Topics
روحانیت
اور تصوف کے بارے میں لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے، ایک گروہ کا خیال ہے کہ اکثر
صوفیاء چونکہ اون کا لباس پہنتے تھے اس لئے لوگ انہیں صوفی کہتے تھے۔ اون کو عربی
میں صوف کہتے ہیں۔ وہ لوگ یہ لباس اس لئے پہنتے تھے کہ صوف کا لباس پہننا اکثر
نبیوں، ولیوں اور برگزیدہ ہستیوں کا معمول رہا ہے۔ بعض حضرات کے خیال میں اصحاب
صفہ کے ساتھ نسبت رکھنے کی وجہ سے یہ لوگ صوفی کہلاتے ہیں جبکہ ایک طبقہ کا خیال
ہے کہ صوفی صفاء سے مشتق ہے لیکن ان ساری تشریحات سے دل مطمئن نہیں ہوتا۔
تصوف
کے اصطلاحی معانی دراصل ’’نفس کا تزکیہ‘‘ ہے۔ تصوف اس جذبہ اخلاص کا نام ہے جو
ضمیر سے متعلق ہے اور ضمیر نور باطن ہے۔ صوفی اللہ کی معرفت سوچتا ہے۔ اس کی گفتگو
کا محور اللہ ہوتا ہے۔ وہ اللہ کے ساتھ جیتا ہے اور اللہ کے نام کے ساتھ مرتا ہے،
اسی کا کلمہ پڑھتا ہے، اسی کے گن گاتا ہے اور اسی کے عشق میں ڈوبا رہتا ہے۔ اللہ
کو دیکھنے اور اللہ سے ملاقات کے شوق میں اپنا سب کچھ قربان کر دیتا ہے۔
مظاہر
فطرت، سمندر کی طغیانی اور سکون میں، اپنے آگے پیچھے اوپر نیچے۔۔۔صوفی کو ہر طرف
اللہ نظر آتا ہے۔
ہر
دور میں فلسفی موشگافیاں کرتے رہے، جو فلسفی اللہ کی ہستی کے قائل ہیں، وہ اللہ کو
صرف کائنات کا صنعتکار قرار دیتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ مخلوق کا
اللہ سے رابطہ قائم نہیں ہوتا۔ اللہ کسی انسان سے ہم کلام نہیں ہوتا۔
تفکر
کیا جائے تو سائنسداں اور فلاسفہ کے بیان میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے۔ سائنس دان
کہتا ہے کہ اللہ اس لئے نظر نہیں آتا کہ اس کی موجودگی دلیل کی محتاج ہے اور انسان
کے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے اللہ کو دیکھنا تسلیم کر لیا جائے۔
سائنس
کا عقیدہ ہے کہ کائنات حادثاتی مظاہرہ ہے۔ حالانکہ سائنس دان الیکٹرون کو تخلیق کی
اکائی مانتا ہے۔ جو نظر نہیں آتی اور کبھی نظر نہیں آئی۔ سائنس اور فلسفہ کی بنیاد
عقل پر ہے جبکہ لاکھوں سال میں عقل کی کوئی حتمی تعریف نہیں ہو سکی۔ سائنس اور
فلسفہ کے برعکس مذہب کہتا ہے کہ صحیح عقیدہ کی بنیاد وحی اور الہام ہے اور عقل کا
وحی اور الہام میں کوئی دخل نہیں ہے۔
تصوف
کے معنی ہیں صوفی ہونا اور صوفی کا مطلب ہے: ظاہر سے زیادہ باطن کا خیال رکھنے
والا۔ صوفی وہ ہے جو خود کو تنہا کر کے اللہ سے متعلق رہے۔ اس میں اعلیٰ درجہ کا
خلوص اور حقائق کے ادراک کی استعداد ہو۔ صوفی کا یقین ہے کہ اللہ خود اپنا کلام
کسی بندے پر نازل کرتا ہے اور انسان اس سے رابطہ میں ہے۔
قرآن
پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
۱) کسی بشر کی قدرت نہیں کہ
وہ اللہ سے ہمکلام ہو۔ مگر وحی کے ذریعہ یا پردہ کے پیچھے سے۔ یا کسی قاصد کے
ذریعہ۔ یا اللہ جس طرح چاہے۔ (سورۂ شوریٰ آیت نمبر۵۱)
۲) اگر تم پکارو گے تو میں
جواب دوں گا۔
۳) تم مجھ سے مانگو میں
تمہیں دوں گا۔
۴) میں تمہاری رگِ جان سے
زیادہ قریب ہوں۔
۵) میں تمہارے اندر ہوں، تم
دیکھتے کیوں نہیں؟
۶) اگر تم میری اطاعت کرو
گے تو میں اس کی جزا دوں گا اور اگر میری نافرمانی کرو گے تو سزا کے مستحق ہو گے۔
۷) اگر تم مجھ سے محبت کرو
گے تو میں تم سے محبت کروں گا اور اس محبت سے تمہاری شخصیت میں میری صفات کا عکس
