Topics

سلاسل کی دینی جدوجہد اور نظامِ تربیت

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’میری سنت میں تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے۔‘‘

اپنی مشیئت کے تحت اللہ تعالیٰ نے اچھائی، برائی کا تصور قائم کرنے اور نیکی اور بدی میں امتیاز کرنے کے لئے پیغمبروں کے ذریعے احکامات صادر فرمائے۔ سب پیغمبروں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کر کے نوع انسانی کو بتایا ہے کہ اللہ کے حکم کی تعمیل ہی نجات کا راستہ ہے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں۔ اور دین کی تکمیل ہو چکی ہے۔ اس لئے اللہ کی سنت جاری رکھنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء اولیاء اللہ کی جماعت نے اس بات کا اہتمام کیا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات اور احکامات کا تسلسل قائم رہے۔ ہر زمانے میں اولیاء اللہ خواتین و حضرات نے اس فرض کو پورا کیا اور قیامت تک یہ سلسلہ قائم رہے گا۔

ہندو پاکستان، برما، ملائیشیا، انڈونیشیا، افریقہ، ایران، عراق، عرب، چین اور ہر ملک میں اولیاء اللہ نے تبلیغ کی، اللہ کی مخلوق کی خدمت کی، زمانے کے تقاضوں کے مطابق توحید کی دعوت دی۔

تاریخ کے اوراق گواہ ہیں، اگر شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ ، خواجہ حسن بصریؒ ، حضرت داتا گنج بخشؒ ، شیخ معین الدین چشتی اجمیریؒ ، حضرت بہاؤ الدین زکریاؒ ، بہاؤالحق نقشبندؒ ، لعل شہباز قلندرؒ ، شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ ، قلندر بابا اولیاءؒ اور دوسرے مقتدر اہل باطن صوفیاء اسلام کی آبیاری نہ کرتے تو آج دنیا میں مسلمان اتنی بڑی تعداد میں نہ ہوتے۔ صوفیاء کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نیابت و وراثت کا حق پورا کرنے کے لئے اپنا تن، من، دھن سب قربان کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان مکی خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمایا اور انہیں کامران و کامیاب کیا۔

صوفیاء کرام یقینی طور پر یہ بات جانتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ بندہ اگر کچھ کرتا ہے تو اللہ کے دیئے ہوئے اختیارات و احکامات کے تحت کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:

’’میرا بندہ قرب نوافل کے ذریعے مجھ سے قریب ہو جاتا ہے، وہ مجھے دیکھتا ہے، مجھ سے سنتا ہے اور مجھ سے بولتا ہے۔‘‘
یعنی ایسے بندے کے افعال و اعمال اللہ کے تابع ہو جاتے ہیں۔

دو سو سلاسل:

دنیا میں تقریباً دو سو سلاسل ہیں۔ جو شریعت و طریقت کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے عرفان ذات، تسخیر کائنات کے فارمولوں اور پیغمبرانہ طرز فکر کی تعلیم دیتے ہیں۔

ان سلسلوں کی قائم کردہ روحانی درسگاہوں میں سالک کی تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اوپر اللہ کو محیط دیکھ لے، سالک اللہ سے محبت کرتا ہے، اللہ کے پسندیدہ کام ڈر کر اور خوفزدہ ہو کر نہیں بلکہ اللہ کی محبت میں اس لئے کرتا ہے کہ اللہ مجھ سے خوش ہو جائے۔ اللہ کے ناپسندیدہ اعمال سے اس لئے اجتناب کرتا ہے کہ اللہ میرا کفیل ہے، میرا محافظ ہے اور میرا خالق ہے۔

قیام صلوٰۃ، عبادات اور مراقبوں کے ذریعہ اللہ کو اپنے اندر ڈھونڈتا ہے۔ سالک کی زندگی کا مقصد اللہ کا دیدار اور اللہ سے ہمکلامی ہے۔ سلسلہ کے اسباق پر مداومت کر کے اور مرشد کریم کی نسبت و محبت سے یہ عمل اس کا یقین بن جاتا ہے کہ میں اللہ کے پاس سے آیا ہوں اور مجھے اللہ کے پاس جانا ہے۔ خدمت خلق اور عفو و درگذر اس کی زندگی کا نصب العین بن جاتے ہیں۔

برصغیر میں جو سلاسل مشہور ہیں ان کے علاوہ اور بھی کئی سلسلے ہیں جو ساری دنیا میں رشد و ہدایت اور ماورائی علوم کی تعلیم دیتے ہیں۔ مثلاً

* سلسلہ قادریہ * سلسلہ جنیدیہ * سلسلہ کبرویہ

* سلسلہ فردوسیہ * سلسلہ چشتیہ * سلسلہ شطاریہ

ٍ * سلسلہ سہروردیہ * سلسلہ نقشبندیہ * سلسلہ عظیمیہ

سلاسل کی معلوم تعداد دو سو بتائی جاتی ہے۔

* سلسلہ قادریہ:

امام سلسلہ قادریہ پیران پیر سید عبدالقادر جیلانیؒ کو حضرت علی مرتضیٰؓ اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے براہ راست فیض ملا۔ ۴۷۰ ہجری کو قصبہ گیلان میں پیدا ہوئے۔ اسم گرامی عبدالقادر اور محی الدین لقب ہے۔

سلسلہ قادریہ آپ کے نام عبدالقادر سے منسوب ہے۔ آپ کا شجرہ نسب سیدنا امام حسینؓ بن امیر المومنین علی ابن ابی طالبؓ سے ملتا ہے۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا روحانی شجرہ شیخ حماد الیاسؒ اور ابوسعید المبارکؒ سے حضرت حسن بصریؒ ، حضرت علیؓ اور رحمت اللعالمین سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچتا ہے۔

ریاضت و عبادت اور مشکل و کٹھن مراحل سے گزرنے کے ساتھ یہ بھی ہوا کہ شیخ ابو سعید مبارک صبح کے وقت ایک کوٹھے میں بند کر دیتے تھے اور اگلے روز عصر کے وقت کمرہ سے باہر نکالتے تھے۔ کچھ عرصہ تک حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کمرہ سے آنے کے بعد احتجاج کرتے غصہ کرتے اور کہتے مجھے کیوں قید کیا ہوا ہے۔ لیکن جب مرشد فرماتے عبدالقادر کمرہ میں چلو باہر رہنے کا وقت پورا ہو گیا تو خاموشی کے ساتھ کوٹھے میں چلے جاتے تھے۔ مزاحمت نہیں کرتے تھے۔ یہ ریاضت مسلسل تین سال تک جاری رہی۔
اس ہی طرح کے واقعات حضرت ابوبکر شبلیؒ اور امام غزالیؒ کی ریاضت و عبادات کے ہیں۔

ابوبکرشبلیؒ:

صوفیاء کے سرخیل حضرت جنید بغدادیؒ سے جب بغداد کے گورنر ابوبکر شبلی نے اہل تصوف کے گروہ میں داخل ہونے کی درخواست کی تو حضرت جنید نے فرمایا کہ آپ تصوف کے تقاضوں کو پورا کر سکیں گے۔ ابوبکر شبلی نے کہا میں اس کے لئے تیار ہوں۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا کیونکہ تم بغداد کے گورنر رہ چکے ہو اور اس گورنری کا تکبر تمہارے اندر موجود ہے۔ جب تک یہ تکبر نہیں نکل جاتا تم تصوف کے علوم نہیں سیکھ سکتے۔ اور اس تکبر کو ختم کرنے کا پہلا سبق یہ ہے کہ تمہیں بغداد کی گلیوں میں بھیک مانگنا پڑے گی اور پھر اہل بغداد نے دیکھا کہ شبلی نے بغداد کی گلیوں میں بھیک مانگی۔

امام غزالیؒ:

امام غزالیؒ اپنے زمانے کے یکتائے روزگار تھے۔ بڑے بڑے جید علماء ان کے علوم سے استفادہ کرتے تھے۔ بیٹھے بیٹھے ان کو خیال آیا کہ خانقاہی نظام دیکھنا چاہئے کہ یہ لوگ کیا پڑھاتے ہیں۔ پھر وہ اس تلاش و جستجو میں سات سال تک مصروف رہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے دور دراز کا سفر بھی کیا۔ بالآخر مایوس ہو کر بیٹھ گئے۔ کسی نے پوچھا۔ ’’آپ ابوبکر سے بھی ملے ہیں؟‘‘
امام غزالیؒ نے فرمایا کہ: میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں۔ جو فقراء نے اپنے بارے میں مشہور کر رکھی ہیں۔ لیکن پھر وہ حضرت ابوبکر شبلی سے ملاقات کے لئے عازم سفر ہو گئے جس وقت وہ سفر کے لئے روانہ ہوئے۔ اس وقت ان کا لباس اور سواری میں گھوڑے اور زین کی قیمت ہزار اشرفی تھیں۔ شاہانہ زندگی بسر کرنے والے امام غزالی منزلیں طے کر کے ابوبکر شبلی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ایک مسجد میں بیٹھے ہوئے گڈری سی رہے تھے۔ امام غزالی حضرت ابوبکرشبلی کی پشت کی جانب کھڑے ہو گئے۔ حضرت ابوبکرشبلیؒ نےپیچھے مڑ کر دیکھے بغیر فرمایا کہ:

’’غزالی تو آ گیا۔۔۔۔۔۔تو نے بہت وقت ضائع کر دیا۔ میری بات غور سے سن! شریعت میں علم پہلے اور عمل بعد میں ہے۔ طریقت میں عمل پہلے اور علم بعد میں ہے۔ اگر تُو قائم ہو سکتا ہے تو میرے پاس قیام کر ورنہ واپس چلا جا۔‘‘

امام غزالیؒ نے ایک منٹ توقف کیا اور کہا میں آپ کے پاس قیام کروں گا۔ حضرت ابو بکر شبلیؒ نے فرمایا کہ سامنے کونے میں جا کر کھڑے ہو جاؤ۔ امام غزالی مسجد کے کونے میں جا کر کھڑے ہو گئے کچھ دیر بعد ابوبکر شبلی نے بلایا اور دعا سلام کے بعد اپنے گھر لے گئے۔

تین سال کی سخت ریاضت کے بعد امام غزالیؒ جب بغداد واپس پہنچے تو ان کے استقبال کے لئے پورا شہر اُمنڈ آیا۔ لوگوں نے جب ان کو صاف ستھرے عام لباس میں دیکھا تو پریشان ہو گئے۔ انہوں نے کہا: ’’امام! شان و شوکت چھوڑ کر تم کو کیا ملا ہے؟‘‘
امام غزالیؒ نے فرمایا کہ:

