Topics
فرشتوں
کی کئی قسمیں ہیں:
ملائکہ نورانی، ملاء
اعلیٰ، ملائکہ سماوی، ملائکہ عنصری، ملاء رضوان، زمانیا، فرشتے کراماً کاتبین۔
کائنات میں ممتاز مخلوق
فرشتے اور جنات ہیں اور ان سب میں ممتاز مخلوق انسان ہے۔ فرشتے کی تخلیق نور سے
جنات کی تخلیق نار سے اور انسان کی تخلیق مٹی، خلاء اور گیس سے ہوئی ہے۔ کائنات کی
مرکزی قوت جہاں سے EVENTSظاہر
ہوتے ہیں اور جہاں ہر چیز لوٹ کر جاتی ہے وہ تجلئ اعظم کا دوسرا درجہ ہے جو عرش پر
قائم ہے۔ تمام مخلوقات پر عرش محیط ہے یعنی عرش کا کوئی حصہ اور کوئی چیز تجلی سے
باہر نہیں ہے۔ اس ممتاز جگہ سے زمین کی طرف نور کی لہریں نزول کر رہی ہیں۔ عرش کے
نیچے پوری انسانیت کا ایک ہیولہ ہے جس کو شخص اکبر یا انسان اکبر کہا جاتا ہے۔ یہ
اصطلاح صوفیاء کی قائم کردہ ہے۔ نوع انسانی کا شخص اکبر کے ساتھ ایسا تعلق ہے کہ
وہ شخص اکبر کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔۔۔۔۔۔نوع انسانی کی تمام زندگی شخص اکبر سے
متحرک ہے۔
حیوانات کی ہر نوع کا ایک
شخص اکبر بھی وہاں موجود ہے اور ہر نوع کے ہر فرد کا اپنے اپنے شخص اکبر سے تعلق
ہے۔ یہ تعلق فرشتوں کے Inspirationکے
ذریعے قائم ہے۔ جس طرح زمین کا ہر ذرہ کشش ثقل میں بندھا ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وہ فرشتے جو عرش کو تھامے ہوئے ہیں اور وہ فرشتے جو اس کے ارد گرد ہیں وہ سب اللہ
کی حمد و تسبیح کرتے ہیں اور اللہ کا حکم ماننے کے لئے اپنے آپ کو ہر دم تیار
رکھتے ہیں اور ایمان والے لوگوں کیلئے دعا مانگتے ہیں۔
’’اے ہمارے پروردگار تیری
رحمت اور تیرا علم ہر ایک چیز پر حاوی ہے ان لوگوں کو جو تیری طرف متوجہ ہوئے اور
تیرے راستے پر چلے، ان کی غلطیاں بخش دے اور انہیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ کر دے۔
اے ہمارے پروردگار انہیں ان باغوں میں داخل کر جن میں وہ ہمیشہ رہیں جن کا تو نے
ان سے وعدہ فرمایا ہے۔ اور ان کے ساتھ ان کے باپ دادا کو، بیویوں کو اور بچوں کو
بھی ہمیشگی کے باغوں میں داخل کر تو بہت عزت دینے والا اور دانائی بخشنے والا ہے۔
کم از کم یہ کہ انہیں تکلیف سے بچا۔ واقعی اس روز جو تکلیف سے بچ گیا اس پر تیری
بڑی رحمت ہے اور پوری کامیابی ہے۔‘‘
(سورۂ مومن: آیت نمبر۷ تا ۹)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ:
’’جب اللہ تعالیٰ آسمان
میں کوئی حکم دیتے ہیں تو فرشتے اپنے پر پھڑپھڑاتے ہیں پروں کے پھڑپھڑانے سے ایسی
آواز پیدا ہوتی ہے جیسے پتھر پہ زنجیر کھینچنے سے ہوتی ہے پھر نیچے کے فرشتے اوپر
والے بڑے فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے کیا حکم ملا ہے، اوپر والے فرشتے
کہتے ہیں جو حکم بھی دیا گیا ہے وہ سچ ہے اللہ تعالیٰ بہت بلند اور بڑا ہے اور اس
کے بعد وہ تفصیل بتا دیتے ہیں۔
جب اللہ تعالیٰ کوئی نیا
حکم دیتے ہیں تو وہ فرشتے جو عرش کو تھامے ہوئے ہیں سبحان اللہ کہتے ہیں یہاں تک
کہ زمین کے قریب آسمان تک تسبیح پہنچ جاتی ہے اس کے بعد حاملین عرش کے قریب رہنے
والے فرشتے حاملین عرش سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے تو وہ انہیں
اللہ کے حکم سے آگاہ کر دیتے ہیں اس طرح نیچے کے آسمان والے اوپر کے آسمان والوں
سے پوچھتے ہیں یہاں تک کہ آسمان دنیا تک یہ حکم پہنچ جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