نمایاں ہو جائے گا۔ اور میرے قرب سے تم میرا دیدار کر سکو گے۔
جن
لوگوں پر عقل کا غلبہ تھا انہوں نے اطاعت کو کافی سمجھا اور جنت کو اپنا مقصد بنا
لیا۔ لیکن جن لوگوں پر عشق کا غلبہ تھا انہوں نے اطاعت کے علاوہ اللہ کے ساتھ تعلق
اور محبت کو ضروری سمجھا اور اللہ کے دیدار کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔
روحانیت
یا ’’تصوف‘‘ روح انسانی سے واصل ہونے کا جذبہ ہے۔ تصوف اپنی انا کا کھوج لگانے کا
علم ہے۔
.تصوف
من کی دنیا میں ڈوب کر سراغ زندگی پا جانے کا نام ہے۔ علم روحانیت یہ حقیقت آشکار
کرتا ہے کہ ازل میں روح اللہ کو دیکھ چکی ہے، روحیں اللہ کی آواز سننے کے بعد
’’قالو بلیٰ ‘‘ کہہ کر اس کی ربوبیت کا اقرار کر چکی ہیں۔ صوفی کہتا ہے اگر میری
روح اللہ کو نہ جان سکتی تو اللہ مجھے اپنی ذات سے محبت کا حکم نہ دیتا۔ صوفی پر
اسرار و رموز کا انکشاف ہوتا ہے۔ صوفی کے اوپر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ روح ایک ایسی
ہستی سے محبت کرنا چاہتی ہے جو اس کا خالق ہے اور وہ کائنات میں حسین ترین ہستی
ہے۔ صوفی کے یقین میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ اللہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ میری روح
بھی اس سے محبت کرتی ہے۔
روحانی
بندہ اللہ کی تلاش میں ارتکاز توجہ (Concentration) سے استغراق حاصل کر کے حقیقت الحقیقت سے واقف ہو جاتا ہے۔
دانشور
پوچھتے ہیں کہ غیر صوفی کو وہ مشاہدات کیوں نہیں ہوتے جن کا صوفی اعلان کرتا ہے اس
کی وجہ یہ ہے کہ انسان روح سے واصل نہیں ہونا چاہتا۔ اور جب اپنی انا یعنی روح سے
واقف نہیں ہونا چاہتا تو روح کی حقیقت اس کے لئے پردہ بن جاتی ہے۔
انسان
مادی اور دنیاوی علوم کے لئے اپنی ساری توانائی اور مال و دولت خرچ کرتا ہے۔ آدمی
میٹرک پاس ہونے کے لئے 35600گھنٹے اور کثیر سرمایہ خرچ کرتا ہے لیکن روح کا عرفان
حاصل کرنے کے لئے دن، رات میں 20منٹ بھی یکسو نہیں ہوتا۔ اللہ کے پاس جانے کے خیال
سے ہی دنیا دار کے اوپر مردنی چھا جاتی ہے جبکہ اللہ کی ہر نعمت اسے اچھی لگتی ہے۔
ہر
فرد بشر جانتا ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ عام لوگوں کے برعکس اللہ کے دیدار کے
لئے صوفی اس وقت کا شوق سے انتظار کرتا ہے۔
احسان
و تصوف کتاب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بالخصوص امت مسلمہ اور بالعموم نوع انسانی،
اپنی پیدائش، حیات و ممات اور منصبِ خلافت فی الارض کی حقیقت سے واقف ہو جائے اور
یہ بات اس کے علم میں آ جائے کہ کائنات میں ہر مخلوق باشعور ہے لیکن انسان واحد
باشعور مخلوق ہے جو یہ جان لیتی ہے کہ اس کو کس نے پیدا کیا ہے، کیوں پیدا ہوا،
مرنے کے بعد کس دنیا میں چلا جاتا ہے اور اس دنیا کے شب و روز کیا ہیں؟
تصوف
پر ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ہر کتاب تصویر کا ایک نیا رخ پیش کرتی ہے۔ لوگوں
نے تصوف کے اوپر بے پناہ اعتراضات کئے ہیں اور تصوف کی فضیلت میں قصیدہ خوانی بھی
کی گئی ہے۔ تنقید و تعریف کے انبار میں تصوف کو ایک الجھا ہوا مسئلہ سمجھا جانے
لگا۔ کوئی کہتا ہے کہ تصوف دنیا بیزار اور کاہل الوجود لوگوں کا مسلک ہے۔ کسی نے
کہا۔ گدی نشین حضرات کا محبوب مشغلہ ہے اور مریدین سے خدمت لینے کا بہترین ذریعہ