’’اللہ کی قسم! اگر میرے اوپر یہ وقت نہ آتا اور میرے اندر سے بہت بڑا عالم ہونے کا زعم ختم نہ ہوتا تو میری زندگی برباد ہو جاتی۔‘‘

سلسلہ قادریہ میں درود شریف زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ ذکر خفی اور ذکر جلی دونوں اشغال کثرت سے کئے جاتے ہیں۔ حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ نے آفاقی قوانین کے راز ہائے سربستہ کا انکشاف فرمایا ہے۔ قدرت کے قوانین کے استعمال کا ایسا طریقہ پیش کیا ہے اور ان قوانین کو سمجھنے کی ایسی راہ متعین فرمائی جہاں سائنس ابھی تک نہیں پہنچ سکی۔
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے بتایا کہ زمین و آسمان کا وجود اس روشنی پر قائم ہے جس کو اللہ تعالیٰ کا نور فیڈ کرتا ہے۔ اگر نوع انسانی کا ذہن مادے سے ہٹ کر اس روشنی پر مرکوز ہو جائے تو انسان یہ سمجھنے کے قابل ہو جائے گا کہ اس کے اندر عظیم الشان ماورائی صلاحیتیں ذخیرہ کر دی گئی ہیں۔ جن کو استعمال کر کے نہ صرف یہ کہ وہ زمین پر پھیلی ہوئی اشیاء کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا سکتا ہے بلکہ ان کے اندر کام کرنے والی قوتوں اور لہروں کو حسب منشاء استعمال کر سکتا ہے۔ پوری کائنات اس کے سامنے ایک نقطہ بن کر آ جاتی ہے اس مقام پر انسان مادی وسائل کا محتاج نہیں رہتا۔ وسائل اس کے سامنے سر بسجود ہو جاتے ہیں۔ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نظام تکوین میں ممثل کے درجے پر فائز ہیں اور نظامت کے امور میں سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وزیر حضوری ہیں۔

رجال الغیب اور تکوینی امور میں خواتین و حضرات کا بڑے پیر صاحبؒ سے ہر وقت واسطہ رہتا ہے۔

حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے دربار اقدس میں بڑے پیر صاحبؒ کا یہ مقام ے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آج تک ان کی کوئی درخواست نامنظور نہیں فرمائی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بڑے پیر صاحبؒ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے اتنے مزاج شناس ہیں کہ وہ ایسی کوئی بات کرتے ہی نہیں جو حضورﷺ کی طبیعت اور مزاج مبارک کے خلاف ہو۔ سیدنا شیخ عبدالقادر پیران پیر دستگیرؒ کی تمام کرامات کو مختصر سے وقت میں سمیٹ لینا ممکن نہیں ہے۔

تین کرامات سائنسی توجیہہ کے ساتھ ہدیۂ قارئین ہیں۔

جنس کی تبدیلی:

ایک شخص نے آپؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا۔ ’’یا شیخ! میں فرزند ارجمند کا خواستگار ہوں۔‘‘

شیخ نے فرمایا:

’’میں نے دعا کی ہے اللہ تمہیں فرزند عطا کرے گا۔‘‘

اس کے ہاں لڑکے کے بجائے لڑکی پیدا ہوئی تو وہ لڑکی کو لے کر حضرت کی خدمت میں حاضرہوا۔
شیخ نے فرمایا:

’’اس کو کپڑے میں لپیٹ کر گھر لے جا اور دیکھ پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔‘‘

گھر جا کر دیکھا تو لڑکی لڑکا بن گیا تھا۔ اس کرامت کی علمی توجیہہ یہ ہے۔

عورت اور مرد کی تخلیق:

قرآن پاک میں ارشاد ہے:

’’اور ہم نے تخلیق کیا ہر چیز کو جوڑے دوہرے۔‘‘

Equationیہ ہے کہ ہر فرد دو پرت سے مرکب ہے۔ ایک پرت ظاہر اور غالب رہتا ہے اور دوسرا پرت مغلوب اور چھپا ہوا رہتا ہے۔ عورت بھی دو رخ سے مرکب ہے اور مرد بھی دو رخ سے مرکب ہے۔ عورت میں ظاہر رخ وہ ہے جو صنف لطیف کے خدوخال میں نظر آتا ہے اور باطن رخ وہ ہے جو ظاہر آنکھوں سے مخفی ہے۔ اسی طرح مرد کا ظاہر رخ وہ ہے جو مرد کے خدوخال میں نظر آتا ہے اور باطن رخ وہ ہے جو ہمیں نظر نہیں آتا۔ اس کی تشریح یہ ہوئی کہ مرد بحیثیت مرد کے جو نظر آتا ہے وہ اس کا ظاہر رخ ہے عورت بحیثیت عورت کے جو نظر آتی ہے وہ اس کا ظاہر رخ ہے۔ Equationیہ بنی کہ مرد کے ظاہر رخ کا متضاد باطن رخ عورت، مرد کے ساتھ لپٹا ہوا ہے اور عورت کے ظاہر رخ کے ساتھ اس کا متضاد باطن رخ مرد چپکا ہوا ہے۔

جنسی تبدیلی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ باطن رخ میں اس طرح تبدیلی واقع ہو جاتی ہے کہ مرد کے اندر اس کا باطن رخ عورت غالب ہو جاتا ہے اور ظاہر رخ مغلوب ہو جاتا ہے۔ نتیجہ میں کوئی مرد عورت بن جاتی ہے اور کوئی عورت مرد بن جاتا ہے۔

صاحب بصیرت اور صاحب تصرف بزرگ چونکہ اس قانون کو جانتے ہیں اس لئے تخلیقی فارمولے میں رد و بدل کر سکتے ہیں۔ وزیر حضوری پیران پیر دستگیر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کو کائنات میں جاری و ساری تخلیقی قوانین کا علم حاصل ہے۔ انہوں نے تصرف کر کے لڑکی کے اندر باطن رخ مرد کو غالب کر دیا اور وہ لڑکی سے لڑکا بن گیا۔

عیسائی اور مسلمان:

ایک روز حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ایک محلہ سے گزرے وہاں ایک عیسائی اور ایک مسلمان دست و گریبان تھے۔ پوچھا۔

’’کیوں لڑ رہے ہو؟‘‘

مسلمان نے کہا:

’’یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے افضل ہیں اور میں کہتا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سب سے افضل ہیں۔‘‘

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے عیسائی سے دریافت کیا:

’’تم کس دلیل کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر فضیلت دیتے ہو؟‘‘
عیسائی نے کہا:

’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کر دیتے تھے۔‘‘

بڑے پیر صاحبؒ نے فرمایا:

’’میں نبی نہیں ہوں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا غلام ہوں۔ اگر میں مردہ زندہ کر دوں تو تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لے آؤ گے؟‘‘

عیسائی نے کہا:

’’بے شک میں مسلمان ہو جاؤں گا۔‘‘

اس کے بعد حضرت عبدالقادر جیلانیؒ نے فرمایا۔۔۔مجھے کوئی پرانی قبر دکھاؤ۔

عیسائی، حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کو پرانے قبرستان میں لے گیا اور ایک پرانی قبر کی طرف اشارہ کر کے کہا:

’’اس قبر کے مردہ کو زندہ کرو۔‘‘

حضرت غوث پاکؒ نے فرمایا:

’’قبر میں موجود یہ شخص دنیا میں موسیقار تھا۔ اگر تم چاہو تو یہ قبر میں سے گاتا ہوا باہر نکلے گا۔‘‘عیسائی نے کہا:

’’ہاں میں یہی چاہتا ہوں۔‘‘

حضرت شیخؒ قبر کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

’’قم باذن اللہ‘‘

قبر پھٹ گئی اور مردہ گاتا ہوا قبر سے باہر آ گیا اور عیسائی حضرت شیخؒ کی یہ کرامت دیکھ کر مسلمان ہو گیا۔

علمی توجیہہ:

اس کرامت کی علمی توجیہہ یہ ہے کہ ہم جسے آدمی کہتے ہیں وہ گوشت پوست کے پنجرہ سے بنا ہوا پتلا ہے اس پتلے کی حیثیت اسی وقت تک برقرار ہے جب تک کہ پتلے کے اندر روح ہے۔ روح نکل جائے تو ہم اس کو زندہ آدمی نہیں کہتے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی سے بنایا اور اس میں اپنی روح پھونک دی۔‘‘

روح اللہ کا امر ہے۔

سورۃ یٰسین میں اللہ تعالیٰ نے امر رب کی تعریف یہ فرمائی ہے:

’’اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔‘‘ اس کی Equationیہ بنی۔۔۔۔۔۔آدمی پتلا ہے، پتلا خلاء ہے۔۔۔۔۔۔خلاء میں روح ہے، روح امر رب ہے اور امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ اور وہ چیز مظہر بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ کو روح اور تخلیقی فارمولوں کا علم عطا کیا ہے۔ حضرت شیخؒ نے اسرار و رموز الٰہیہ کے اس فارمولے کے مطابق جب فرمایا:

قم باذن اللہ

تو مردہ قبر سے باہر نکل آیا۔

لوح محفوظ پر تبدیلی:

ایک ولی سے ولایت چھن گئی جس کی وجہ سے لوگ اسے مردود کہنے لگے۔ بے شمار اولیاء اللہ نے اس کا نام لوح محفوظ پر اشقیاء کی فہرست میں لکھا ہوا دیکھا۔ وہ بندہ نہایت سراسیمگی اور مایوسی کے عالم میں پیران پیر دستگیرؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور رو رو کر اپنی کیفیت بیان کی۔ حضرت غوث پاکؒ نے اس کے لئے دعا کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی:’’اسے میں نے تمہارے سپرد کیا، جو چاہے کرو۔‘‘

آپؒ نے اسے سر دھونے کا حکم دیا اور اس کا نام بدبختوں کی فہرست سے دھل گیا۔

اس کرامت کی توجیہہ یہ ہے:

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کو سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وراثتاً علوم اور اختیارات منتقل ہوئے ہیں۔ یہ علوم اور اختیارات ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض ہوتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میں اپنے بندے کو دوست رکھتا ہوں اور میں اس کے کان آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں، پھر وہ میرے ذریعے سنتا ہے، میرے ذریعے بولتا ہے اور میرے ذریعے چیزیں پکڑتا ہے۔‘‘

شیخ عبدالقادر جیلانیؒ علم لدنی کے حامل بندے ہیں جب انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی تو اس کا نام اشقیاء کی فہرست سے نکل کر سعید روحوں میں درج ہو گیا۔

ماہ ربیع الثانی ۵۶۱ ھ کے شروع میں شیخ عبدالقادرجیلانیؒ سخت علیل ہو گئے اور ۹ ربیع الثانی کو نوے سال سات ماہ کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ دوران علالت صاحبزادہ کو نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی سے امید نہ رکھنا، تقویٰ اور عبادت کو شعار بنانا، توحید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا اور اللہ کے سوا کسی اور پر بھروسہ نہ کرنا۔

