Topics

تصوف اور مکارمِ اخلاق

صوفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت طیبہ کا نمونہ ہوتا ہے اس کے اندر سیرت مطہرہ کی جھلک نظر آتی ہے۔ وہ غصہ نہیں کرتا، عفو و درگزر سے کام لیتا ہے۔ اس کے دل میں ہر چھوٹے بڑے کا احترام ہوتا ہے۔ دوسروں کے کام آتا ہے، ایفائے عہد میں پُرعزم اور پختہ ہوتا ہے۔ ہر اخلاقی برائی سے خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور ہر اچھی بات پر دلجمعی سے عمل کرتا ہے اور دوسروں کو عمل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ کسی پر طعن و تشنیع نہیں کرتا اور نہ کسی کو بددعا دیتا ہے۔ ہر کس و ناکس کے ساتھ خوش ہو کر ملتا ہے۔ اخلاق، مروت اس کی شناخت بن جاتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: ’’خوش اخلاقی اللہ تعالیٰ کا خُلق عظیم ہے۔‘‘

اخلاق حسنہ:

اخلاق وہی اچھا ہے جس میں صفات ربانی کا عکس ہو۔ کچھ صفات ایسی ہیں جن میں انسان برابری نہیں کر سکتا مثلاً اللہ واحد ہے اور مخلوق کثرت ہے، اللہ خالق ہے مخلوق، مخلوق ہے۔ کبریائی اور بڑائی صرف اللہ کے لئے مخصوص ہے، بندے کا کمال یہ ہے کہ اس میں کبریائی کے مقابلے میں خاکساری اور تواضع ہو۔ قادر مطلق اللہ کی صفات میں بندہ فروتنی محسوس کرے۔ خوش اخلاق ہو کیونکہ اسلام نے انسان کی روحانی تکمیل کا ذریعہ اخلاق کو قرار دیا ہے۔ صفات الٰہیہ کے انوار سے بندہ بشر جس حد تک قریب ہوتا ہے اس کی روحانی ترقی ہوتی رہتی ہے۔ (سیرت النبی ۶)

دنیا میں اخلاق کے بڑے بڑے معلم پیدا ہوئے اور سب نے اخلاقیات پر عمل کرنے کی دعوت دی ہے۔ تمام مذاہب کی بنیاد بھی اخلاق حسنہ پر رکھی گئی ہے۔ دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر تشریف لائے سب نے اس بات کا اعادہ کیا کہ سچ بولنا اچھا عمل ہے۔ اور جھوٹ بولنا برائی ہے۔ انصاف بھلائی ہے اور ظلم بدی ہے، خیرات نیکی ہے اور چوری جرم ہے۔ دوسرے کے کام آنا ایسی عادت ہے جو اللہ کے لئے پسندیدہ ہے اور حق تلفی کرنا اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے۔

فضائل اخلاق:

نبوت کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور رسالت اور نبوت کا اختتام حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر ہو گیا۔
آسمانی کتابوں اور صحائف میں اس بات کو مسلسل دہرایا جاتا رہا ہے کہ ایک خیر البشر آئے گا اور آسمانی علوم کے مطابق تکمیل دین کا اعلان کرے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم، اللہ کے فرستادہ آخری نبی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اوپر دین کی تکمیل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے خوش ہو کر اپنی نعمتیں پوری فرما دیں۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں‘‘

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ:

’’میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاق حسنہ کی تکمیل ہو جائے‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بعثت نبوی سے پہلے ہی اس فرض کو انجام دینا شروع کر دیا تھا۔

ابوذرؓ نے اپنے بھائی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حالات اور تعلیمات کی تحقیق کے لئے مکہ بھیجا تھا۔ انہوں نے واپس آ کر اپنے بھائی کو بتایا:

’’میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو اخلاق حسنہ کی تعلیم دیتے ہیں‘‘

نجاشی نے جب مسلمانوں کو بلا کر اسلام کے بارے میں تحقیق کی تو حضرت جعفرطیارنے کہا:

’’اے بادشاہ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے بتوں کو پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، پڑوسیوں کو تنگ و پریشان کرتے تھے اور بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا، زبردست زیردستوں کو غلام بنا لیتے تھے، ان حالات میں ایک شخص ہم میں پیدا ہوا۔۔۔۔۔۔اس نے ہمیں سکھایا کہ ہم پتھروں کی پرستش چھوڑ دیں، سچ بولیں، خونریزیوں سے باز آ جائیں، یتیموں کا مال نہ کھائیں۔

