Topics
علم حضوری اور علم حصولی
کی مختصر تعریف کے بعد یہ نتیجہ مرتب ہوتا ہے کہ روح کو سمجھنے، جاننے اور پہچاننے
کے لئے اگر کوئی معتبر اور حقیقی ذریعہ ہے تو وہ ’’علم حضوری‘‘ ہے۔ صرف علم حصولی
سے روح کا سراغ نہیں ملتا۔ اگر کوئی آدمی علم حصولی سے روح کو سمجھنا چاہتا ہے تو
وہ عقلی اور منطقی دلیلوں میں الجھ کر راستہ بھٹک جاتا ہے۔ ہر انسان اپنی فکر کے
مطابق روح کے بارے میں قیاس آرائیاں کرتا ہے۔ مثلاً کوئی کہتا ہے کہ انسان پہلے
بندر تھا۔ کسی نے کہا انسان سورج کا بیٹا ہے۔ کوئی انسان کی تخلیق کو مچھلی کی
تخلیق کے ساتھ وابستہ کرتا ہے اور زیادہ سوجھ بوجھ کے لوگ جب انہیں روح کے بارے
میں کوئی حقیقی بات معلوم نہیں ہوتی تو روح سے قطع نظر کر کے مادی زندگی کو سب کچھ
سمجھ لیتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ جس بندے نے
بھی علم حصولی کے ذریعے روح کو سمجھنا چاہا وہ حقیقی اور حتمی نتیجے تک نہیں پہنچا
اور جس اللہ کے بندے نے علم حضوری کے ذریعے روح تک رسائی حاصل کی اس کے اندر سے شک
اور وسوسے ختم ہو گئے۔ اور یہ بات اس کا یقین بن گئی کہ گوشت پوست کا جسم مفروضہ
اور فکشن (Fiction) ہے۔ مفروضہ اور فکشن کو سنبھالنے والا جسم ’’روح‘‘ ہے۔ یہی وجہ
ہے کہ اس سے تعلق ختم ہونے کے بعد حرکت ختم ہو جاتی ہے۔
اس وقت ہمارے سامنے یہ
تجسس ہے کہ انسان کیا ہے؟ ہم اس کو کس طرح جانتے اور پہچانتے ہیں؟ اور۔۔۔۔۔۔فی
الواقع اس کی حیثیت کیا ہے۔ ہم انسان کو جس طرح جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہڈیوں کا
ایک ڈھانچہ ہے۔ ہڈیوں کے ڈھانچے پر رگ پٹھوں اور کھال سے ہم ایک تصویر ہیں۔ لیکن
روح کے بغیر اس جسم کے اندر اپنی کوئی حرکت نہیں ہے۔ کوئی اور چیز ہے جو اسے حرکت
میں رکھے ہوئے ہے۔ مثلاً ہم مٹی کا ایک شیر بناتے ہیں اس شیر کو ایسی جگہ رکھ دیتے
ہیں جہاں گرد و غبار اڑتا رہتا ہے اور گرد و غبار شیر کے اوپر جم جاتا ہے۔ ایک
آدمی جب شیر کو دیکھتا ہے تو گرد و غبار کا تذکرہ نہیں کرتا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ شیر
ہے۔ جس طرح ایک شیر کے اوپر گرد و غبار جمع ہو کر یک جاں ہو گیا ہے۔ اسی طرح روح
نے بھی روشنیوں کے تانے بانے سے رگ پٹھوں، گوشت اور کھال سے ایک صورت بنا لی ہے۔
اس ہی صورت کا نام جسم ہے۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ جب
آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اندر کوئی مدافعت باقی نہیں رہتی۔ مرنے کا مطلب یہ ہے کہ
روح نے جسمانی لباس کو اتار کر اس طرح الگ کر دیا ہے کہ اب روح کے لئے اس میں کوئی
کشش باقی نہیں رہی۔ لباس کا یہ معاملہ عالم ناسوت یا عالم تخلیط تک ہی محدود نہیں
ہے۔
روح ہر زون (Zone)
میں۔۔۔ہر مقام میں اور ہر تنزل کے وقت اپنا ایک نیا لباس بناتی ہے اور اس لباس کے
ذریعے اپنی حرکات و سکنات کا اظہار کرتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ اپنی حرکات و سکنات کا
لباس کے ذریعے اظہار کرتی ہے بلکہ اس لباس کی حفاظت بھی کرتی ہے۔ اس لباس کو
نشوونما بھی دیتی ہے کہیں یہ لباس تعفن اور سڑاند سے بنتا ہے۔ کہیں یہ لباس
روشنیوں کے تانے بانے سے بنتا ہے اور یہی لباس نور سے بھی وجود میں آتا ہے۔ روح جب
لباس کو Matterسے
بناتی ہے تو مادے کی اپنی خصوصیات کے تحت جسم کے اوپر ٹائم اور اسپیس کی پابندیاں
لاحق رہتی ہیں۔
لباس کی صحیح حیثیت(لباس
سے مراد گوشت پوست کا جسم) کا ہمیں اس وقت علم ہوتا ہے جب ہم مر جاتے ہیں۔ مرنے کے
بعد گوشت پوست کا جسم محض لباس کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
ضروری ہے کہ ہم تلاش کریں
کہ زندگی میں ہمارے اوپر کوئی ایسی حالت واقع ہوتی ہے جو موت سے ملتی جلتی ہو یا
موت سے قریب ہو۔ زندگی کے شب و روز میں جب ہم موت سے ملتی جلتی حالت تلاش کرتے ہیں
تو ہمیں ایک حالت پر مجبوراً رکنا پڑتا ہے
اور موت سے ملتی جلتی یہ
حالت نیند ہے۔
بزرگوں کا کہنا ہے کہ
’’سویا اور مرا ایک برابر ہے‘‘ فرق صرف اتنا ہے کہ نیند کی حالت میں روح کا مادی
