صاحب رشتۂازدواج میں منسلک ہوگئے۔
شادی کے دوسال بعد باباصاحبؒ نے قاضی صاحب
سے کہا ۔"بہت کھانے لگا رے۔ آج سے تیرا کھانا بند۔ تین کپ کالی چائے پیتے، اچھے
رہتے۔"نوّے دن کے بعدباباصاحبؒ نے فرمایا۔"اب تو صحیح ہوگیارے۔ کھاتے پیتے
اچھے رہتے۔ " باباصاحبؒ کے وصال کے بعد قاضی صاحب پر جذبی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔
ایک روز باباصاحبؒ نے حکم دیا۔"حضرت دنیا میں رہ کر دنیا کے کام کرتے۔اچھے رہتے
۔"چنانچہ ناگپور سے ناندورا گئے۔ ہومیوپیتھی کا کورس کر کے ڈاکٹر سند حاصل کی
اور علاج معالجہ کے ذریعے خدمتِ خلق کی طرف رجوع ہوئے۔
باباصاحبؒ کے حکم پر بمبئی گئے۔اور وہاں بھی
خدمت کا سلسلہ جاری رکھا۔ جب پاکستا ن کا قیام وجود میں آیا تو قاضی صاحب کراچی آگئے۔
اور باباصاحبؒ کی تعلیمات کو پھیلانے اور نذرونیاز کا اہتمام جاری رکھا۔
وصال سے پہلے قاضی صاحب نے کھانا بند کر دیااور نوے
دن تک کچھ نہیں کھایا بالآخر ۱۵؍ربیع الثانی ۱۳۷۸ ھ مطابق ۲۸؍اکتوبر ۱۹۵۸ ء قاضی صاحب نے پردہ فرمالیا۔سی۔ ون ایریا۔لیاقت آبادکے قبرستان میں آپ کا
مزار ہے۔
سوانح حیات بابا تاجُ الدین ناگپوریؒ
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"