ہمسائیوں سے اچھا سلوک کریں، ضعیف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں‘‘

اسی طرح قیصر روم کے دربار میں ابو سفیان نے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اصلاحی دعوت کا جو مختصر خاکہ بیان کیا اس میں یہ تسلیم کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خدا کی توحید اور عبادت کے ساتھ لوگوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ پاک دامنی اختیار کریں۔ سچ بولیں اور قرابت داروں کا حق ادا کریں۔

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف میں کہا:

’’یہ پیغمبر جاہل اور ان پڑھ لوگوں کو پاک و صاف کرتا ہے اور ان کو حکمت سکھاتا ہے‘‘

اس آیت میں دو لفظ بہت زیادہ تفکر طلب ہیں:

۱) تزکیہ ۲) حکمت

۱) تزکیہ کے لفظی معنی ہیں۔۔۔۔۔۔پاک صاف کرنا، نکھارنا۔۔۔!

قرآن پاک کے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ نفس انسانی کو ہر قسم کی نجاستوں اور آلودگیوں سے پاک کر کے صاف ستھرا کیا جائے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’بلاشبہ جس نے اپنے نفس کو صاف ستھرا بنایا وہ کامیاب ہوا جس نے اسے مٹی میں ملایا وہ ناکام رہاُُ

(سورۃ شمس: آیت ۹ تا ۱۰)

’’وہ جیتا جس نے اپنے آپ کو پاک صاف کیا اور نماز پڑھی‘‘ (سورۃ اعلیٰ: آیت ۱۴ تا ۱۵)

’’پیغمبر(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نے تیوری چڑھائی اور منہ موڑا، کہ اس کے پاس اندھا آئے۔۔۔۔۔۔اور تجھے کیا خبر

ہے شاید وہ سنور جاتا تو تیرا سمجھانا اس کے کام آتا‘‘

(سورۃ عبس: آیت ۱تا۴)

ان آیات میں تزکیہ کا مفہوم واضح ہے جسے پیغمبر اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خصوصیات قرار دیا ہے۔ یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت و رسالت کا سب سے بڑا منصب یہ تھا کہ وہ انسانی نفوس کو برائیوں، نجاستوں اور آلودگیوں سے پاک کرے اور ان کے اخلاق و اعمال کو درست اور صاف ستھرا بنائے۔

۲) حکمت کا لفظ نور کی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ودیعت کیا گیا ہے۔ جس کے آثار و مظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے سنن و احکام کی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں۔


اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’اور ہم نے لقمان کو حکمت کی باتیں بتائیں کہ خدا کا شکر ادا کریں‘‘

(سورۃ لقمان۔ آیت ۱۲)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت میں اخلاق کے مرتبے کو حکمت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسلام میں عبادات اور دوسرے احکام کو جو حیثیت حاصل ہے، اخلاق کو بھی اتنی اہمیت حاصل ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’اے ایمان والو! رکوع کرو، سجدہ کرو اپنے رب کو پوجو اور نیکی کرو تا کہ تم فلاح پاؤ‘‘

(سورۃ الحج۔ آیت ۱۰)

عبادات کا کردار:

’’حقوق العباد انسانوں میں باہمی معاملات اور تعلقات کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ رحمٰن و رحیم ہے۔ اس کی رحمت کا دروازہ کسی نیک و بد بندے پر بند نہیں ہوتا۔ شرک و کفر کے سوا ہر گناہ قابل معافی ہے۔ مگر حقوق العباد، اخلاق فرائض کی کوتاہی اور تقصیر کی معافی اللہ تعالیٰ نے ان بندوں کے ہاتھ میں رکھی ہے جن کے ساتھ یہ ظلم ہوا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’جس بھائی نے کسی دوسرے بھائی پر ظلم کیا تو ظالم بھائی کو چاہئے کہ وہ اس دنیا میں ظلم کو معاف کرا لے ورنہ یوم حساب میں تاوان ادا کرنے کے لئے کسی کے پاس کوئی درہم و دینار نہیں ہو گا۔ صرف اعمال ہونگے، ظالم کی نیکیاں مظلوم کو مل جائیں گی اور مظلوم کے اعمال میں لکھ دی جائیں گی‘‘

چار ستون:

