Topics
صلوٰۃ ذہنی یکسوئی حاصل
کرنے کا ایک ایسا طریقہ ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام اور سیدنا حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے اختیار فرمایا ہے۔ اس طریقہ میں بڑی اہمیت تفکر کو ہے۔ صلوٰۃ
میں اللہ کے ساتھ بندے کا تعلق قائم ہو جاتا ہے جب بندہ اس تفکر کے ساتھ اللہ کے
سامنے حاضر ہوتا ہے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے تو اللہ کی صفات میں ذہن مرکوز ہو
جاتا ہے۔ روحانی کیفیات میں تفکر بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و
سلم نے ایک طویل مدت تک غار حرا میں اللہ کی نشانیوں پر تفکر فرمایا ہے۔ تفکر کا
مفہوم یہ ہے کہ ہر طرف سے ذہن ہٹا کر اللہ کی نشانیوں پر غور کیا جائے۔ ارکان
اسلام کی تکمیل کے بعد بندہ کا اللہ کے ساتھ رابطہ قائم رہتا ہے۔
صلوٰۃ اس عبادت کا نام ہے
جس میں اللہ کی بڑائی، تعظیم اور اس کی ربوبیت و حاکمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے،
نماز ہر پیغمبر اور اس کی امت پر فرض ہے۔ نماز قائم کر کے بندہ اللہ سے قریب ہو
جاتا ہے۔ نماز فواحشات اور منکرات سے روکتی ہے۔ صلوٰۃ دراصل اللہ سے تعلق قائم
کرنے کا یقینی ذریعہ ہے۔ مسلسل گہرائیوں کے ذریعہ سالک کو ذہنی مرکزیت قائم کرنے
کی مشق ہو جاتی ہے اس لئے مراقبہ کرنے والے حضرات و خواتین جب نماز ادا کرتے ہیں
تو آسانی سے ان کا دلی تعلق اللہ کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام
نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی بے آب و گیا زمین پر آباد کیا تو
اس کی غرض یہ بیان کی:
’’اے ہمارے پروردگار! تا
کہ وہ صلوٰۃ (آپ کے ساتھ تعلق اور رابطہ( قائم کریں۔‘‘
(سورۂ ابراہیم۔ آیت
نمبر۳۷)
’’اے میرے پروردگار! مجھ
کو اور میری نسل میں سے لوگوں کو صلوٰۃ (رابطہ) قائم کرنے والا بنا۔‘‘
(سورۂ ابراہیم۔ آیت
نمبر۴۰)
’’حضرت اسمٰعیل علیہ
السلام اپنے اہل و عیال کو صلوٰۃ قائم کرنے کا حکم دیتے تھے۔‘‘
(سورۂ مریم۔ آیت نمبر۵۵)
حضرت لوط علیہ السلام،
حضرت اسحٰق علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کی نسل کے پیغمبروں کے
بارے میں قرآن کہتا ہے:
’’اور ہم نے ان کو نیک
کاموں کے کرنے اور صلوٰۃ قائم کرنے کی وحی کی۔‘‘
(سورۂ انبیاء۔ آیت
نمبر۷۳)
’’اے میرے بیٹے صلوٰۃ
قائم کر۔‘‘ (سورۂ لقمان۔ آیت نمبر۱۷)
اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ
السلام سے کہا۔
’’اور میری یاد کیلئے
صلوٰۃ قائم کر (یعنی میری طرف ذہنی یکسوئی کے ساتھ متوجہ رہ)‘‘۔
(سورۂ طحہٰ۔ آیت نمبر۱۴)
حضرت موسیٰ علیہ السلام
اور حضرت ہارون علیہ السلام کو اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل کو اللہ نے حکم دیا۔
’’اور اللہ نے صلوٰۃ کا
حکم دیا ہے۔‘‘ (سورۂ یونس۔ آیت نمبر ۸۷)
عرب میں یہود اور عیسائی
قائم الصلوٰۃ تھے۔
’’اہل کتاب میں کچھ لوگ
ایسے بھی ہیں جو راتوں کو کھڑے ہو کر اللہ کی آیتیں پڑھتے ہیں اور وہ سجدہ (اللہ
کے ساتھ سپردگی) کرتے ہیں۔‘‘
’’اور وہ لوگ جو حکم
پکڑتے ہیں کتاب (اللہ کے بنائے پروگرام اور آسمانی قانون) کو اور قائم رکھتے ہیں
صلوٰۃ ہم ضائع نہیں کرتے اجر نیکی کرنے والوں کے۔‘‘
(سورۂ اعراف۔ آیت
نمبر۱۷۰)
بندہ جب اللہ سے اپنا
تعلق قائم کر لیتا ہے تو اس کے دماغ میں ایک دروازہ کھل جاتا ہے جس سے گزر کر وہ
