Topics
ہر زمانہ
میں یہ طریقہ رہا ہے کہ طالبِ حق کسی عارف بزرگ سے بیعت ہوتاہے تو وہ بزرگ کسی نہ کسی
راستے سے قدم قدم چلاکر اسے عرفانِ خداوندی کی منزل تک پہنچا دیتاہے۔ یہ اصول وقوانین
اورروحانی راستے کسی سلسلے کا تعین کرتے ہیں۔ گروہ اولیاء اﷲمیں سے منتخب اوراکابر
حضرات نے ہر زمانے میں طالبانِ حق کی عمومی حالت کو پیشِ نظر رکھ کر اسباق و اذاکر
مرتب کئے ہیں۔ ہرزمانے میں نوعِ انسانی کی شعوری ، علمی اور جسمانی صلاحیتوں میں فرق
رہاہے۔ زمانے کے ساتھ ساتھ حالات اور ضروریا ت میں تبدیلی ہوتی گئی۔ چنانچہ یہ لازمی
ہو گیا کہ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ اسباق اور اذکارمیں مناسب تبدیلی کی جائے تاکہ طالبانِ
حق کو ان پر عمل پیرا ہونے میں مشکل پیش نہ آئے۔
علوم وفنون کی معجزہ صفت ترقیوں نے نوعِ انسان
کی شعوری صلاحیتوں کو بہت بڑھا دیاہے۔ انسان کی فکری سطح بھی بلند ہوگئی ہے۔ وہ کیوں
اور کیسے کاجواب سننا چاہتاہے۔ اس ذہنی ارتقاکے ساتھ یہ بات ضروری ہوگئی ہے کہ تصوف
کی تعلیمات اورروحانیت کے علم کو جدید نہج پر پیش کیا جائے۔ وہ علوم جنہیں کبھی وقت
کی ضرورت کے تحت" علمِ سینہ" کہہ کر مخصوص حضرات کو منتقل کیا جاتاتھا۔ اب
نوعِ انسان کا اجتماعی ذہن اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ وہ ان علوم کو سن اورسمجھ سکے۔
آج کے سائنسی دور میں کوئی بات اس وقت قابلِ قبول ہوتی ہے جب اسے فطرت کے مطابق اورسائنسی
توجیہات کے ساتھ پیش کیا جائے۔ اسی بات کی پیشِ نظر رکھتے ہوئے ابدالِ حق قلندر بابااولیاءؒ
نے سلسلۂ عظیمیہ کا مشن یہی ہے کہ لوگوں کے اوپر تفکر کے دروازے کھول دیئے جائیں ۔
حالاتِ حاضرہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سلسلۂ عظیمیہ نے اسباق اوراذکار میں تبدیلی کرکے
اسے بہت مختصر اورآسان کردیاہے۔
بابا تاج الدینؒ اولیاء کے فیضِ روحانی اورعلم
معرفت کو سلسلۂ عظیمیہ نے سائنسی بنیادوں پر نئے رنگ اورنئی شان سے متعارف کرایا ہے۔
آنے والی نسل کے لئے روحانی سانس ایک باقاعدہ تحریک بن گئی ہے باباتاج الدینؒ ناگپوری
سے فیض یافتہ انکے نواسے قلندر باباکا مشن ہندوپاکستان سے نکل کر ایشیا اور یورپ کے
ملکوں میں تیزی کے ساتھ مقبول ہورہاہے۔
سوانح حیات بابا تاجُ الدین ناگپوریؒ
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"