بے سمجھ واعظوں اور ابن الوقت مذہبی دانشوروں کی غلط بیانی سے یہ غلط فہمی پیدا ہو گئی کہ اسلام کی بنیاد صرف توحید، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ پر قائم ہے۔ اس بات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پانچ ستونوں پر کھڑی ہوئی اسلام کی اس عمارت میں اخلاق حسنہ کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ حالانکہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے فرائض اور عبادات سے اخلاق حسنہ کی ہی تکمیل ہوتی ہے۔

قرآن حکیم بتاتا ہے کہ نماز کا فائدہ یہ ہے کہ وہ بری باتوں سے روکتی ہے۔ روزہ تقویٰ کی تعلیم دیتا ہے۔ زکوٰۃ سرتا پا انسانی ہمدردی اور غم خواری کا درس ہے۔ اور حج مختلف طریقوں سے ہماری اخلاقی اصلاح اور ترقی کا ذریعہ ہے۔ اسلام کے ان چاروں ارکان کے نام الگ الگ ہیں مگر ان کا بنیادی مقصد اخلاقی تعلیم ہے۔ اگر ان عبادات سے روحانی اور اخلاقی ثمر حاصل نہ ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ احکام الٰہی کی حقیقی تعمیل نہیں ہوئی۔

یہ عبادات ایسا درخت ہیں جس میں پھل نہیں آتا، ایسے پھول ہیں جس میں خوشبو نہیں ہے، یہ اعمال ایسے قالب ہیں جس میں روح نہیں ہے۔

احیاء العلوم میں امام غزالیؒ لکھتے ہیں:

’’اور اللہ فرماتا ہے میرے لئے نماز قائم کرو۔ بھولنے والوں میں نہ ہو جاؤ۔ نشہ کی حالت میں اس وقت تک نماز نہ پڑھو جب تک تم یہ نہ سمجھو کہ تم کیا کہہ رہے ہو‘‘

سوال یہ ہے کہ کتنے ہی نمازی ایسے ہیں کہ جو شراب نہیں پیتے مگر جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو نہیں جانتے کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ ان کے سامنے معانی اور مفہوم نہیں ہوتے۔ ان کا دل نماز میں نہیں ہوتا۔ وسوسوں کا ایک طوفان انہیں گھیرے رہتا ہے۔

آسمانی کتابوں میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’کہ میں ہر آدمی کی نماز قبول نہیں کرتا۔ میں اس کی نماز قبول کرتا ہوں جو میری بڑائی کرتا ہے اور بندوں پر اپنی بڑائی نہیں جتاتا اور بھوکے محتاج کو میرے لئے کھانا کھلاتا ہے‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:

’’جس کی نماز اس کو برائی اور بدی سے نہ روکے ایسی نماز اس کو اللہ سے دور کر دیتی ہے‘‘

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’روزہ رکھ کر جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہ چھوڑے اللہ کو اس کی ضرورت نہیں ہے‘‘

ان تعلیمات سے منکشف ہوتا ہے کہ عبادات کا ایک اہم مقصد اخلاق کا تزکیہ بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’بلاشبہ وہ ایمان والے کامیاب ہوتے ہیں جو اپنی نماز میں خشوع اور خضوع کرتے ہیں اور جو لا یعنی بات پر دھیان نہیں کرتے۔ اور جو زکوٰۃ دیا کرتے ہیں::

(سورۃ مومنون: آیت ۱ تا ۴)

’’اور جو اپنی امانتوں میں خیانت نہیں کرتے‘‘ (سورۃ مومنون۔ آیت ۸)

جب صوفی ان الفاظ کی اہمیت پر غور کرتا ہے تو اس پر یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تقرب الٰہی اور دعا کی قبولیت کے بہترین موقع پر بھی اللہ تعالیٰ سے حسن اخلاق کے لئے درخواست کی ہے۔

صوفی یہ بات جانتا ہے کہ ایمان میں اخلاق کی بڑی اہمیت ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

’’مسلمانوں میں کامل ایمان اس کا ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ:

’’حسن اخلاق سے انسان وہ درجہ پا لیتا ہے جو دن بھر روزہ رکھنے اور رات کو شب بیدار رہنے سے حاصل ہوتا ہے‘‘

سیرت طیبہ اور صوفیاء کرام:

خانقاہی نظام میں سالک کو پہلا سبق یہ دیا جاتا ہے:

’’باادب با نصیب بے ادب بے نصیب‘‘

سالکین کو سیرت طیبہ کا ہر پہلو پڑھایا جاتا ہے اور ان پر عمل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے ان کے ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ:

