Topics

کائنات کا سفر

کائنات تین دائروں میں سفر کر رہی ہے۔

پہلا دائرہ روح ہے۔

دوسرا دائرہ روح کا بنا ہوا لباس (نسمہ) ہے۔

تیسرا دائرہ نسمہ کا بنایا ہوا لباس مادی وجود ہے۔

تینوں دائرے بیک وقت حرکت کرتے ہیں۔ روح کے بنائے ہوئے لباس کے بھی دو رخ ہیں۔ ایک مفرد لہروں سے اور دوسرا مرکب لہروں سے بنا ہوا ہے۔ مفرد اور مرکب دونوں رخ الگ الگ ہیں اور ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔

شعور لاشعور:

بیداری کی زندگی شعور ہے، خواب کی زندگی لاشعور ہے، شعوری زندگی میں ذہن اور حافظہ دونوں کام کرتے ہیں، اس ہی طرح لاشعوری زندگی میں ذہن اور حافظہ دونوں کام کرتے ہیں۔ زندگی کے تقاضے شعوری ہوں یا لاشعوری اطلاعات کے تابع ہیں۔ شعور ہر ہر قدم پر محدود اور محتاج ہے، لاشعوری زندگی، شعوری زندگی کے مقابلے میں آزاد ہے۔

زبور، توریت، انجیل اور آخری آسمانی کتاب قرآن حکیم شعور اور لاشعور کے الٹ پلٹ کو لیل و نہار کہتی ہے۔

شعور کا پہلا دن:

پیدائش کے بعد پہلے روز بچے پر لاشعور کا غلبہ ہوتا ہے۔ شعوری ورق کے صفحے پر کوئی تحریر نظر نہیں آتی جیسے جیسے بچہ ماحول میں وقت گزارتا ہے اسی مناسبت سے شعور کے کورے صفحے پر والدین، خاندان اور ماحول کے نقوش مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ بارہ سال کی عمر میں وہ صفحہ جسے ہم شعور کہہ رہے ہیں اتنا زیادہ روشن ہو جاتا ہے کہ لاشعوری صفحہ دھندلا پڑ جاتا ہے لیکن نقوش ختم نہیں ہوتے،

اگر شعور کا صفحہ اتنا زیادہ روشن ہو جائے کہ لاشعوری صفحہ کی تحریر نہ پڑھی جا سکے تو مفروضہ حواس کا غلبہ ہو جاتا ہے اور لاشعوری صفحہ کی تحریر سے اس کی نظر ہٹ جاتی ہے اور بالغ ہونے کے بعد وہ لاشعور سے بے خبر ہو جاتا ہے۔

بے خبر ہونے کا مطلب لاشعوری تحریر کا مٹ جانا نہیں ہے، لاشعوری تحریر اگر ختم ہو جائے گی تو زندگی کا تسلسل ٹوٹ جائے گا، قدرت نے اس تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے شعوری اور لاشعوری حواس کو نصف نصف تقسیم کر دیا ہے۔ آدمی جب رات میں داخل ہوتا ہے تو دراصل لاشعور میں داخل ہوتا ہے۔ آدمی جب دن میں داخل ہوتا ہے تو دراصل وہ شعور میں قدم رکھتا ہے۔

پیدائش سے لے کر مرنے تک کی کل عمر میں انسان آدھی زندگی لاشعور اور آدھی زندگی شعور میں گزارتا ہے۔

زندگی میں شعور اور لاشعور دونوں الٹ پلٹ ہوتے رہتے ہیں، شعور کی رفتار نہایت کم اور محدود ہے، لاشعور کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ تخلیقی فارمولوں سے باخبر صوفی حضرات و خواتین کہتے ہیں کہ آدمی ٹائم اسپیس سے کہیں بھی آزاد نہیں ہوتا، آزادی کا مطلب یہ ہے کہ شعور کی رفتار اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ محدودیت ٹوٹنے کا احساس نمایاں ہو جائے۔

ہر جگہ ٹائم اور اسپیس ہے:

لاشعور میں انسانی حواس کی رفتار تقریباً ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہوتی ہے۔ رفتار زیادہ ہونے کو ٹائم اسپیس سے آزادی کہا جاتا ہے۔

ایک آدمی پیدل چلتا ہے، دوسرا سائیکل پر سوار ہے، تیسرا کار میں ہے، چوتھا آدمی جہاز میں پرواز کر رہاہے۔۔۔۔۔۔ہر اسٹیج پر رفتار تبدیل ہو جاتی ہے۔