 سلسلہ چشتیہ:

سلسلہ چشتیہ میں کلمہ شہادت پڑھتے وقت ’’الا اللہ‘‘ پر زور دیا جاتا ہے بلکہ سلسلہ کے اراکین الا اللہ کے الفاظ کو ادا کرتے وقت سر اور جسم کے بالائی حصے کو ہلاتے ہیں اور ان حضرات پر سماع کے وقت ایک وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ سلسلہ چشتیہ کے امام حضرت ممشاد دینوریؒ ہیں۔ اور ہندوستان میں یہ سلسلہ حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ خواجہ غریب نواز کے ذریعے خوب پھیلا اور مقبول ہوا۔

حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ :

حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ ، غریب نواز کی ولادت سنجر صوبہ سیستان ایران میں ہوئی۔ تاریخ ولادت ۱۱۴۱ء ہے۔ سلجوقیہ خاندان کے حکمران سلطان سنجر نے گیارہویں صدی عیسوی میں اس شہر کو آباد کیا تھا۔ خواجہ غریب نواز کے والد بزرگوار کا اسم گرامی سید غیاث الدین اور والدہ کا نام ماہ نور تھا۔

حضرت خواجہ غریب نواز کی عمر تیرہ برس کی تھی جو حسن بن صباح کے فدائیوں نے سنجر پر حملہ کر کے اسے تاراج کر دیا۔۔۔۔۔۔نامور علماء اور مشائخ کو چن چن کر قتل کر دیا گیا۔ خواجہ غریب نواز کے والد خاندان کے افراد کے ساتھ خراسان میں نیشاپور منتقل ہو گئے۔ سفر کی سختی اور مصائب و آلام نے سید غیاث الدین کی صحت پر برا اثر ڈالا۔

حالات اور صحت کی خرابی کی وجہ سے دو سال میں ان کا انتقال ہو گیا اور ایک سال کے بعد والدہ ماجدہ ماہ نور بھی اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ خواجہ غریب نواز ان لگاتار حوادث اور صدموں کی وجہ سے زیادہ وقت خاموش رہنے لگے۔

ایک روز ایک درویش ابراہیم قندوزی تشریف لائے۔ خواجہ معین الدین چشتیؒ نے انہیں سائے میں بٹھایا۔ درویش بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے اپنے تھیلے سے کھلی کا ایک ٹکڑا نکالا، دانتوں سے چبایا اور خواجہ صاحبؒ کو دے دیا۔ آپؒ نے بلا تکلف کھلی کا ٹکڑا کھا لیا۔

سترہ سال کی عمر میں آپ نے سمرقند کے عالم دین مولانا حسام الدین بخاری کی شاگردی اختیار کی اور دو سال تک ان سے تفسیر، حدیث فقہ کے علوم پڑھے۔ ۲۰ سال کی عمر میں ریاضی فلکیات اور علم طب میں مہارت حاصل کی۔

حضرت خواجہ ممشاد دینوریؒ :

حضرت خواجہ ممشاد دینوریؒ نے اپنے شاگرد حضرت ابو اسحاقؒ کو وسط ایشیائی ریاستوں میں تبلیغ کے لئے بھیجا۔ ان ریاستوں میں آتش پرست بہت بڑی تعداد میں رہتے تھے۔

امام سلسلہ حضرت ممشاد دینوریؒ نے رخصت کے وقت سلسلہ کی اجازت و خلافت عطا کی اور اس نئے سلسلے کا نام چشتیہ رکھا۔

لفظ چشتی نے آتش پرستوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کر لیا اور تبلیغ اسلام کے لئے حضرت ممشاد دینوریؒ کی حکمت سے بہت فائدہ ہوا۔ چشتیہ بزرگوں کی جدوجہد سے بے شمار آتش پرست مسلمان ہو گئے چونکہ چشتی کے لفظ سے آتش پرست بخوبی واقف تھے اس لئے انہوں نے ان بزرگوں کو اپنے لئے اجنبی محسوس نہیں کیا۔

چشتیہ سلسلہ کے بزرگوں نے خدمت، اخلاق اور سخاوت کے ذریعہ لوگوں کو اپنے قریب کر لیا اور ان تک اسلام کی روشنی پھیلائی۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ جب سلسلہ چشتیہ کے بزرگ خواجہ عثمان ہارونیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت آپ کی عمر ۱۸ برس تھی۔ خواجہ عثمان ہارونیؒ نے بیعت کرنے کے بعد آپ کو خانقاہ میں پانی بھرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔

دن مہینوں اور مہینے سالوں میں بدلتے رہے۔ کم و بیش ۲۲ سال خواجہ صاحب یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ جب خواجہ معین الدینؒ کی عمر ۴۰ سال ہوئی تو ایک روز حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ نے آپ کو بلایا اور پوچھا۔ ’’تمہارا کیا نام ہے؟‘‘

خواجہ صاحب نے عرض کی۔ حضور اس خادم کا نام معین الدین ہے۔

معین الدین چشتیؒ اپنی تصنیف ’’انیس الارواح‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:

’’مرشد کریم نے ارشاد فرمایا۔ دو رکعت نماز ادا کرو۔ میں نے ادا کی۔ پھر فرمایا قبلہ رو بیٹھ جا۔ میں بیٹھ گیا۔ حکم دیا! سورۃ بقرہ پڑھ۔ میں نے پڑھی۔ فرمان ہوا کہ اکیس مرتبہ درود شریف پڑھ۔ میں نے پڑھا۔ پھر مرشد کریم کھڑے ہو گئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر آسمان کی جانب منہ کر کے فرمایا۔ تجھے خدا سے ملا دوں۔ پھر فرمایا۔ آسمان کی طرف دیکھ۔ میں نے دیکھا۔ پوچھا کہاں تک دیکھتا ہے۔ عرض کیا، عرش اعظم تک۔ فرمایا زمین کی طرف دیکھ۔ میں نے دیکھا۔ دریافت فرمایا کہاں تک دیکھتا ہے۔ عرض کیا تحت الثریٰ تک۔ پھر فرمایا سورہ اخلاص پڑھ۔ میں نے پڑھی۔ فرمایا۔ آسمان کی طرف دیکھ۔ میں نے دیکھا۔ پوچھا اب کہاں تک دیکھتا ہے۔

عرض کیا۔ حجاب عظمت تک۔ فرمایا آنکھیں بند کر۔ میں نے بند کر لیں۔ فرمایا کھول۔ میں نے کھول دیں۔ پھر مجھے اپنی دو انگلیاں دکھا کر پوچھا کیا دیکھتا ہے؟۔۔۔میں نے عرض کیا۔ مجھے اٹھارہ ہزار عالمین نظر آ رہے ہیں۔ پھر سامنے پڑی ہوئی اینٹ اٹھانے کا حکم دیا۔۔۔میں نے اینٹ اٹھائی تو مٹھی بھر دینار برآمد ہوئے۔۔۔فرمایا۔ یہ فقراء میں تقسیم کر دے۔۔۔میں نے دینار تقسیم کر دیئے۔‘‘
خواجہ غریب نوازؒ فرماتے ہیں:

’’رخصت کرتے وقت مرشد کریم نے مجھے اپنے سینہ سے لگایا۔ سر اور آنکھوں کو بوسہ دیا اور فرمایا تجھے خدا کے سپرد کیا۔ اور عالم تحیر میں مشغول ہو گئے۔‘‘

سلسلۂ چشتیہ کی خدمات:

حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے اپنے مرشد کریم سے رخصت ہونے کے بعد مختلف شہروں اور ملکوں سے ہوتے ہوئے حرم شریف کا سفر اختیار کیا۔ راستہ میں اصفہان شہر میں خواجہ بختیار کاکیؒ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بیعت کی درخواست کی۔

جو خواجہ غریب نوازؒ نے قبول فرمائی۔ دونوں حضرات مکہ معظمہ پہنچے اور حج کیا پھر مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ مسجد نبوی میں آپ مسلسل مراقبہ اور مشاہدہ میں مشغول رہے۔ ایک روز آپ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت ہوئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

’’اے معین الدینؒ تو میرے دین کا معین ہے۔ میں نے ولایت ہندوستان تجھے عطا کی۔ وہاں کفر و ظلمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیر چلا جا۔ تیرے وجود سے ظلمت کفر دور ہو گی اور اسلام رونق افروز ہو گا۔‘‘

دربار رسالتﷺ کی اس بشارت سے خواجہ غریب نوازؒ پر وجدانی کیفیت طاری ہو گئی۔ اجمیر کے بارے میں آپؒ کچھ نہیں جانتے تھے کہ اجمیر کس ملک میں ہے؟ میں وہاں کیسے پہنچوں؟ سفر کے لئے کون سا راستہ اختیار کروں۔ اس ہی سوچ میں آنکھ لگ گئی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اجمیر کے بارے میں باخبر کیا۔

اجمیر کے ارد گرد قلع وکوہستان بھی دکھائے اسی خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خواجہ معین الدینؒ کو جنت کا ایک انار عطا فرمایا اور آپ کو سفر کے لئے رخصت کر دیا۔

فوراً آپؒ نے سفر کی تیاری شروع کر دی۔ ۱۱۸۹ ؁ء میں آپ مدینہ منورہ سے بغداد پہنچے کچھ عرصہ قیام کر کے افغانستان کے راستے لاہور پہنچے اور لاہور میں حضرت سید علی ہجویریؒ کے مزار پر چالیس روز مراقبہ میں مشغول رہے۔

راگ اور سُر:

لاہور سے ملتان تشریف لائے۔ خواجہ صاحب نے ملتان میں تقریباً پانچ سال قیام فرمایا۔ ملتان میں سنسکرت اور دیگر مقامی زبانیں سیکھیں۔ ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کیا، وہاں کی ثقافت کا جائزہ لیا۔ مذہب اور عقائد کو گہری نظر سے دیکھا۔ ہندوؤں میں موسیقی کی مذہبی اہمیت کو سمجھتے ہوئے آپ نے راگ اور سُر کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور ساز بجانا سیکھا پھر اجمیر کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس وقت اجمیر کا فرماں رواں پرتھوی راج تھا۔

خواجہ غریب نواز اپنے دوستوں کے ساتھ ایک ہرے بھرے علاقے میں ٹھہر گئے لیکن مقامی حکام نے آپ کو اس جگہ ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے کہا یہ جگہ راجہ کے اونٹوں کے لئے مخصوص ہے۔ خواجہ غریب نوازؒ نے فرمایا۔ ’’اچھا اونٹ بیٹھتے ہیں تو بیٹھیں۔‘‘ اس کے بعد آپ نے اناساگر کے کنارے ایک جگہ کو منتخب فرمایا۔