و سلم نے فرمایا:
ایک روز کچھ رات گزری تھی
کہ میں اٹھا وضو کیا اور جس قدر مجھے وقت میسر آیا میں نے صلوٰۃ قائم کی۔ صلوٰۃ
میں ہی مجھے اونگھ آ گئی میں نے دیکھا میرا پروردگار نہایت اچھی شکل میں میرے
سامنے ہے مجھ سے فرمایا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔ میں نے عرض کیا اے پروردگار
میں حاضر ہوں۔
پوچھا ملاء اعلیٰ کس بات
پربحث کر رہے ہیں؟
میں نے عرض کیا! میں نہیں
جانتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات تین دفعہ فرمائی اور میں نے تینوں دفعہ یہی جواب
دیا۔ پھر میں نے دیکھا اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھ
دی یہاں تک کہ انگلیوں کی ٹھنڈک میرے سینے میں محسوس ہوئی، اب مجھ پر سب چیزیں
روشن ہو گئیں۔ اور میں سب کچھ سمجھ گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے پکارا۔
اے محمد صلی اللہ علیہ و
سلم۔ میں نے عرض کیا۔ لبیک، میں حاضر ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا۔ ملاء اعلیٰ کس
بات پر بحث کر رہے ہیں؟
میں نے عرض کیا! کفارات
پر بحث ہو رہی ہے۔
پوچھا! کفارات کیا چیز
ہیں؟
میں نے عرض کیا! جماعت کی
طرف پیدل چل کر جانا، نماز کے بعد مسجد میں بیٹھنا اور تکلیف کے باوجود وضو کرنا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور کس بات پر بحث ہو رہی ہے؟
میں نے عرض کیا! درجے
حاصل کرنے والی چیزوں پر۔
فرمایا! وہ کیا ہیں؟
میں نے عرض کیا!
بلا شرط کھانا کھلانا۔
(یعنی مسکین اور محتاج ہونے کی شرط نہ ہو) بلکہ ہر ایک کو کھانے کی عام اجازت ہو۔
اس لئے کہ بعض غیرت والے لوگ محتاجوں کے زمرے میں آنا پسند نہیں کرتے اور ہر ایک
انسان سے نرم بات کرنا اور راتوں کو ایسے وقتوں میں صلوٰۃ قائم کرنا جب لوگ سوئے
ہوئے ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے پیار کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام
کو بلا کر اس سے کہتا ہے کہ میں فلاں شخص سے پیار کرتا ہوں تو بھی اس سے پیار کر۔
چنانچہ جبرائیل علیہ
السلام اس سے پیار کرتے ہیں پھر آسمانوں میں منادی ہو جاتی ہے کہ فلاں شخص سے اللہ
پیار کرتا ہے تم سب بھی اس سے محبت کرو۔ چنانچہ تمام آسمان والے اس سے محبت کرتے
ہیں پھر زمین پر اسے مقبول عام بنا دیا جاتا ہے۔
ایسے ہی جب اللہ تعالیٰ
کسی شخص کو ناپسند کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام کو بلا کر فرماتا ہے کہ میں فلاں
شخص کو پسند نہیں کرتا چنانچہ جبرائیل علیہ السلام اسے پسند نہیں کرتے پھر آسمانوں
میں منادی کرا دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو پسند نہیں کرتا پھر وہ سب
فرشتے اسے ناپسند کرتے ہیں۔
اس کے بعد زمین پر موجود
مخلوق بھی اسے ناپسند کرتی ہے اور وہ دنیا میں ناپسندیدہ شخص بن جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
و سلم نے فرمایا۔ ہر روز انسان جب صبح کے وقت اٹھتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے
اترتے ہیں۔ ایک کہتا ہے یا اللہ! اچھی جگہ خرچ کرنے والوں کو اور نعمتیں عطا کر
دے۔
دوسرا فرشتہ کہتا ہے! اے
اللہ دولت کو ذخیرہ کرنے والوں کو ہلاک کر دے۔ مقرب فرشتے اللہ کے حضور حاضر رہتے