جسم (لباس) سے ربط برقرار رہتا ہے اور روح اپنے لباس کی حفاظت کے لئے چوکنا اور
مستعد رہتی ہے اور موت کی حالت میں روح اپنے لباس سے رشتہ توڑ لیتی ہے۔
نیند ہماری زندگی میں ایک
ایسا عمل ہے جس سے روح کی صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے۔ ہم دو حالتوں میں زندگی گزارتے
ہیں۔ ایک حالت یہ ہے کہ ہماری آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔ ہمارا شعور بیدار ہے۔ ہم ہر
چیز کو دیکھ رہے ہیں۔ سن رہے ہیں، محسوس کر رہے ہیں اور ہم حرکت میں بھی ہیں۔ یہ
حالت بیداری کی ہے۔
زندگی کی دوسری حالت (جس
کو نیند کہا جاتا ہے) میں ہم دیکھتے ہیں، سنتے ہیں، محسوس کرتے ہیں، خود کو چلتا
پھرتا دیکھتے ہیں
لیکن جسم حرکت نہیں کرتا۔
اس (Process) سے یہ ثابت ہوا کہ روح اس بات کی پابند نہیں ہے کہ گوشت پوست کے
ساتھ ہی حرکت کرے۔ روح گوشت پوست کے بغیر بھی حرکت کرتی ہے۔ گوشت پوست کے جسم کے
بغیر حرکت کرنے کا نام ’’خواب‘‘ ہے۔ خواب کے بارے میں مختلف نظریات ہیں۔ کوئی کہتا
ہے کہ خواب محض خیالات ہوتے ہیں جس قسم کے خیالات میں آدمی دن بھر مصروف رہتا ہے۔
اس قسم کی چیزیں اسے خواب میں نظر آتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ خواب نا آسودہ خواہشات
کا عکس ہے۔ جب کوئی خواہش ناآسودہ رہ جاتی ہے اور اس کی تکمیل نہیں ہوتی تو وہ
خواہش خواب میں پوری ہو جاتی ہے۔
اس طرح کی بے شمار باتیں
خواب کے بارے میں مشہور ہیں اور ہر شخص نے اپنی فکر اور علم کے مطابق خواب کے بارے
میں کچھ نہ کچھ کہا ہے۔ لیکن اس بات سے ایک فرد واحد بھی انکار نہیں کر سکتا کہ جس
طرح روح گوشت پوست کے جسم کے ساتھ حرکت کرتی ہے۔ اسی طرح روح گوشت پوست کے جسم کے
بغیر بھی حرکت کرتی رہتی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ خواب دیکھنا اور خواب
میں کئے ہوئے اعمال اور حرکات خیالی ہیں تو اس کی تردید ہو جاتی ہے۔ اس کی تردید
اس طرح ہوتی ہے کہ ہر شخص ایک یا دو یا زیادہ خواب دیکھنے کے بعد جب بیدار ہوتا ہے
تو خواب میں کئے ہوئے اعمال کا اثر اس کے اوپر باقی رہتا ہے۔ اس کی ایک بڑی واضح
مثال خواب میں کئے ہوئے اعمال کے نتیجے میں غسل کا واجب ہو جانا ہے۔ جس طرح کوئی
آدمی بیداری میں جنسی لذت حاصل کر کے ناپاک ہو جاتا ہے اور اس کے اوپر غسل واجب ہو
جاتا ہے اسی طرح خواب میں کئے ہوئے اس عمل کے بعد بھی اس کے اوپر غسل واجب ہو جاتا
ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ خواب میں کوئی ڈراؤنا منظر نظروں کے سامنے آ گیا۔ آدمی
جب بیدار ہوا تو منظر کی دہشت ناکی اس کے اوپر پوری طرح مسلط ہوتی ہے۔ جس طرح کسی
دہشتناک واقعہ سے بیداری میں دل کی حرکت تیز ہو جاتی ہے۔ اسی طرح خواب میں دہشت
ناک چیز دیکھنے سے دل کی حرکت تیز ہو جاتی ہے۔ یا اچھا خواب دیکھ کر، بیدار ہونے
کے بعد وہ خوش ہوتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
تصوف
کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار
کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا
ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ
محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی
صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس
اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان
ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے
ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند
بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ
صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا
نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے
اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل
کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں
بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت
اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا
علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