شام کے وقت اونٹ آکر میدان میں بیٹھ گئے لیکن اگلے دن صبح اونٹ بیٹھے ہی رہے۔ بہت کوشش کر کے انہیں اٹھایا گیا لیکن وہ نہیں اٹھے۔ داروغہ نے اس واقعہ کی اطلاع اپنے افسران کو پہنچائی۔ ان لوگوں نے بھی کوشش کی لیکن اونٹ نہیں اٹھے۔ بالآخر یہ معاملہ پرتھوی راج تک پہنچ گیا۔ اسے بھی حیرت ہوئی جب اسے پتہ چلا کہ کوئی مسلمان سادھو یہاں آئے تھے اور انہوں نے اس جگہ کو اپنے قیام کے لئے منتخب کیا تھا تو راجہ نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ جا کر اس سادھو فقیر سے معافی مانگو۔ سپاہی حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معافی کے خواستگار ہوئے۔ خواجہ غریب نوازؒ مسکرائے اور ازراہ شفقت گردن کے اشارے سے معاف کر دیا۔ سپاہی اس جگہ پہنچے تو دیکھا کہ اونٹ کھڑے تھے۔ مندر کے پنڈت یہ کرامت دیکھ کر خواجہ غریب نوازؒ کے گرویدہ ہو گئے۔ ان پنڈتوں اور سادھوؤں میں سے جو افراد تلاش حق کا جذبہ رکھتے تھے ان میں سے شادی دیو اور راجے پال نے اسلام قبول کر لیا۔

لفظ اجمیر۔۔۔آجا۔ میر، سے بنا ہے۔ آ جا سورج کو اور میر پہاڑ کو کہتے ہیں۔

اندر کی آنکھ:

ایک سادھو خواجہ غریب نوازؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سادھو گیان دھیان سے اس مقام پر پہنچ گیا تھا کہ جہاں نظر آئینہ ہو جاتی ہے۔ مقابل آدمی ایسا نظر آتا ہے جیسے ٹیلی ویژن کی اسکرین پر تصویر نظر آتی ہے۔

سادھو نے مراقبہ کیا۔ اس نے دیکھا کہ خواجہ صاحبؒ کا سارا جسم بقعۂ نور ہے لیکن دل میں ایک سیاہ دھبہ ہے۔ سادھو نے جب خواجہ صاحب سے مراقبہ کی کیفیت بیان کی تو خواجہ غریب نوازؒ نے فرمایا۔ تو سچ کہتا ہے۔

سادھو یہ سن کر حیرت کے دریا میں ڈوب گیا اور کہا چاند کی طرح روشن آتما پر یہ دھبہ اچھا نہیں لگتا۔ کیا میری شکتی سے یہ دھبہ دور ہو سکتا ہے؟

خواجہ غریب نوازؒ نے فرمایا۔ ’’ہاں‘‘ تو چاہے تو یہ سیاہی دھل سکتی ہے۔

سادھو نے بھیگی آنکھوں اور کپکپائے ہونٹوں سے عرض کیا۔

’’میری زندگی آپ کی نذر ہے۔‘‘

خواجہ صاحب نے فرمایا:

’’اگر تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لے آئے تو یہ دھبہ ختم ہو جائے گا۔ سادھو کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی لیکن چونکہ وہ اپنے اندر سے مٹی کی کثافت دھو چکا تھا اس لئے وہ اللہ کے دوست محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان لے آیا۔ خواجہ صاحب نے فرمایا۔ ’’آتما کی آنکھ سے اندر دیکھ۔‘‘ سادھو نے دیکھا تو روشن دل سیاہ دھبے سے پاک تھا۔

سادھو نے خواجہ غریب نوازؒ کے آگے ہاتھ جوڑ کر بنتی کی۔ مہاراج اس انہونی بات پر سے پردہ اٹھایئے۔ خواجہ اجمیریؒ نے فرمایا۔ ’’وہ روشن آدمی جس کے دل پر تو نے سیاہ دھبہ دیکھا تھا تو خود تھا۔ لیکن اتنی شکتی کے بعد بھی تجھے روحانی علم حاصل نہیں ہوا۔‘‘ وہ علم یہ ہے کہ آدمی کا دل آئینہ ہے اور ہر دوسرے آدمی کے آئینے میں اسے اپنا عکس نظر آتا ہے تو نے جب اپنی روشن آتما میرے اندر دیکھی تو تجھے اپنا عکس نظر آیا۔ تیرا ایمان حضرت محمد رسول اللہﷺ کی رسالت پر نہیں تھا اس لئے تیرے دل پر سیاہ دھبہ تھا اور جب تو نے کلمہ پڑھ لیا تو تجھے میرے آئینے میں اپنا عکس روشن نظر آیا۔

تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مشائخ چشت کی خانقاہیں اسلامی جدوجہد کا مرکز بنی رہیں۔ یہ خانقاہیں تقویٰ، دین، خدمت خلق، توکل اور روحانی علوم حاصل کرنے کی یونیورسٹیاں تھیں۔ ان خانقاہوں میں طالب علم کو ایسی فضا اور ایسا ماحول میسر آ جاتا تھا کہ وہاں تزکیۂ باطن اور تہذیب نفس کیلئے خود بخود انسانی ذہن متوجہ ہو جاتا تھا۔

حصول علم کا مرکز حضرت بابا فرید گنج شکرؒ تھے۔ لیکن اس تعلیم کو حسن و خوبی اور منظم جدوجہد کے تحت حضرت بابا نظام الدین اولیاءؒ نے معراج کمال تک پہنچا دیا۔ پچاس سال تک یہ خانقاہیں ارشاد و تلقین کا مرکز بنی رہیں۔ مُلک مُلک سے لوگ پروانہ وار آتے تھے۔ اور ان کی خدمت میں حاضر باش ہر کر عشق الٰہی اور دین اسلام کو لوگوں تک پہنچانے کا جذبہ لے کر رخصت ہوتے تھے۔ ان خانقاہوں کا دروازہ امیر و غریب، شہری، دیہاتی، بوڑھے جوان اور بچوں کے لئے ہر وقت کھلا رہتا تھا۔

حضرت نظام الدین اولیاء نے بیعت کو عام کردیا تھا ۔ جب متلاشیان ِحق ان کے ہاتھ پر توبہ کرتے تھے تو ان کو خرقہ پہناتے  اور ان کی تعظیم کرتے تھے۔

حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے اپنے جلیل القدر خلیفہ برہان الدین کو چار سو ساتھیوں کے ساتھ تعلیم کے لئے دکن روانہ کیا۔خلیفہ برہان الدین نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر دکن کو اسلامی، دینی اور روحانی علوم سے فیضیاب کیا۔

* سلسلہ سہروردیہ:

سلسلہ سہروردیہ شیخ عبدالقاہر سہروردیؒ سے منسوب ہے۔ اس سلسلے کے خانوادے حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ اور حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ ہیں۔ سلسلہ میں تین سال کے مجاہدات کے بعد مرشد دیکھتا ہے کہ قلب کے اندر کتنی سکت پیدا ہوئی اور تزکیہ نفس میں کیا مقام حاصل ہوا ہے۔ تزکیہ نفس اور قلب مصفیٰ اور مجلیٰ ہونے کے بعد فیض منتقل کیا جاتا ہے۔ سلسلہ سہروردیہ میں سانس بند کر کے اللہ ھو کا ورد کرایا جاتا ہے اور ذکر جلی اور خفی دونوں کرائے جاتے ہیں۔

بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ :

حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا قریشی تھے۔ ان کے جد امجد کمال الدین علی شاہ تھے۔ کمال الدین شاہ مکہ معظمہ سے خوارزم آئے اور مکہ معظمہ سے رخصت ہو کر ملتان میں سکونت اختیار کی۔ کمال الدین علی شاہ کے بیٹے کا نام وجیہہ الدین محمد تھا۔ وجیہہ الدین محمد کی شادی مولانا حسام الدین ترمذی کی بیٹی سے ہوئی۔ شیخ بہاؤالدین زکریاؒ مولانا وجیہہ الدین کے بیٹے ہیں۔

بہاؤالدین زکریاؒ ۱۸ سال کی عمر میں حج کے لئے تشریف لے گئے۔ مکہ سے مدینہ منورہ چلے گئے۔ شیخ بہاؤالدین زکریا ۲۱ سال کے ہوئے تو والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد آپ نے قرآن حفظ کیا اور خراسان چلے گئے۔ سات سال تک علمائے ظاہر اور علمائے باطن سے اکتساب فیض کیا۔ شب و روز جوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں ریاضت و مجاہدہ اور مراقبہ میں مشغول رہے۔ مدینہ منورہ کی نورانی فضاؤں سے معمور ہو کر بیت المقدس پہنچے اور وہاں سے بغداد شریف آ گئے۔ بغداد میں شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی کی خدمت میں ایک عرصہ حاضر باش رہے۔ اذکار و اسباق میں استقامت اور دلجمعی کے ساتھ مشغول رہے۔
مرشد کریم نے خرقہ خلافت عطا فرمایا۔ شجرہ طریقت شیخ شہاب الدین سہروردی سے شروع ہو کر خواجہ حبیب عجمی۔ حضرت امام حسن۔ حضرت امام علی اور سرور کائنات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچتا ہے۔

مرشد کریم کے حکم سے حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی ملتان کے لئے عازم سفر ہوئے۔ ان کے ساتھ پیر بھائی شیخ جلال الدین تبریزی بھی تھے۔ دونوں بزرگ بغداد پہنچے تو شیخ جلال الدین تبریزی حضرت شیخ فریدالدین عطارؒ کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے، فریدالدین عطارؒ نے پوچھا کہ بغداد میں کون سا درویش مشغول بحق ہے۔ جلال الدین خاموش رہے۔ جب یہ بات بہاؤالدین کو معلوم ہوئی تو انہوں نے شیخ جلال الدین سے کہا۔ تم نے اپنے مرشد کا نام کیوں نہیں لیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ شیخ فرید الدین کی عظمت کا مرے دل پر اتنا اثر ہوا کہ شیخ شہاب الدین سہروردی کو بھول گیا۔ یہ سن کر شیخ بہاؤالدین کو بہت ملال ہوا۔

شیخ الاسلام:

سفر میں دونوں حضرات الگ الگ ہو گئے۔ شیخ بہاؤالدین زکریا ملتان آ گئے اور جلال الدین تبریزی خراسان چلے گئے۔ اور کچھ عرصے بعد جلال الدین تبریزی دہلی چلے گئے۔