ہیں وہ ہر اچھے آدمی کیلئے دعا کرتے ہیں اور معاشرے میں بگاڑ کرنے والے لوگوں پر
لعنت کرتے ہیں۔
فرشتے اللہ اور اس کے
بندوں کے درمیان پیغام پہنچانے کا کام بھی کرتے ہیں اور بندے جو کام کرتے ہیں اس
کی رپورٹ اللہ تک پہنچاتے ہیں۔ یہ فرشتے دلوں میں نیک کام کرنے کا خیال Inspireکرتے
ہیں۔جب فرشتے انسانوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو طبیعت میں اچھے کام
کرنے کے رحجانات پیدا ہوتے ہیں ۔ فرشتے ٹکڑیوں کی شکل میں جمع ہوتے ہیں اور
ٹکڑیوں کی شکل میں اڑتے پھرتے ہیں۔آپس میں گفتگو بھی کرتے ہیں ۔ فرشتوں کی ٹکڑیوں
میں نیک انسانوں کی روحیں بھی شامل ہوتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
اے اطمینان والی روح تو راضی اور خوش ہو کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہو پھر میرے
بندوں میں داخل ہو جا اور میری بہشت میں داخل ہو جا۔
ملاء اعلیٰ کا مقام وہ
جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوتا ہے۔
ان کی نسبت اللہ تعالیٰ
کے علم میں مقرر ہے۔ کائنات کے مجموعی تقاضوں کے مطابق نظام چلانا ان کی ڈیوٹی ہے۔
یہ فرشتے پہلی قسم کے
فرشتوں سے زیادہ قریب ہیں۔
یہ وہ روحیں ہیں جو ملاء
اعلیٰ سے علم سیکھتی ہیں اور یہ لوگ ایسے اعمال کرتے ہیں جن سے ان کا ذہن و قلب
مصفا ہو جاتا ہے۔ پاکیزگی اور نور کے ذخیرے کی وجہ سے وہ ملاء اعلیٰ کی بات سمجھنے
کے قابل ہو جاتے ہیں۔ مرنے کے بعد ان فرشتوں کی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں جہاں
نیک روحوں اور فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے اس مقام کا نام حظیرۃ القدس ہے۔
حظیرۃ القدس میں جمع ہونے
والے فرشتے اور روحیں انسانوں کو تباہی اور مصیبت سے بچانے کے طریقوں پر سوچ بچار
کرتے ہیں اور سب متفق ہو کر یہ طریقے انسانوں تک پہنچاتے ہیں۔ اس کام کیلئے وہ
انسان منتخب کیا جاتا ہے جو سب انسانوں میں سب سے زیادہ پاکیزہ ہو۔ پاکیزہ شخص کے
لئے لوگوں کو Inspireکیا
جاتا ہے کہ اس آدمی کی پیروی کریں۔
پھر ایک جماعت بن جاتی ہے
جو انسانیت کی خدمت کرتی ہے جن باتوں میں قوم کی بھلائی اور بہتری ہو۔ اس پاکیزہ
بندے کی روح میں وحی کے ذریعہ خواب میں اور کبھی غیب کی حالت میں وہ باتیں داخل کر
دی جاتی ہیں۔ اس پاکیزہ روح انسان سے ملاء اعلیٰ رو برو بات کرتے ہیں۔
اسفل کے فرشتے ملاء اعلیٰ
سے دوسرے درجے میں ہوتے ہیں لیکن یہ نورانی فرشتوں کے مرتبے کے برابر نہیں ہوتے۔
یہ فرشتے اپنی طرف سے کچھ نہیں سوچتے۔ اوپر سے حکم آنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
وہ اتنی ہی بات جانتے ہیں جتنی بات اوپر کے فرشتے انہیں سمجھا دیں۔ فرشتے مشین کی
طرح کام کرتے ہیں ان کے سامنے ذاتی نفع و نقصان نہیں ہوتا۔ صرف وہی عمل کرتے ہیں
جس کا انہیں اوپر کے فرشتوں کی طرف سے الہام ہوتا ہے۔ یہ فرشتے حرکت تبدیل کرنے
میں بھی اپنا اثر ڈالتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا حکم سب سے
پہلے حظیرۃ القدس میں آتا ہے وہاں ملاء اعلیٰ اس حکم کو سن کر اپنے نیچے درجے کے
فرشتوں کو پہنچاتے ہیں۔ نیچے کے فرشتے سن کر اپنے نیچے کے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ
کا حکم سناتے ہیں۔ یہ فرشتے ملائکہ سماوی ہیں۔ ملائکہ سماوی اللہ تعالیٰ کا حکم سن
کر ملائکہ عنصری کو پہنچاتے ہیں۔