دن کے حواس سے نکل کر انسان جب رات کے حواس میں داخل ہوتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ آدمی زمان و مکان سے آزاد ہو گیا ہے۔ حالانکہ آزاد نہیں ہوتا۔۔۔ہر حرکت میں لاشعور اور شعور دونوں کام کر رہے ہیں۔ شعور کے غلبہ کو پابندی اور لاشعور کے غلبہ کو آزادی کہا جاتا ہے۔

’’اے گروہ جنات! اور گروہ انسان! تم آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل کر دکھاؤ تم نہیں نکل سکتے، مگر سلطان سے۔‘‘
(سورۂ رحمٰن۔ آیت نمبر۳۳)

سلطان کا مطلب لاشعور پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔

ماضی کی حقیقت:

کوئی انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو کہیں سے آتا ہے۔ جہاں سے آتا ہے اسے ماضی کہتے ہیں۔ زمین پر آنے کے بعدبچپن گزرتا ہے تو بچپن ماضی میں چلا جاتا ہے اور آدمی جوان ہو جاتا ہے اور پھر بڑھاپا آ جاتا ہے تو جوانی ماضی میں چلی جاتی ہے۔ آدمی مر جاتا ہے تو ساری زندگی ماضی میں ریکارڈ ہو جاتی ہے۔

وحدت الوجود۔۔۔وحدت الشہود:

فلسفہ وحدت الوجود کے بارے میں علماء اور مشائخ نے کثرت سے ذکر کیا ہے۔ بڑی بڑی تحریریں قلمبند کی ہیں۔ اس نظریہ پر متعدد تبصرے بھی ہوئے ہیں۔ تصوف کے کئی خانوادے وحدت الوجود کے حامی رہے ہیں۔ خصوصاً حضرت محی الدین ابن عربی نے اس نظریہ کی ترجمانی کر کے سارے عالم اسلام کو متاثر کیا۔ آپ کے شاگردوں نے اس فلسفہ کی ترجمانی میں کئی گراں قدر کتابیں لکھی ہیں۔ شیخ اکبر ابن عربی نے وحدت الوجود (ہمہ اوست) کا نظریہ پیش کیا تھا مگر اکبری دور کے گمراہ صوفیوں نے حلول و ارتحاد کی ہزاروں گمراہیاں اس میں شامل کر دیں۔ ان لوگوں نے عوام کو بتایا کہ دنیا میں جو کچھ ہے وہ خدا ہے، زمین بھی خدا، آسمان بھی خدا، شجر و حجر، نباتات و جمادات، نور و ظلمت، خیر و شر، کفر و اسلام غرض کہ ہر چیز خدا کے وجود سے قائم ہے۔

حضرت مجدد الف ثانیؒ نے ان گمراہ کن نظریات کے خلاف جنگ کی۔ آپ نے فرمایا۔

یہ لوگ وحدت الوجود اور ہمہ اوست کے نظریہ کی غلط تعبیریں کر رہے ہیں۔ آپ نے ان گمراہیوں کو روکنے کے لئے وحدت الشہود کی دیوار کھڑی کر دی۔

وحدت الوجود کیا ہے؟ ہم اس کے بارے میں۔۔۔نظریۂ رنگ و نور کی روشنی میں عرض کرتے ہیں کہ وحدت الوجود کو سمجھنے کے لئے ہمارے سامنے آئینہ کی مثال ہے۔

ہم باہر نہیں دیکھتے:

آدمی آئینہ دیکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں آئینہ دیکھ رہا ہوں، وہ آئینہ نہیں دیکھ رہا بلکہ آئینے کے دیکھنے کو دیکھ رہا ہے۔ جب ہم آئینہ دیکھنے کے عمل پر تفکر کرتے ہیں اور ہمارے شعور میں گہرائی پیدا ہو جاتی ہے تو بات منکشف ہوتی ہے کہ ہم اپنا عکس آئینے کے اندر دیکھ رہے ہیں۔ یہ کہنا کہ ہم آئینہ دیکھ رہے ہیں عام سطح کی بات ہے۔

یہی صورت حال زندگی کے تمام شعبوں کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم آنکھوں سے باہر دیکھ رہے ہیں۔ صاحب بصیرت بندہ کہتا ہے کہ ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ باہر نہیں دیکھ رہے بلکہ ہمارے دماغ پر باہر کا عکس منتقل ہو رہا ہے۔ ہم اس عکس کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر کوئی بندہ دیکھنے کی حقیقی طرز سے واقف نہیں ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ میں باہر دیکھ رہا ہوں لیکن جو بندہ دیکھنے کی صحیح طرز سے واقف ہے تو وہ اس امر سے واقف ہے کہ ہر شخص باہر نہیں دیکھ رہا، اندر دیکھ رہا ہے۔