اس وقت سلطان شمس الدین التمش ہندوستان کا حکمران تھا۔ اللہ والوں سے محبت و عقیدت رکھتا تھا۔ حضرت جلال الدین تبریزیؒ کی آمد کی خبر سلطان کو ملی تو وہ آپ کے استقبال کے لئے شہر پناہ کے دروازہ پر حاضر ہوا گھوڑے سے اتر کر آپ کو تعظیم دی۔ نجم الدین صغریٰ اس وقت شیخ الاسلام کے منصب پر فائز تھا۔ اس نے سلطان کی عقیدت اور حضرت جلال الدین تبریزیؒ کی بے انتہا پذیرائی دیکھی تو اس کے اندر حسد کی آگ بھڑک گئی۔

بغض و عناد کے تحت اس نے ایک گھناؤنی سازش تیار کی اور حضرت جلال الدین تبریزیؒ پر تہمت لگا دی۔ گوہر نامی ایک طوائف کو اس گھناؤنی سازش میں شریک کیا اور سلطان التمش کے دربار میں مقدمہ پیش کر دیا۔ جب مقدمہ پیش ہوا تو گوہر نے سچ سچ بتا دیا کہ یہ ساری سازش شیخ الاسلام نجم الدین صغریٰ کی بنائی ہوئی ہے۔

شیخ بہاؤالدین زکریاؒ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے صوفیاء کے بارے میں یہ مشہور کر دیا ہے کہ ان کے پاس نذر و نیاز اور فاتحہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جب روحانی بزرگوں پر تارک الدنیا ہونے کا لیبل لگا دیا جائے گا تو ان کے پاس روحانی افکار کے حصول اور معاشرتی مسائل کے حل کے لئے کوئی نیہں آئے گا۔ ظاہر پرستوں کو معلوم نہیں ہے کہ کم کھانا، کم سونا، کم بولنا، غیر ضروری دلچسپیوں میں وقت ضائع نہ کرنا۔۔۔۔۔۔تزکیہ نفس کے لئے ضروری ہے۔ ہم روزہ رکھتے ہیں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اسلام فقر و فاقہ کا مذہب ہے۔

روزہ کے فوائد اس بات کے شاہد ہیں کہ کم کھانا، کم بولنا، کم سونا روح کی بالیدگی کے وظائف ہیں۔

تبلیغی سرگرمیاں:

سہروردیہ سلسلہ کے معروف بزرگ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ کی تبلیغی کوششوں کا اپنا ایک الگ نہج تھا۔ اس منظم روحانی تحریک کے ذریعے سندھ، ملتان اور بلوچستان کے علاقوں میں ہزاروں افراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ روحانی تعلق قائم کرنے میں کامیاب ہوئے اور بے شمار خواتین و حضرات حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔

حضرت زکریا ملتانیؒ نے ایک اعلیٰ درسگاہ قائم کی تھی۔ اس درسگاہ میں بہت اچھے مشاہرہ پر اساتذہ کا تقرر کیا گیا تھا۔ طلباء کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے لئے بہترین ہوسٹل تھے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا احساس پیدا کرنا اس درسگاہ کی پالیسی تھی۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد جو شخص جس علاقے میں فرائض انجام دینے کی درخواست کرتا۔ اس علاقے کی زبان و ثقافت کی تعلیم کا بندوبست کر دیا جاتا تھا۔ اس غرض کے لئے اسے دو برس مزید ٹریننگ دی جاتی تھی۔

دو برس بعد معلمین کو مناسب سرمایہ فراہم کر دیا جاتا تھا تا کہ معلم اس سرمایہ سے کاروبار کرے اور کاروبار کے ساتھ تبلیغ کا فریضہ انجام دے۔

حضرت زکریا ملتانیؒ اساتذہ کو یہ ہدایت فرماتے تھے۔ ’’سامان کم منافع پر فروخت کرنا لین دین میں سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت طیبہ پر عمل کرنا۔ ناقص اشیاء فروخت نہ کرنا، خریداروں سے خندہ پیشانی سے پیش آنا۔ جب تک لوگوں کا اعتماد حاصل نہ ہو اسلام کی تعلیمات پیش نہ کرنا‘‘۔ اس کے بعد آپؒ اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت فرماتے تھے۔

دین پھیلانے والے تاجر:

تاجروں کے روپ میں اللہ تعالیٰ کے دین کو پھیلانے والے یہ پاکیزہ بندے چین، فلپائن، جاوا، سماٹرا اور دیگر علاقوں تک پھیل گئے۔ یہ حضرات بڑے بڑے شہروں میں ایگزی بیشن منعقد کرتے، صنعتی نمائش کا اہتمام کرتے تھے۔

پیشہ وارانہ دیانت، صفائی، ستھرائی، حسن سلوک کی وجہ سے ہر شخص ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ ان کے اعلیٰ کردار سے متاثر ہو کر لوگ ان سے محبت کرنے لگتے تھے اور خدا رسیدہ لوگ نہایت دلنشین انداز میں قلبی سکون کا راز ان لوگوں کے گوش گزار کرتے تھے اور اسلام قبول کر کے لوگ اللہ تعالیٰ کے قرب سے آشنا ہو جاتے تھے۔ مشرق بعید کے بے شمار جزائر میں کروڑوں مسلمان ان ہی روحانی بزرگوں کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔

شیخ شہاب الدین سہروردیؒ کے تربیت یافتہ شاگردوں اور بزرگوں نے ساتویں صدی ہجری میں دین کی ظاہری اور روحانی تبلیغ کے لئے ساری دنیا میں مراکز قائم کئے۔ شیخ بہاؤالدین زکریاؒ نے مختلف علاقوں میں جماعتیں روانہ کیں۔ آپؒ کے تربیت یافتہ شاگردوں نے کشمیر سے راس کماری اور گوادر سے بنگال کو اسلام کی روشنی سے منور کر دیا۔

حضرت زکریا ملتانیؒ کی فلاحی خدمات:

حضرت زکریا ملتانیؒ مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی تربیت کا الگ الگ اہتمام فرماتے تھے۔ یہ روحانی تحریک Scientificاور جدید خطوط پر استوار تھی۔ قدرت نے حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ کو فلاحی ذہن عطا کیا تھا۔ آپؒ نے جنگلوں کو آباد کروایا، کنویں کھدوائے، نہریں تعمیر کروائیں اور زراعت پر بھرپور توجہ دی۔ انہیں ہر وقت عوام کی خوشحالی کی فکر دامن گیر رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت ان کے لئے سرمایۂ آخرت تھی۔

آپ عوام الناس کے خادم تھے اور عوام آپ سے محبت کرتے تھے۔ یہی حسن اخلاق اور محبت تھی کہ لوگ جوق در جوق مراقبوں میں شریک ہوتے تھے۔ لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے عرفان کیلئے ایمانداری اور خلوص نیت کو زندگی کا معیار بنا لیا تھا۔ روح کی تقویت کیلئے درود شریف اور اذکار کی محفلیں سجتی تھیں۔ لوگ خود غرضی اور خود پرستی کے ہولناک عذاب سے بچنے کی ہر مم    کن تدبیر کرتے تھے۔

شیخ زکریا ملتانیؒ ڈولی میں جا رہے تھے کہ انہوں نے ایک آواز سنی۔

اے اہل ملتان! میرا سوال پورا کرو ورنہ میں ملتان شہر الٹ دوں گا۔ حضرت نے ڈولی رکوا کر کچھ دیر توقف کیا۔ اور کہاروں سے کہا۔ چلو۔۔۔دوسری آواز پر کہاروں سے کہا۔ ڈولی زمین پر رکھ دو۔ تھوڑی دیر بعد فرمایا۔۔۔چلو کچھ نہیں۔۔۔تیسری آواز پر کہاروں سے فرمایا ڈولی کندھوں سے اتار دو۔۔۔اور ڈولی سے باہر آ کر کہا۔۔۔اس فقیر کا سوال جس قدر جلد ممکن ہو پورا کر دو۔

لوگوں نے پوچھا۔۔۔یا حضرت آپ نے دو مرتبہ ڈولی رکوائی اور کچھ نہیں فرمایا۔۔۔تیسری دفعہ فرمایا کہ جتنی جلد ممکن ہو فقیر کا سوال پورا کر دو۔۔۔اس کے پس منظر میں کیا حکمت ہے؟

فرمایا۔۔۔پہلی دفعہ فقیر نے سوال کیا تو میں نے اس کی استعداد دیکھی۔ مجھے کچھ نظر نہیں آیا۔ دوسری مرتبہ میں نے اس کے مرشد کریم کی استعداد پر نظر ڈالی۔ وہاں بھی کوئی خاص بات نظر نہیں آئی۔ تیسری دفعہ آواز کا میرے دل پر اثر ہوا۔

میں نے توجہ کی تو----- دیکھا کہ اس فقیر کے سلسلہ کے دادا پیر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار اقدس میں با ادب کھڑےہیں۔
حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ ایک روز اپنے حجرہ میں عبادت میں مشغول تھے کہ ایک نورانی چہرہ بزرگ آئے اور ایک سربرمہر خط حضرت صدر الدین کو دے کر چلے گئے۔ انہوں نے خط والد بزرگوار کی خدمت میں پیش کر دیا۔

والد بزرگوار نے فرمایا۔ بزرگ سے میرا سلام کہو۔ اور عرض کرو کہ آدھے گھنٹہ کے بعد آئیں۔ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ نے امانتیں واپس کیں۔ بیٹوں سے کہا کہ درود شریف پڑھیں۔ آواز سنائی دی، ’’دوست بدست دوست رسید‘‘ یہ آواز سن کر حضرت شیخ صدر الدین دوڑے ہوئے حجرے میں گئے۔ دیکھا کہ والد صاحب کا انتقال ہو چکا تھا۔ تدفین کے بعد صاحبزادہ کو خیال آیا کہ وہ کون بزرگ تھے جن سے ابا نے کہا تھا آدھے گھنٹہ بعد آنا۔ صاحبزادے کو خط کی تلاش ہوئی۔ تکئے کے نیچے رکھے ہوئے خط میں تحریر تھا:
’’اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضوری میں طلب فرمایا ہے۔ میرے لئے کیا حکم ہے۔

فرشتہ عزرائیل۔‘‘

* سلسلہ نقشبندیہ:

اس سلسلے میں مراد مرید کو سامنے بٹھا کر توجہ کرتا ہے اور مرید کا قلب جاری ہو جاتا ہے یہ حضرات ذکر خفی زیادہ کرتے ہیں اور مراقبہ میں سر جھکا کر آنکھیں بند کر کے بیٹھتے ہیں۔