ملائکہ عنصری اللہ تعالیٰ
کا حکم سن کر مخلوق کو Inspireکرتے
ہیں۔ اگر دو جماعتوں میں لڑائی ہو جاتی ہے تو یہ فرشتے وہاں پہنچ کر حالات کے
مطابق ایک جماعت کے دلوں میں بہادری، ثابت قدمی اور فتح کرنے کا جذبہ پیدا کرتے
ہیں، ان کی مدد بھی کرتے ہیں اور دوسری جماعت کے دلوں میں کمزوری بزدلی کے خیالات Inspireکرتے
ہیں تا کہ اللہ کے چاہنے کے مطابق نتیجہ نکلے اور وہ جماعت غالب آ جائے جس کا غلبہ
اللہ چاہتا ہے ان فرشتوں کا نام ملائکہ اسفل ہے۔
فرشتوں کی ایک قسم کراماً
کاتبین ہے جن کی ہر انسان کے ساتھ ڈیوٹی ہے۔ ایک فرشتہ ہر نیک کام کی ویڈیو فلم
بناتا ہے اور دوسرا ہر برے کام کی ویڈیو فلم بناتا ہے۔
سدرۃ المنتہا کے نیچے بیت
المعمور ہے۔ بیت المعمور حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا مقام ہے اس ہی مقام میں ملاء
اعلیٰ رہتے ہیں۔ ان کے اوپر جو فرشتے ہیں ان کا نام ملائکہ نوری ہے۔ ملائکہ نوری
کے نیچے ملاء اعلیٰ، ملاء اعلیٰ کے نیچے ملائکہ سماوی اور ملائکہ سماوی کے نیچے
ملائکہ عنصری ہیں
گروہ جبرائیل ؑ گروہ
میکائیل ؑ گروہ عزرائیل ؑ گروہ اسرافیل ؑ
ہر گروہ کی الگ الگ
صلاحیتیں ہیں اور ان صلاحیتوں کا الگ الگ استعمال ہے۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام
اللہ کے قاصد ہیں۔ وحی پہنچانا اور الہام کرنا ان کا وصف ہے۔
حضرت میکائیل علیہ السلام
کے فرائض میں بارش کے سارے معاملات ہیں۔
حضرت عزرائیل علیہ السلام
کے ذمہ موت سے متعلق معاملات ہیں۔
حضرت اسرافیل علیہ السلام
کی ڈیوٹی میں قیامت سے متعلق معاملات ہیں۔
سات آسمان میں ہر آسمان
ایک زون ہے۔
ہر زون کے فرشتے الگ الگ
ہیں لیکن ساتوں آسمانوں میں موجود فرشتوں کو ملائکہ سماوی کہا جاتا ہے۔ اللہ
تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کو جو صلاحیتیں عطا ہوئی ہیں وہ فرشتوں کے پروں سے ظاہر
ہوتی ہیں۔ فرشتوں کے پر صلاحیتوں اور صفات کے مطابق چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔ پروں کی
تعداد میں بھی فرق ہوتا ہے۔ جس طرح مور کے پر ہوتے ہیں اور پروں پر خوبصورت نقش و
نگار ہوتے ہیں اسی طرح فرشتوں کے پروں پر بھی لاشمار نقوش ہوتے ہیں۔ ہر نقش ایک
صلاحیت ہے۔ فرشتوں کے پروں میں سے نور کے جھماکے ہوتے ہیں۔
دوسری قسم کے فرشتوں کے
پروں میں سبز روشنیوں کا انعکاس ہوتا ہے۔
جبرائیل، میکائیل،
اسرافیل، عزرائیل، کراماً کاتبین، منکر نکیر، ملائکہ رضوان، ملائکہ زمانیا وغیرہ۔
فرشتوں کے کئی طبقے ہیں۔ سارے فرشتے کائناتی نظام میں ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔ فرشتے
اللہ کی مخلوق ہیں اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں ذرہ برابر فرق نہیں کرتے۔ فرشتوں
کی تعداد کا کسی بھی طرح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ
تخلیقی نظام میں ہر انسان کے ساتھ 20ہزار فرشتوں کی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے۔
اس وقت ہماری دنیا کی
آبادی چھ ارب ہے جبکہ ہماری دنیا کی طرح کروڑوں دنیائیں اور بھی موجود ہیں۔
دوسری دنیاؤں کے مقابلہ
میں ہماری زمین سب سے چھوٹا کرّہ ہے۔ سیر کے دوران صوفی کو ہماری زمین ایسی نظر
آتی ہے جیسے بڑے گنبد پر سوئی کی نوک سے نشان لگا دیا جائے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
