Topics
ایک صاحب
نے باباصاحب سے درخواست کی کہ بابا میں اجمیر جاناچاہتاہوں ۔ باباصاحب نے فرمایا کہ
اجمیر یہیں ہے کہاں جاتاہے۔ یہ کہہ کر باباصاحب نے ان صاحب کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ
دیا۔ وہ صاحب اپنے ماحول سے بے خبر ہو گئے۔ اور دیکھا کہ اجمیر شریف کی سیر کر رہے
ہیں۔ کچھ دیر بعد باباصاحب نے ان کے ہاتھ پر سے اپنا ہاتھ ہٹایا تو انہوں نے خود کو
باباصاحب کی خدمت میں موجود پایا۔
اس کرامت کی توجیح قلندرباباؒ کے ان ارشادات
سے ہوتی ہے۔ انسان کی ذات کا ایک حصہ داخلی ہے اور دوسرا خارجی۔ داخلی حصہ اصل ہے اورخارجی
حصہ اس ہی اصل کا سایہ ہے۔ داخلی حصہ میں زمان اور مکان نہیں ہوتے۔ لیکن خارجی حصہ
میں زمان اور مکان دونوں ہوتے ہیں۔ داخلی حصہ میں ہر چیز جزولايتجزا کی حیثیت رکھتی
ہے ۔ کسی مکانیت کا احاطہ نہیں کر تی۔ صرف مشاہدہ ہوتی ہے۔ مکانیت نہ ہونے کی وجہ سے
اس کے اندر زمانیت بھی نہیں ہوتی۔
مثال کے طور پر ہم کسی امارت کی ایک سمت میں
کھڑے ہوکر اس امارت کے ایک زاویہ کو دیکھتے ہیں۔ جب اس امارت کے دوسرے زاویہ کو دیکھنا
ہوتاہے تو کچھ قدم چل کے اور کچھ فاصلہ طے کرکے ایسی جگہ کھڑے ہوتے ہیں جہاں سے امارت
کے دوسرے رخ پر نظر پڑتی ہے۔ نگاہ کا زاویہ تبدیل کرنے میں چند قدم کا فاصلہ طے کر
نا پڑا اور فاصلہ طے کرنے میں تھوڑا سا وقفہ بھی صرف ہوا۔ اس طرح ایک نظر کا زاویہ
بنانے کے لئے مکانیت اورزمانیت دونوں وقوع میں آئی۔ ذرا وضاحت سے اس بات کو یوں بیان
کر سکتے ہیں کہ جب ایک شخص لندن ٹاور کو دیکھنا چاہے تو کراچی سے سفر کر کے اس کو لندن
پہنچنا پڑے گا ۔ ایسا کرنے میں اس کو ہزاروں میل کی مکانیت اور کئی دنوں کا زمانہ لگاناپڑا۔
اب نگاہ کا وہ زاویہ بنا جس سے لندن ٹاور دیکھا جا سکتاہے۔ مقصد صرف نگاہ کا وہ زاویہ
بنانا تھا جو لندن ٹاور کو دکھا سکے۔ یہ انسان کی ذات کے خارجی حصہ کا زاویۂ نگاہ ہے۔
اس زاویہ میں مکانیت اور زمانیت استعمال ہونے
سے کثرت پیداہو گئی۔ اگر ذات کے داخلی زاویۂ نگاہ سے کام لینا ہوتو ہم اپنی جگہ بیٹھے
بیٹھے ذہن میں لندن ٹاور کا تصور کر سکتے ہیں۔ تصور کر نے کے لئے جو نگاہ استعمال ہوتی
ہے وہ اپنی توانائی کی وجہ سے ایک دھندلہ سا خاکہ دکھاتی ہے لیکن زاویہ ضرور بنادیتی
ہے جو ایک طویل سفر کرکے لندن ٹاور تک پہنچنے کے بعد ٹاور کو دیکھنے میں بنتاہے۔ اگر
کسی جگہ نگاہ کی ناتوانی دور ہوجائے تو زاویۂنگاہ کا دھندلہ خاکہ روشن اور واضح نظارے
کی حیثیت اختیار کر سکتاہے۔ اور دیکھنے کا مقصد بالکل اسی طرح پورا ہو جائے گا جو سفر
کی جدو جہد اور سفرکے بہت سے وسائل استعمال کرنے کے بعد پورا ہوتاہے۔
باباتاج الدینؒ اولیاء نے تصرف کے ذریعے سائل
کی نظرمیں وہ زاویہ پیدا کر دیاجو اجمیر شریف کے نظارے کے لئے درکار تھا۔ اور اس نے
اجمیر شریف کی سیر بالکل اسی طرح کر لی جیسے وہ وہاں موجود ہو۔
سوانح حیات بابا تاجُ الدین ناگپوریؒ
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"