ان کے ہاں مرشد اپنے مریدوں سے الگ نہیں بیٹھتا بلکہ حلقے میں ان کے شریک ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ حضرت ابوبکرصدیقؓ سے شروع ہوا اور حضرت بہاؤالدین نقشبند کے نام سے منسوب ہے۔ حضرت بہاؤالدین ۴ محرم ۷۱۸ھ کو بلخ میں پیدا ہوئے اور ۲۰ ربیع الاول دوشنبہ بوقت شب وفات پائی۔

خواجہ بہاؤالدین نقشبند کی ولادت سے پہلے جب خواجہ محمد سماسی بابا ان کے گھر کے پاس سے گزرتے تھے تو کہتے تھے کہ مجھے یہاں سے کسی مرد حق آگاہ کی خوشبو آتی ہے۔ ایک دن اینٹ اور گارے سے بنے ہوئے اس گھر سے علم و عرفان کی روشنیاں طلوع ہونگی۔ حضرت بہاؤالدین نقشبند کے دادا نے آپ کو خواجہ محمد سماسی بابا کی گود میں ڈال دیا۔ آپ نے نوزائیدہ بچہ کو گود میں لے کر فرمایا۔ یہ میرا فرزند ہے۔ یہ بچہ بڑا ہو کر زمانے کا پیشوا ہو گا۔

حضرت بہاؤالدین نقشبندؒ فرماتے ہیں کہ جب مجھے شعور کا ادراک ہوا تو دادا نے مجھے سماسی بابا کی خدمت میں بھیج دیا۔ بابا سماسی نے میرے اوپر شفقت فرمائی۔ میں نے شکرانے کے طور پر دو رکعت ادا کی۔ نماز میں میرے اوپر سرشاری طاری ہو گئی اور بے اختیار یہ دعا نکلی۔ ’’یا الٰہی! مجھ کو اپنی امانت اٹھانے کی قوت عطا فرما۔‘‘

صبح کو بابا سماسی کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا۔ اے فرزند! دعا اس طرح مانگنی چاہئے۔ ’’یا الٰہی! جو کچھ تیری رضا ہے اس ضعیف بندے کو اس پر اپنے فضل و کرم سے قائم رکھ‘‘۔ پھر فرمایا کہ جب اللہ کسی بندے کو اپنا دوست بنا لیتا ہے تو اس کو بوجھ اٹھانے کی سکت بھی عطا فرماتا ہے۔

دل کی نگرانی کرنی چاہئے:

ایک روز کھانا تناول کرنے کے بعد آپ نے مجھے کچھ روٹیاں عنایت کیں۔ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ میں نے تو خوب سیر ہو کر کھانا کھایا ہے۔ میں اتنی روٹیوں کا کیا کروں؟ کچھ دیر بعد آپ نے مجھے ایک دوست کے گھر چلنے کے لئے کہا۔ راستے میں میرے دل میں پھر وہی خیال آیا کہ روٹیوں کا کیا کرنا ہے۔ حضرت میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ دل کی نگرانی کرنی چاہئے تا کہ اس میں کوئی وسوسہ داخل نہ ہو۔ جب ہم اس دوست کے گھر پہنچے تو وہ حضرت کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور حضرت کے سامنے دودھ پیش کیا۔ حضرت سماسی بابا نے ان سے کھانے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے سچ کہہ دیا کہ آج روٹی نہیں کھائی۔ حضرت نے فرمایا۔

روٹیاں پیش کر دو۔ اس واقعہ کے بعد حضرت کی عزت و توقیر اور عقیدت میرے اندر بہت زیادہ ہو گئی۔

ایک دن فرمایا۔ جب استاد شاگرد کی تربیت کرتا ہے تو یہ بھی چاہتا ہے کہ شاگرد بھی استاد کی تعلیمات کو قبول کرے۔

خواجہ محمد بابا سماسی نے خواجہ بہاؤالدین نقشبندؒ کو اپنی فرزندی میں قبول کیا۔ اگرچہ ظاہری اسباب میں طریقت کے آداب سید امیر کلال سے سیکھے مگر حقیقتاً آپ اویسی ہیں اور آپ نے خواجہ عبدالخالق نجدوانی کی روح سے فیض پایا۔

آپ فرماتے ہیں کہ ایک رات میں نجا کے مزارات میں سے تین متبرک مزاروں پر حاضر ہوا۔ میں نے ہر قبر پر ایک چراغ جلتا ہوا دیکھا۔ چراغ میں پورا تیل اور بتی ہونے کے باوجود چراغ کی لو کو اونچا کرنے کے لئے بتی کو حرکت دی جا رہی تھی۔ لیکن بابا سماسی کے مزار کے چراغ کی لو کو مسلسل روشن دیکھ کر میں نے چراغ کی لو پر نظر جما دی۔

اویسی فیض:

میں نے دیکھا کہ قبلہ کی طرف کی دیوار پھٹ گئی اور ایک بہت بڑا تخت نمودار ہوا دیکھا کہ سبز پردہ لٹکا ہوا ہے اس کے قریب ایک جماعت موجود ہے۔ میں نے ان لوگوں میں بابا سماسی کو پہچان لیا۔ میں جان گیا کہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو اس جہان سے گزر چکے ہیں۔ ان میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ تخت پر خواجہ عبدالخالق نجدوانی جلوہ افروز ہیں اور یہ ان کے خلفاء کی جماعت ہے اور ہر خلیفہ کی طرف اشارہ کر کے ان کے نام بتائے۔ یہ خواجہ احمد صدیق ہیں، یہ خواجہ اولیاء کلال ہیں، یہ خواجہ دیوگری ہیں، یہ صاحب خواجہ محمود الخیر فقتوی ہیں اور یہ خواجہ علی راستی ہیں، جب وہ شخص خواجہ محمد بابا سماسی پر پہنچا تو کہا یہ تیرے شیخ ہیں اور انہوں نے تیرے سر پر کلاہ رکھا ہے اور تجھے کرامت بخشی ہے۔ اس وقت اس نے کہا کان لگا اور اچھی طرح سن کہ حضرت خواجہ بزرگ ایسی باتیں فرمائیں گے کہ حق تعالیٰ کے راستے میں تیرے لئے مشعل راہ بنیں گیں۔

میں نے درخواست کی کہ میں حضرت خواجہ کو سلام اور ان کے جمال مبارک کی زیارت کرنا چاہتا ہوں۔ یکایک میرے سامنے سے پردہ اٹھ گیا۔ میں نے نور علی نور بزرگ کو دیکھا۔ انہیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا اور وہ باتیں جو ابتدائی طور پر سلوک اور اس کے درمیان اور اس کی انتہا سے تعلق رکھتی ہیں، مجھے سکھائیں۔

انہوں نے فرمایا۔ جو چراغ تجھے دکھائے گئے ہیں ان میں تیرے لئے ہدایت اور اشارہ ہے کہ تیرے اندر روحانی علوم سیکھنے کی استعداد موجود ہے اور تیرے لئے بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے اسرار و رموز سکھائیں گے لیکن استعداد کی بتی کو حرکت دینا ضروری ہے تا کہ چراغ کی روشنی تیز ہو جائے۔

دوسری مرتبہ بتایا کہ ہر حال میں امرونہی کا راستہ اختیار کرنا۔ احکام شریعت کی پابندی کرنا۔ ممنوعات شرعیہ سے اجتناب کرنا۔ سنت والے طریقوں پر پوری طرح عمل کرنا۔ بدعات سے دور رہنا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث کو ہمیشہ اپنا راہنما بنائے رکھنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کرامؓ کے اخبار و آثار یعنی ان کے اقوال و افعال کی تلاش ہو اور جستجو میں رہنا۔ تیرے اس حال یعنی مشاہدے کی سچائی کا ثبوت یہ ہے کہ کل علی الصبح تو فلاں جگہ جائے گا اور فلاں کام کرے گا۔
ان لوگوں نے فرمایا۔ اب تو جانے کا قصد کر اور جناب سید امیر کلالؒ کی خدمت میں حاضر ہو۔ ان حضرات کے فرمانے کے بموجب میں حضرت امیر کلالؒ کی خدمت میں پہنچا۔ تو حضرت امیرؒ نے خاص مہربانیاں فرمائیں۔ مجھے ذکر کی تلقین کی اور خفیہ طریقہ پر نفی اثبات کے ذکر میں مشغول فرما دیا۔

شیخ قطب الدین نامی ایک بزرگ نے بتایا کہ میں چھوٹی عمر میں تھا کہ حضرت خواجہ نے فرمایا۔ فلاں کبوتر خانے سے کبوتر خرید کر لے آؤ۔ ان کبوتروں میں سے ایک کبوتر بہت خوبصورت تھا۔ میں نے یہ کبوتر باورچی خانے میں نہیں دیا۔ کھانا تیار ہونے کے بعد حضرت خواجہ نقشبندؒ نے مہمانوں میں کھانا تقسیم کیا تو مجھے کھانا نہیں دیا اور فرمایا انہوں نے اپنا حصہ زندہ کبوتر لے لیا ہے۔

صوفیاء کرام کی دینی خدمات:

دہلی بھارت میں حضرت خواجہ باقی بااللہ کا مزار ہے۔ امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت خواجہ باقی بااللہ کے خلیفہ ہیں۔
احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ کی پیدائش سے قبل آپ کے والد بزرگوار نے خواب میں دیکھا کہ تمام جہاں اندھیرے میں گھرا ہوا ہے۔ بندر، ریچھ اور سور آدمیوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ آپ کے سینہ مبارک سے نور کا جھماکہ ہوا اور اس میں سے ایک تخت ظاہر ہوا اس تخت پر ایک بزرگ تشریف فرما ہیں۔ ان کے سامنے ظالم، بے دین اور ملحد لوگوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے۔

حضرت مجدد الف ثانی کے والد نے یہ خواب حضرت شاہ کمال کیتھلؒ سے بیان کیا تو شاہ کمال صاحب نے یہ تعبیر دی کہ آپ کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہو گا جس سے اللہ کے دین میں شامل کی ہوئی بدعتیں اور خرافات ختم ہو جائیں گی۔ مجدد صاحب کا نام احمد، لقب بدرالدین ہے۔ آپ کا نسب نامہ حضرت امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ کی ستائیسویں پشت سے ملتا ہے۔

ہندوستان میں آپ نے کفر و شرک کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ آپ نے ہزاروں مسلمانوں کی راہنمائی فرمائی اور اپنے دور کے طاقتور بادشاہ اکبر کی ملحدانہ سرگرمیوں کا نہایت کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا۔

اکبر نے کفر و الحاد کو یہاں تک پھیلا دیا تھا کہ کلمہ طیبہ میں محمد رسول اللہ کے بجائے اکبر خلیفتہ اللہ کا حکم جاری کر دیا تھا۔ حضرت مجددؒ نے نا صرف ان حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا بلکہ ان کی بیخ کنی کے لئے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ اکبر و جہانگیر کے قائم کردہ دین الٰہی کا خاتمہ ہو گیا۔