۱) اگر تمہیں کسی سے تکلیف پہنچے تو تم اسے معاف کر دو حالانکہ تم الٰہی قانون کے تحت بدلہ لے سکتے ہو لیکن معاف کرنے سے اللہ خوش ہوتا ہے۔

۲) اگر تم سے کسی کو تکلیف پہنچ جائے۔ وہ اعلیٰ ذات ہو یا چھوٹی ذات میں شمار کیا جاتا ہو، کمزور ہو یا طاقتور ہو تم اس سے معافی مانگ لو۔

۳) دین اور دنیا کے معاملات میں تندہی کے ساتھ پوری کوشش کرو لیکن نتیجہ اللہ پر چھوڑ دو۔

۴) قیام الصلوٰۃ کا مطلب ہے اللہ کے ساتھ رابطہ میں رہنا یعنی اللہ کو دیکھ کر یا اللہ کو محسوس کر کے اس کی عبادت کرنا۔

۵) جہاں بھی رہو علم دین کے ساتھ علم دنیا بھی سیکھو۔ تا کہ شعوری استعداد میں اضافہ ہو اور اس علمی استعداد سے اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچاؤ۔

۶) اللہ کی پسندیدہ عادت مخلوق کی خدمت کرنا ہے۔ سالک کو چاہئے کہ بغیر غرض کے اللہ کی مخلوق کی خدمت کرے۔ جب کوئی بندہ مخلوق کی مخلصانہ خدمت کرتا ہے تو اسے اللہ کی دوستی کا شرف حاصل ہو جاتا ہے اور اللہ کے دوستوں کو خوف اور غم نہیں ہوتا۔

۷) قرآن ان لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے جو متقی ہیں اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور ایمان مشاہدہ سے مشروط ہے۔

۸) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے محبوب ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب سے محبت کرتے ہیں۔ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے درجے بلند کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے فرستادہ بندے اور رسول ہیں۔

اس ذات مبارک صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرنا ہر انسان پر فرض ہے۔

۹) اولیاء اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت سے اللہ کے دوست ہیں۔ جب کوئی بندہ اللہ کے دوست سے دوستی نبھاتا ہے اور ان کی قدر و منزلت کرتا ہے تو ایسے بندوں پر رحمت کی بارش برستی ہے۔

مابعد الطبیعی اساس:

انسان جس جسمانی وجود سے اس دنیا میں چلتا، پھرتا، کھاتا، پیتا ہے اور دوسرے مشاغل میں مصروف رہتا ہے وہ فانی ہے۔ ہر انسان کی اصل اس کی روح ہے۔

روح کا ادراک ہونے سے انسان اپنی اصل سے واقف ہو جاتا ہے اور اپنی اصل سے واقفیت ہی عرفان الٰہی کا وسیلہ ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’نیکی یہ نہیں کہ تم نماز میں اپنا منہ مشرق (بیت المقدس) مغرب (خانۂ کعبہ) کی طرف کرو بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ اللہ پر، قیامت پر، فرشتوں پر، کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے اور خواہش کے باوجود اللہ کی محبت میں اپنا مال، رشتے داروں، یتیموں، غریبوں، مسافروں، مانگنے والوں اور غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کرے، نماز ادا کرتا رہے، زکوٰۃ دیتا رہے اور جو وعدہ کرے اپنے وعدے کو پورا کرتا رہے اور جو مصیبت، تکلیف اور پریشانی میں ثابت قدم رہتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو راست باز ہیں اور یہی تقویٰ ہے‘‘

(سورۃ البقرہ: ایت ۱۷۷)

آیت کی تفہیم یہ ہے کہ راست بازی اور تقویٰ کا پہلا نتیجہ جس طرح ایمان ہے اس ہی طرح دوسرا لازمی نتیجہ بہترین اوصاف، فیاضی، ایفائے عہد اور صبر و ثبات وغیرہ ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’اور رحم والے اللہ کے بندے وہ ہیں جو زمین پر دبے پاؤں چلتے ہیں اور جب ناسمجھ لوگ ان سے بات کریں تو وہ سلام کہیں اور جو اپنے پروردگار کی عبادت کی خاطر قیام اور سجدے میں رات گزارتے ہیں اور جو کہتے ہیں کہ اے ہمارا پروردگار ہم سے جہنم کا عذاب دور کر کہ اس کا عذاب بڑا تاوان ہے اور جہنم برا ٹھکانہ اور مقام ہے اور جو خرچ کرتے ہیں وہ فضول خرچ نہ کریں اور نہ تنگی کریں بلکہ ان دونوں کے درمیان اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہیں پکارتے اور جو کسی جان کا بے گناہ خون نہیں کرتے، جس کو اللہ نے منع کیا ہے اور نہ بدکاری کرتے ہیں اور جو ایسا کرے گا وہ گناہ سے پیوست ہو گا‘‘