نگاہ کی پہلی مرکزیت:

جب نگاہ بالواسطہ دیکھتی ہے تو خود کو مکانیت اور زمانیت کے اندر مقید محسوس کرتی ہے اور جیسے جیسے دیکھنے کی طرزیں گہری ہوتی ہیں اسی مناسبت سے کثرت در کثرت درجے تخلیق ہوتے ہیں۔

مکانیت اور زمانیت کے اندر شہود اس لئے محدود ہے کہ حرکات و سکنات کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر شئے دو رخوں پر تخلیق کی گئی ہے۔ یعنی ہر تنزل کے دو رخ ہیں۔

یوم ازل میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے اور آواز سننے کے بعد انسان دوسرے تنزل میں داخل ہو گیا اور اس دوسرے تنزل میں اس نے نگاہ، شکل و صورت، گفتار سماعت، رنگینی، احساس، کشش اور لمس سے وقوف حاصل کیا۔

تنزل اول یعنی اللہ کو دیکھنا وحدت کا ایک درجہ ہے اور دوسرا تنزل کثرت کے پانچ درجے ہیں۔ اس طرح چھ تنزلات ہوئے پہلی تنزل کو لطیفہ وحدت اور دوسرے تنزلات کو صوفیاء کی اصطلاح میں لطائف کثرت کہا جاتا ہے۔

نظریۂ رنگ و نور:

نظریۂ رنگ و نور کے مطابق جس عالم کو محض وحدت کا نام دیا جاتا ہے۔ انسانی ذہن کی اپنی اختراع ہے انسان اپنی محدود فہم کے مطابق یا محدود فکری صلاحیت کے مطابق جو کچھ کہتا ہے وہ اس کی اپنی محدود سوچ ہے۔

یہ کہنا کہ عالم وحدت، وحدت باری تعالیٰ ہے ہرگز صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدت یا اللہ تعالیٰ کے کسی وصف کو انسانی شعور بیان کرنے سے قاصر ہے۔

جب ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت بیان کرتے ہیں تو دراصل اپنی ہی فکری صلاحیتوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی لفظ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی صفات کا مکمل احاطہ ہو سکے۔ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں جس لامحدودیت کا اظہار کرتا ہے، دراصل وہ اپنی محدودیت کا تذکرہ کرتا ہے یعنی انسان کی محدود فکر کے اندر اللہ تعالیٰ کی صفات جس حد تک سما جاتی ہیں اس نے اس کو لامحدودیت کا نام دے دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم اللہ تعالیٰ کی وحدت کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو ہم نے اس حد تک سمجھا ہے۔

انسان جس مقام کے تعین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے یا سمجھنے کے لئے کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے اس ہی مناسبت سے وہ اللہ تعالیٰ کا تذکرہ کر دیتا ہے۔ چونکہ انسان کی لامحدود نگاہ بھی محدود ہے اس لئے آگے اور آگے اسے کچھ نظر نہیں آتا۔ انسان نے سمجھ میں نہ آنے والے عالم کا نام وحدت الوجود یا وحدت الشہود رکھ دیا ہے۔

آخری نبی سیدنا حضور صلی اللہ علیہ و آ لہ و سلم کا ارشاد ہے:

’’ما عرفناک حق معرفتک‘‘

سیدنا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد ہے کہ:

’’ہم آپ کو نہیں پہچان سکے جیسا کہ آپ کو پہچاننے کا حق ہے۔‘‘

یہ ارشاد ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ کوئی شخص پوری طرح اللہ کا عرفان حاصل نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ جس بندہ کو تجلیات و صفات کا جتنا مشاہدہ کرا دیتے ہیں وہی اس کے لئے عرفان الٰہی ہے۔

ابدال حق قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

جب مجھے عالم بالا کی سیر کے مواقع نصیب ہوئے تو میں نے سوچا کہ اولیاء اللہ کی ارواح سے ملاقات کر کے یہ معلوم کرنا چاہئے کہ کتنے صوفی یا ولی ایسے ہیں جنہوں نے اللہ کو ایک حالت میں یا ایک صفت میں دیکھا ہے۔ میں نے ایک لاکھ سال کے اولیاء اللہ کا انتخاب کیا ہے اور ان سے اللہ کے دیدار کے بارے میں سوال کیا ہے۔ کسی ایک نے بھی نہیں بتایا کہ انہوں نے اللہ کو ایک روپ میں دیکھا ہے۔ ہر صوفی نے اللہ کو الگ روپ اور الگ تجلی میں مشاہدہ کیا ہے۔


بچوں کے محمدﷺ (جلد دوئم)

خواجہ شمس الدین عظیمی

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