اللہ تعالیٰ نے مجدد الف ثانیؒ کو کامیاب و کامران کیا۔

چنگیز خانی طوفان نے جب دنیائے اسلام کو تہ و بالا کر دیا۔ شہر ویران ہو گئے، لوگوں کو قتل کر کے ان کے سروں کے مینار بنا دیئے گئے، بغداد کی آٹھ لاکھ آبادی میں سے چار لاکھ قتل و غارتگری کی بھینٹ چڑھ گئی، علم و حکمت کی کتابوں کا ذخیرہ آگ کی بھٹیوں میں جھونک دیا گیا، علماء اور فضلاء اسلام کے مستقبل سے مایوس ہو گئے۔ اس وقت بھی اس سرکش طوفان کا صوفیاء نے مقابلہ کیا۔
ان لوگوں نے اسلام دشمن لوگوں کی اس طرح تربیت کی کہ اسلام کے دشمن شمأ اسلام بن گئے۔

سلسلہ قادریہ کے ایک بزرگ، ہلاکو خان کے بیٹے تگودار خان کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے تشریف لے گئے، تگودار خان شکار سے واپس آ رہا تھا کہ اپنے محل کے دروازے پر ایک درویش کو دیکھ کر ازراہ تمسخر پوچھا:

اے درویش تمہاری داڑھی کے بال اچھے ہیں یا میرے کتے کی دم؟ اس بیہودہ اور ذلت آمیز سوال پر بزرگ برہم نہیں ہوئے، شگفتہ لہجہ کے ساتھ تحمل سے فرمایا:

’’میں اپنی جاں نثاری اور وفاداری سے اپنے مالک کی خوشنودی حاصل کر لوں تو میری داڑھی کے بال اچھے ہیں ورنہ آپ کے کتے کی دم اچھی ہے جو آپ کی فرمانبرداری کرتا ہے اور آپ کے لئے شکار کی خدمت انجام دیتا ہے۔

تگودار خان اس غیر متوقع اور انا کی گرفت سے آزاد جواب سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے بزرگ کو اپنا مہمان بنا لیا اور درویش کے حلم و بردباری اور اخلاق سے متاثر ہو کر اس نے درپردہ اسلام قبول کر لیا لیکن اپنی قوم کی مخالفت کے خوف سے تگودار خان نے درویش کو رخصت کر دیا۔ وفات سے پہلے درویش نے اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ تگودار خان کے پاس جائے اور اس کو اپنا وعدہ یاد دلائے۔ صاحب زادے تگودار خان کے پاس پہنچے اور اپنے آنے کی غایت بیان کی۔ تگودار خان نے کہا تمام سردار اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہیں لیکن فلاں سردار تیار نہیں ہے اگر وہ بھی مسلمان ہو جائے تو مشکل آسان ہو جائے گی۔

صاحب زادے نے جب اس سردار سے گفتگو کی تو اس نے کہا۔ میری ساری عمر میدان جنگ میں گزری ہے۔ میں علمی دلائل کو نہیں سمجھتا میرا مطالبہ ہے کہ آپ میرے پہلوان سے مقابلہ کریں۔ اگر آپ نے اسے پچھاڑ دیا تو میں مسلمان ہو جاؤں گا۔

درویش زادے، لاغر، دبلے اور جسمانی لحاظ سے کمزور تھے۔ تگودار خان نے اس مطالبہ کو مسترد کرنا چاہا لیکن درویش کے بیٹے نے سردار کا چیلنج منظور کر لیا۔ مقابلے کے لئے جگہ اور تاریخ کا اعلان کر دیا گیا۔ مقررہ دن مخلوق کا اژدہام یہ عجیب و غریب دنگل دیکھنے کے لئے میدان میں جمع ہو گیا۔ ایک طرف نحیف اور کمزور ہڈیوں کا ڈھانچہ لاغر جسم تھا اور دوسری طرف گرانڈیل اور فیل تن پہلوان تھا۔

تگودار خان نے کوشش کی کہ یہ مقابلہ نہ ہو لیکن درویش مقابلہ کرنے کے لئے مصر رہا اور جب دونوں پہلوان اکھاڑے میں آئے تو درویش زادے نے اپنے حریف کو زور سے طمانچہ مارا اور وہ پہلوان اس تھپڑ کو برداشت نہ کر سکا۔ اس کی ناک سے خون کا فوارہ ابلا اور پہلوان غش کھا کر زمین پر گر گیا۔ سردار حسب وعدہ میدان میں نکل آیا۔ اس نے درویش زادے کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔ تگودار خان نے بھی اپنے ایمان کا اعلان کر کے اپنا نام احمد رکھا۔ ہلاکو خان کا چچا زاد بھائی بھی شیخ شمس الدین باخوریؒ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوا۔

قسطنطنیہ کی تاریخ اسلام کا ایک لافانی باب ہے۔ حضرت شمس الدین، سلطان محمدؒ کے مرشد کریم تھے۔ انہی کی ترغیب اور بشارت سے سلطان محمد نے قسطنطنیہ کو فتح کیا۔ ہم تاریخ کے صفحات جتنے زیادہ پلٹتے ہیں اہل تصوف اور روحانی لوگوں کا ایک قافلہ ہمارے سامنے آتا ہے جو دین اسلام کو پھیلانے میں ہمہ تن مصروف نظر آتا ہے۔

* سلسلہ عظیمیہ:

سلسلہ عظیمیہ جذب اور سلوک دونوں روحانی شعبوں پرمحیط ہے۔ اس سلسلے میں روایتی پیری مریدی اور مخصوص لباس اور کوئی وضع قطع نہیں ہے۔ صرف خلوص کے ساتھ طلب روحانیت کا ذوق اور شوق ہی طالب کو سلسلے کے ساتھ منسلک رکھتا ہے۔ سلسلے میں مریدین کو دوست کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

تعلیم و تربیت کے لئے سخت ریاضتوں، چلوں اور مجاہدوں کے بجائے ذکر و اذکار آسان ہیں۔ تعلیم کا محور غار حرا میں عبادت (مراقبہ) ہے۔ تفکر اور خدمت خلق کو اساس قرار دیا گیا ہے۔

سلسلہ عظیمیہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی منظوری سے 1960ء میں قائم ہوا۔

امام سلسلہ عظیمیہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ ۱۸۹۸ء قصبہ خورجہ ضلع بلند شہر بھارت میں پیدا ہوئے۔ والدین نے محمد عظیم نام رکھا۔ والد گرامی کا نام بدیع الدین مہدی شیر دل اور والدہ ماجدہ کا نام سعیدہ بی بی تھا۔ شاعری میں برخیاؔ تخلص ہے۔

تاریخ وفات ۲۷ جنوری ۱۹۷۹ء ہے۔ مزار شریف شادمان ٹاؤن نارتھ ناظم آباد کراچی میں مرجع خاص و عام ہے۔

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بطریق اویسیہ حسن اخریٰ کے نام سے مخاطب فرمایا۔ عالم تکوین اور عوام و خواص میں قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ پورا نام حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا المعروف قلندر بابا اولیاءؒ ہے۔

حضرت امام حسن عسکریؒ کے خاندان کے سعید فرزند ہیں۔ مرتبۂ قلندریت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے ملائکہ ارضی و سماوی اور حاملان عرش میں قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے مشہور ہیں۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نظام تکوین کے اعلیٰ منصب صدروالصدور کے عہدہ پر فائز ہیں۔ اس دنیا اور دوسری لاشمار دنیاؤں میں چار تکوینی شعبے کام کر رہے ہیں۔

۱)قانون ۲) علوم ۳) اجرام سماوی ۴) نظامت

ان شعبوں کے ہیڈ چار ابدال ہوتے ہیں۔ نظامت کے عہدہ پر فائز ابدال حق کو صدر الصدور کہتے ہیں۔ صدر الصدور کو Veto Powerحاصل ہوتی ہے۔ ابدال حق قلندر بابا اولیاءؒ اس وقت صدرالصدور ہیں۔

اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے کو قلندر کا مقام عطا کرتا ہے تو اسے زمان و مکان کی قید سے آزاد ہونے کا اختیار دے دیتا ہے۔ اور تکوینی امور کے تحت سارے ذی حیات اس کے تابع فرمان ہوتے ہیں۔ لیکن اللہ کے یہ نیک بندے غرض، ریا، طمع، حرص اور لالچ سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ اس لئے جب مخلوق ان کی خدمت میں کوئی گزارش پیش کرتی ہے تو وہ اس کو سنتے ہیں اور اس کا تدارک بھی کرتے ہیں کیونکہ قدرت نے انہیں اسی کام کیلئے مقرر کیا ہے۔ یہی وہ پاکیزہ اور قدسی نفس حضرات ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے کان، آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں پھر وہ میرے ذریعہ بولتے ہیں اور میرے ذریعہ چیزیں پکڑتے ہیں۔‘‘

پہلا مدرسہ:

قلندر بابا اولیاءؒ نے قرآن پاک اور ابتدائی تعلیم محلہ کے مکتب میں حاصل کی اور بلند شہر میں ہائی اسکول تک پڑھا اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔

تربیت:

بابا تاج الدین ناگپوریؒ حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے نانا ہیں۔ آپ ۹ سال تک رات دن بابا تاج الدین کی خدمت میں حاضر باش رہے۔

دوران تعلیم ایسا دور بھی آیا کہ قلندر بابا اولیاءؒ جذب و مستی اور عالم استغراق کا غلبہ ہو گیا۔ اکثر اوقات خاموش رہتے اور گاہے گاہے گفتگو بھی بے ربط ہو جایا کرتی تھی لیکن جذب و کیفیت کی یہ مدت زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہی۔

روزگار:

سلسلہ معاش قائم رکھنے کے لئے مختلف رسائل و جرائد کے ادارت و صحافت اور شعراء کے دیوانوں کی اصلاح اور ترتیب و تدوین کرتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد کراچی تشریف لے آئے اور اردو ڈان میں سب ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک رسالہ نقاد میں کام کرتے رہے۔ کچھ رسالوں کی ادارت کے فرائض انجام دیئے۔ کئی مشہور کہانیوں کے سلسلے بھی قلم بند کئے۔

بیعت:
۱۹۵۲ ؁ء میں قطب ارشاد حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروردیؒ سے بیعت ہوئے۔ حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروردیؒ نے رات کو تین بجے سامنے بٹھا کر قلندر باباؒ کی پیشانی پر تین پھونکیں ماریں۔ پہلی پھونک میں عالم ارواح منکشف ہوا، دوسری پھونک میں عالم ملکوت و جبروت اور تیسری پھونک میں عرش معلیٰ کا مشاہدہ ہوا۔