(سورۃ فرقان: آیت ۶۲ تا ۶۳)

’’اور جو جھوٹے کام میں شامل نہیں ہوتے اور جب کسی لغویات سے گزر رہے ہوں تو سنجیدگی اور وقار سے گزر جاتے ہیں اور جب اللہ کی نشانیاں ان کو سنائی جاتی ہیں تو وہ اندھے اور بہرے ہو کر ان کو نہیں سنتے اور یہ دعا مانگتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ہم کو ہمارے بیوی بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک بخش اور ہم کو پرہیز گاروں کا پیشوا بنا دے‘‘

(سورۃ فرقان: آیت ۷۱ تا ۷۴)

مومن کے اخلاقی اوصاف:

اللہ تعالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی اہل ایمان (یعنی صاحب مشاہدہ خواتین و حضرات) کے اخلاقی اوصاف اس طرح بیان کرتے ہیں:

اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں اور بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور جو غصے کی حالت میں معاف کرتے ہیں اور اپنے پروردگار کی پکار کا جواب دیتے ہیں (یعنی اللہ ان سے ہمکلام ہوتا ہے) نماز قائم کرتے ہیں (یعنی ان کا اللہ سے رابطہ ہوتا ہے) اور ان کے کام باہم مشورہ سے ہوتے ہیں اور ہم نے ان کو جو دیا ہے اس میں سے کچھ خدا کی راہ میں دیتے ہیں اور جو ان پر چڑھائی ہو تو وہ بدلہ لیتے ہیں اور برائی کا بدلہ ویسے ہی برائی ہے تو جو کوئی معاف کر دے اور نیکی کرے تو اس کا درجہ اللہ کے ذمہ ہے، وہ ظلم کرنے والوں کو پیار نہیں کرتا۔ اگر مظلوم ہو کر بدلہ لے تو اس پر کوئی ملامت نہیں، ملامت تو ان پر ہے جو لوگوں پر از خود ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق فساد برپا کرتے ہیں ان کے لئے بڑا درد ناک عذاب ہے، بلاشبہ جو مظلوم ہونے پر بھی ظالم کو معاف کر دے اور سختی سہہ لے تو یہ ہمت کے کام ہیں‘‘

(سورۃ الشوریٰ: آیت ۳۶ تا ۴۳)

’’جنت ان پرہیز گاروں کے لئے تیار کی گئی ہے جو خوشی اور تکلیف دونوں حالتوں میں اللہ کے لئے خرچ کرتے ہیں اور جو غصےکو دباتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ اللہ اچھا کام کرنے والوں کو پیار کرتا ہے‘‘

(سورۃ آل عمران۔ آیت ۱۴)

’’یہ وہ ہیں جن کو دوہرا اجر ملے گا، اس لئے کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ برائی کو بھلائی سے دور کرتے ہیں اور جو ہم نے دیاہے اس میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور جب کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں، اس سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں، کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارا عمل اور تمہارے لئے تمہارا عمل ہے، تم سلامت رہو ہم ناسمجھوں کو نہیں چاہتے‘‘

(سورۃ القصص: آیت ۵۴ تا ۵۶)

’’اور کھانے کی خود ضرورت ہوتے ہوئے مسکین، یتیم اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں‘‘

(سورۃ دہر۔ آیت ۸)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جو دعا مانگتے تھے اس میں یہ جملہ بھی ہوتا تھا:

’’اے میرے اللہ! تو مجھ کو بہتر سے بہتر اخلاق کی رہنمائی کر، تیرے سوا کوئی بہتر سے بہتر اخلاق کی راہ نہیں دکھا سکتا اور برے اخلاق کو مجھ سے پھرا دے اور ان کو نہیں پھیر سکتا لیکن تو‘‘۔


بچوں کے محمدﷺ (جلد دوئم)

خواجہ شمس الدین عظیمی

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