ہے۔کسی نے بتایا کہ یہ مسمریزم، ہپناٹزم اور عامل معمول کا کھیل ہے۔ یہ بھی سننے
میں آیا ہے کہ ’’نظریہ تصوف‘‘ گانے بجانے اور دھمال ڈالنے کا اچھا طریقہ ہے۔
صاحب
قلب و نظر افراد نے پروقار، پر اعتماد اور سچائی کی عظمت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ
قلبی مشاہدات اور روحانی کیفیات کا نام تصوف ہے۔ صوفی کے دل کی ہر دھڑکن اللہ کے
ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کہتے ہیں کہ:
’’یار
دم بدم و بار بار می آید‘‘
اہل
عقل و دانش نے فلسفیانہ استدلال، منطق اور عقلی توجیہات سے تصوف کو اس قدر الجھا
دیا ہے کہ تصوف ایک علم چیستان بن گیا ہے۔
انہوں
نے اس علم کو یہودی، عیسائی، ویدانت اور بدھ ازم کا لباس پہنا دیا ہے۔
قوم
کے ہمدرد اور مخلص حضرات و خواتین نے تصوف کے اعلیٰ ذوق کو اختیار کر کے توکل،
قناعت اور استغناء کی روشن مثالیں قائم کی ہیں۔ انہوں نے عملاً اس بات کا مظاہرہ
کیا کہ تصوف ایک ایسا راستہ ہے جس پر چل کر انسان دنیا اور دین کی بھلائی حاصل کر
لیتا ہے۔
تصوف
کے پیروکار راہب نہیں ہوتے، وہ محنت مزدوری کر کے، حقوق العباد پورے کرتے ہیں اور
شب بیدار ہو کر اللہ کے حضور حاضر ہوتے ہیں۔
میری
دانست میں تصوف کی تعریف یہ ہے کہ:
تصوف
ایک ایسا School of Thoughtہے
جس میں انسان کو انبیاء علیہم السلام کی طرز فکر کے مطابق تعلیم دی جاتی
ہے۔۔۔انسان تعلیم مکمل کر کے جب اس اسکول سے نکلتا ہے تو وہ آدم سے ممتاز ہو کر
انسان بن جاتا ہے۔ اور اس کے اندر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرز
فکر نظر آتی ہے۔ وہ زندگی کے ہر لمحہ میں اللہ کو پکارتا ہے اور اللہ کو دیکھنے
اور اس سے قریب تر ہونے کی آرزو کرتا ہے۔
ارشاد
باری تعالیٰ کے مطابق انسان کی تخلیق کا مقصد خود کو پہچان کر اللہ کا عرفان حاصل
کرتا ہے۔
اللہ
تعالیٰ ہمیں اپنی اصل یعنی روح سے واقف ہونے کی توفیق دے۔ (آمین)
آیئے!
جدوجہد
کریں کہ ہمیں اللہ کا قرب نصیب ہو جائے اور ہم سب اس طرح اللہ سے قریب ہو جائیں جس
طرح اللہ چاہتا ہے۔
خواجہ
شمس الدین عظیمیؔ
خانوادہ
سلسلۂ عظیمیہ
۱۲ ربیع الاول۱۴۲۴
مرکزی
مراقبہ ہال - سرجانی
ٹاؤن، کراچی
خواجہ شمس الدین عظیمی
تصوف
کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار
کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا
ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ
محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی
صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس
اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان
ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے
ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند
بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ
صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا
نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے
اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل
کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں
بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت
اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا
علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