مقام ولایت:

حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروردیؒ نے قطب ارشاد کی تعلیمات تین ہفتے میں پوری کر کے خلافت عطا فرما دی۔
اس کے بعد حضرت شیخ نجم الدین کبریؒ کی روح پر فتوح نے قلندر بابا اولیاءؒ کی روحانی تعلیم شروع کی اور پھر یہ سلسلہ یہاں تک پہنچا کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہمت و نسبت کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں پیشی ہوئی اور اسرار و رموز کا علم حاصل ہوا۔

اخلاق:
ابتداء ہی سے آپ کی طبیعت میں سادگی اور شخصیت میں وقار تھا۔ پریشانی میں دل جوئی کرنا، دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف اور دوسرے کے درد کو اپنا درد سمجھنا اور دوسرے شخص کی توقع سے زیادہ اس کا دکھ بانٹنا آپ کی صفت تھی۔

کشف و کرامات:

حضور قلندر بابا اولیاءؒ سے بہت ساری کرامات صادر ہوئیں ہیں جو کتاب ’’تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ ‘‘ میں شائع ہوئی ہیں۔
تصنیفات:

قلندر بابا اولیاءؒ نے تین کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔

 علم و عرفان کا سمندر :" رباعیات قلندر بابا اولیاءؒ "

اسرار و  رموز کا خزانہ : " لوح و قلم"

کشف و کرامات اور ماورائی علوم کی توجیہات پرمستند کتاب :’’تذکرہ تاج الدین باباؒ ‘‘ رعبایات میں فرماتے ہیں:

اک لفظ تھا اک لفظ سے افسانہ ہوا

اک شہر تھا شہر سے ویرانہ ہوا

گردُوں نے ہزار عکس ڈالے ہیں عظیم

میں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا



آدم کا کوئی نقش نہیں ہے بیکار

اس خاک کی تخلیق میں جلوے ہیں ہزار

دستہ جو ہے کوزہ کو اٹھانے کے لئے

یہ ساعدسیمیں سے بناتا ہے کمہار


باغوں میں جو قمریاں ہیں سب مٹی ہیں

پانی میں جو مچھلیاں ہیں سب مٹی ہیں

آنکھوں کا فریب ہے یہ ساری دنیا

پھولوں میں جو تتلیاں ہیں سب مٹی ہیں


آنا ہے ترا عالم روحانی سے

حالت تری بہتر نہیں زندانی سے

واقف نہیں میں وہاں کی حالت سے عظیمؔ

واقف ہوں مگر یہاں کی ویرانی سے

 

حضور قلندر بابا اولیاءؒ اپنی کتاب لوح و قلم کے پہلے صفحہ پر لکھتے ہیں:

’’میں یہ کتاب پیغمبر اسلام سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ مجھے یہ حکم سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات سے بطریق اویسیہ ملا ہے۔‘‘

کتاب کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں سماعت میں نے دی ہے، بصارت میں نے دی ہے، اس کا مطلب یہ نکلا کہ اطلاع میں نے دی ہے (یعنی اطلاعات کا سورس اللہ تعالیٰ ہیں) ہم عام حالات میں جس قدر اطلاعات وصول کرتے ہیں ان کی نسبت تمام دی گئی اطلاعات کے مقابلے میں صفر سے ملتی جلتی ہے۔ وصول ہونے والی اطلاعات اتنی محدود ہیں کہ ان کو ناقابل ذکر کہیں گے۔ اگر ہم وسیع تر اطلاعات حاصل کرنا چاہیں تو اس کا ذریعہ بجز علوم روحانی کے کچھ نہیں ہے اور علوم روحانی کے لئے ہمیں قرآن حکیم سے رجوع کرنا پڑے گا۔

یہ قانون بہت فکر سے ذہن نشین کرنا چاہئے کہ جس قدر خیالات ہمارے ذہن میں دور کرتے رہتے ہیں ان میں سے بہت زیادہ ہمارے معاملات سے غیر متعلق ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق قریب اور دور کی ایسی مخلوق سے ہوتا ہے جو کائنات میں کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ اس مخلوق کے تصورات لہروں کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے عالم لاہوت، عالم جبروت، عالم ملکوت اور ارض و سماوات کے نقشے بنا کر دیئے ہیں۔
قلندر بابا اولیاءؒ کی سرپرستی میں روحانی ڈائجسٹ کا پہلا شمارہ دسمبر ۱۹۷۸ ؁ء کو منظر عام پر آیا۔ روحانی ڈائجسٹ کے بیشتر ٹائٹل، جزوی تبدیلی کے ساتھ انہی نقشوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ مردم شماری کے حساب سے مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ بڑا المیہ ہے کہ خواتین کی اتنی بڑی تعداد کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ جبکہ خواتین و حضرات کی علمی استعداد اور صلاحیتوں میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے۔ سلسلہ عظیمیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مشن کے پھیلانے میں خواتین کو بھرپور شریک ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔

سلسلۂ عظیمیہ کی خدمات:

سلسلہ عظیمیہ کی کاوشوں سے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ماورائی علوم اور روحانی طرز فکر عام ہو رہی ہے۔ امام سلسلہ عظیمیہ نے عوام و خواص کو بتایا ہے کہ ہر شخص روحانی علوم کو باآسانی سیکھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے رابطہ قائم ہو جانے کے بعد خواتین و حضرات کی زندگی پرسکون ہو جاتی ہے۔

سلسلہ عظیمیہ کی شب و روز جدوجہد سے پاکستان، ہندوستان، برطانیہ، ہالینڈ، فرانس، ڈنمارک، روس، متحدہ عرب امارات میں ’’مراقبہ ہال‘‘ کے نام سے خانقاہی نظام قائم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام الناس کو روحانی علوم سے آشنا کرنے کے لئے سلسلہ عظیمیہ نے لائبریریوں کا نیٹ ورک قائم کیا ہے۔ الیکٹرانک ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر علمی، سائنسی، قرآن کریم اور حدیث شریف کے مطابق روحانی علوم کو آڈیو اور ویڈیو میں ریکارڈ کیا ہے۔

تا کہ سائنسی ترقی کے اس دور میں زیادہ سے زیادہ لوگ مستفیض ہوتے رہیں۔ تقریروں اور تحریروں کے ساتھ ساتھ Print Mediaکو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ خانوادۂ سلسلہ عظیمیہ نے اپنے مرشد کریم قلندر بابا اولیاءؒ کے مشن کو پھیلانے، عوام و خواص میں اس کی جڑیں مستحکم کرنے کے لئے پرنٹ میڈیا کو استعمال کیا ہے۔ رسائل و جرائد اور اخبارات میں مسلسل ۳۲ سال سے روحانی علوم کی اشاعت جاری ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میری سنت میں تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے۔‘‘

الحاد، بت پرستی، شرک اور زمین پر فساد ختم کرنے کے لئے اللہ رب العزت نے پیغمبروں کا سلسلہ قائم کیا۔ روایت کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا میں تشریف لائے۔

قرآن کریم کی تصدیق کے مطابق رسالت اور نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ختم ہو چکی ہے۔ اللہ کے ارشاد کے مطابق دین کی تکمیل ہو چکی ہے لیکن دین کی تکمیل کے بعد بھی تبلیغ و ارشاد اس لئے ضروری ہے کہ دنیا آباد ہے۔ اور اس آبادی میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور یہ دنیا قیامت تک قائم رہے گی۔ نبوت کے فیضان کو جاری رکھنے کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وارث علماء باطن اولیاء اللہ نے دینی اور روحانی مشن کو تا قیامت لوگوں تک پہنچانے کیلئے اپنے آپ کو پیش کیا ہے اور انشاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

اور ایک وقت ایسا آ جائے گا کہ نوع انسانی قرآنی احکامات کو سمجھ کر اللہ کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ کر لے گی اور دنیا امن و امان کا گہوارہ بن جائے گی۔

آج کی دنیا سمٹ کر ایک کمرے کے برابر ہو گئی ہے۔ چھ مہینوں کا سفر ایک دن میں اور دنوں کا سفر چند گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے۔ زمان و مکان کو سمجھنا آسان ہو گیا ہے۔

سائنسی انکشافات:

بظاہر سائنس کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک کوئی بات Visionنہ بنے اور دلائل کے ساتھ اسے ثابت نہ کیا جائے تو وہ بات قابل قبول نہیں ہے۔

اس سے قطع نظر کہ سائنس کا یہ دعویٰ کتنا غلط اور کتنا صحیح ہے۔ سلسلۂ عظیمیہ نے کوشش کی ہے کہ ذہنی وسعت کے مطابق سائنسی انکشافات کو سامنے رکھ کر خواتین و حضرات کو ایسی تعلیمات دی جائیں جن تعلیمات سے وہ ظاہری دنیا کے ساتھ ساتھ غیب کی دنیا سے نہ صرف آشنا ہو جائیں بلکہ غیب کی دنیا اور غیب کی دنیا میں آباد مخلوقات کا مشاہدہ بھی کر لیں۔

دینی جدوجہد:

اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے سلسلۂ عظیمیہ نے درس و تدریس کا نظام ترتیب دیا ہے۔ جو دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ تین سال پر محیط ہے اور دوسرا حصہ بھی تین سال پر محیط ہے۔

طالبات و طلباء یہ چھ سالہ کورس پڑھ کر وہ Knowledgeحاصل کر لیتے ہیں جس نالج کی بنیاد قرآن کریم، احادیث اور غیب ہے۔ چونکہ ایک سازش کے تحت اور فاسد ذہن رکھنے والے لوگوں کے منصوبوں کے مطابق خانقاہی نظام کو متنازعہ فیہ بنا دیا گیا ہے۔ اس لئے خانقاہی نظام کو سلسلہ عظیمیہ نے ’’مراقبہ ہال‘‘ کے نام سے متعارف کروایا ہے۔

۲۰۰۳ء تک دنیا میں ۸۰ مراقبہ ہال قائم ہوئے ہیں۔ ان مراقبہ ہالز میں ایسا ماحول Createکیا جاتا ہے جہاں کی فضا سکون و اطمینان کی لہروں کے ارتعاش پر قائم ہے۔ ذکر و اذکار کی محفلیں ہوتی ہیں۔ مراقبے کئے جاتے ہیں۔ نماز، روزہ اور عبادت و ریاضت میں ذہنی یکسوئی نصیب ہوتی ہے۔ سلسلۂ عظیمیہ کا Aimاللہ کی مخلوق کی خدمت کر کے اپنی ذات کا عرفان اور عرفان الٰہی حاصل کرنا ہے۔ 


بچوں کے محمدﷺ (جلد دوئم)

خواجہ شمس الدین عظیمی

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