دنیا کے سارے درخت قلم بن جائیں اور سمندر روشنائی بن جائے اور یہ سب ختم ہو جائیں
گے لیکن اللہ کی باتیں باقی رہیں گی۔
آدمی جب مر جاتا ہے تو جو
کچھ اس نے دنیا میں کیا ہے وہ ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ چاہے وہ ذرہ برابر نیکی ہو۔ چاہے
ذرہ برابر برائی ہو۔ ہر عمل اور ہر قول کی کراماً کاتبین ویڈیو فلم بناتے رہتے
ہیں۔ انسان مرنے کے بعد یہی فلم دیکھتا رہتا ہے۔
مثلاً ایک آدمی نے چوری
کا ارادہ کیا۔ نیکی لکھنے والے فرشتے نے اس کے دل میں خیال ڈالا کہ یہ برا کام ہے
اسے نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ اس عمل سے ناخوش ہوتا ہے لیکن چور نے اس بات کو قبول
نہیں کیا اور وہ چوری کے لئے گھر سے نکل گیا۔ کسی گھر میں نقب لگائی اور سامان
چوری کر کے اپنے گھر لے آیا۔ مذہبی اعتبار سے اس کے ذہن میں یہ بات ہے کہ چوری کی
سزا ہاتھ کٹنا ہے۔
مرنے کے بعد اس چور کو یہ
پوری فلم دکھائی جائے گی۔ اور چوری کے نتیجہ میں فلم میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیا
جائے گا۔ چور جب اپنی ذات سے متعلق فلم دیکھتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ میں
فلم دیکھ رہا ہوں۔
جب اس کا ہاتھ کٹتا ہے تو
وہ فلم میں اپنا ہاتھ کٹا ہوا دیکھتا ہے اور اسے شدید تکلیف ہوتی ہے۔
ایک نیک آدمی نماز کے لئے
مسجد گیا۔ نماز ادا کرنے کے بعد اللہ کے گھر میں آرام سے بیٹھ گیا۔ اللہ سے تعلق
کی بناء پر مسجد میں اسے سکون ملا۔ اللہ کے ذکر کی نورانی لہروں نے اسے راحت بخشی
اور وہ اللہ کی میزبانی سے خوش ہو گیا۔ یہ فلم گھر سے نکلنے کے وقت سے مسجد میں بیٹھنے
اور نورانی لہروں سے سیراب ہونے کے وقت تک بنتی رہتی ہے۔ جب یہ بندہ دنیا سے رخصت
ہو جائے گا تو اسے نیکی کے عمل اور نیکی کی فلم دکھائی جائے گی۔ یہ فلم دیکھ کر
اسے خوشی او رسکون ملے گا۔
منکر نکیر مرنے کے بعد
پہلی ملاقات میں سوالات کر کے یہ بتا دیتے ہیں کہ نیکی اور برائی میں بندہ کی کیا
حیثیت ہے۔ اگر وہ نیک ہے تو جنت کے نظاروں سے مستفیض ہوتا ہے، برائی کا پیکر ہے تو
دوزخ کا عذاب نظروں کے سامنے آتا رہتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
تصوف
کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار
کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا
ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ
محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی
صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس
اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان
ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے
ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند
بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ
صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا
نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے
اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل
کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں
بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت
اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا
علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