غیب کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔
صلوٰۃ ذہنی مرکزیت (Concentration)
کو بحال کر دیتی ہے۔ انسان ذہنی یکسوئی کے ساتھ شعوری کیفیات سے نکل کر لاشعوری
کیفیات میں داخل ہو جاتا ہے۔
اللہ کی طرف متوجہ ہونے
کا مطلب یہ ہے کہ بندہ ہر طرف سے ذہن ہٹا کر شعوری دنیا سے نکل کر لاشعوری دنیا
یعنی غیب کی دنیا سے آشنا ہو جائے۔
نماز میں خیالات سے بچنے
کا طریقہ یہ ہے کہ:
’’صلوٰۃ قائم کرنے سے
پہلے آرام دہ نشست میں قبلہ رخ بیٹھ کر تین مرتبہ درود شریف، تین بار کلمہ شہادت
پڑھیں اور آنکھیں بند کر کے ایک سے تین منٹ تک یہ تصور قائم کریں کہ:
’’میں عرش کے نیچے ہوں
اور اللہ تعالیٰ میرے سامنے ہیں اور میں اللہ کو سجدہ کر رہا ہوں‘‘۔
قرآن حکیم اللہ کا کلام
ہے اور ان حقائق و معارف کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے بوسیلہ حضرت جبرائیل علیہ
السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب اطہر پر نازل فرمائے۔ قرآن مجید کا ہر
لفظ انوار و تجلیات کا ذخیرہ ہے۔
بظاہر مضامین غیب عربی
الفاظ میں ہیں لیکن ان الفاظ کے پیچھے نوری معانی کی وسیع دنیا موجود ہے۔ تصوف کے
اساتذہ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے شاگرد الفاظ میں موجود مخفی نور کو دیکھ
لیں تا کہ قرآن حکیم اپنی پوری جامعیت اور معنویت کے ساتھ ان پر روشن ہو جائے۔
روحانی اساتذہ بتاتے ہیں
کہ جب بھی قرآن مجید کی تلاوت کی جائے، چاہے نماز میں، تہجد کے نوافل میں یا صرف
تلاوت کے وقت، نمازی یہ تصور کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کلام کے ذریعے مجھ سے مخاطب
ہیں اور میں اسی کی معرفت اس کلام کو سن رہا ہوں۔ تلاوت کے وقت یہ خیال رکھا جائے
کہ الفاظ کے نوری تمثلات ہمارے اوپر منکشف ہو رہے ہیں۔
بندہ جب ذہنی توجہ کے
ساتھ کلام اللہ کی تلاوت کرتا ہے تو اسے انہماک نصیب ہو جاتا ہے۔ قرآنی آیات کو
بار بار پڑھنے سے ملاء اعلیٰ سے ایک ربط پیدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جس قدر قلب کا
آئینہ صاف ہوتا ہے اسی مناسبت سے معافی و مفاہیم کی نورانی دنیا اس کے اوپر ظاہر
ہونے لگتی ہے۔
اللہ کی دوستی حاصل کرنے
کے لئے قرآن حکیم نے جس پروگرام کا تذکرہ کیا ہے اس میں دو باتیں بہت اہم اور ضروری
ہیں۔
’’قائم کرو صلوٰۃ اور ادا کرو زکوٰۃ‘‘
(سورۂ بقرہ۔ آیت نمبر۴۳)
قرآنی پروگرام کے یہ
دونوں اجزاء نماز اور زکوٰۃ، روح اور جسم کا وظیفہ ہیں۔ وظیفہ سے مراد وہ حرکت ہے
جو زندگی کی حرکت کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا
ارشاد ہے:
’’جب تم نماز میں مشغول
ہو تو یہ محسوس کرو کہ ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں یا یہ محسوس کرو کہ اللہ
تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے۔‘‘
نماز میں وظیفۂ اعضاء کی
حرکت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع رہنے کی عادت ہونی چاہئے۔ ذہن کا اللہ
تعالیٰ کی طرف رجوع ہونا روح کا وظیفہ ہے۔ اور اعضاء کا حرکت میں رہنا جسم کا
وظیفہ ہے۔ قیام صلوٰۃ کے ذریعے کوئی بندہ اس بات کا عادی ہو جاتا ہے کہ وہ زندگی
کے ہر شعبے میں اللہ کی طرف متوجہ رہتا ہے۔
جس حد تک حضور صلی اللہ
علیہ و سلم کے اسوۂ حسنہ پر کسی امتی کا عمل ہوتا ہے، اسی مناسبت سے اسے حضوری
نصیب ہو جاتی ہے۔ قلب میں جلا پیدا کرنے کے لئے ہمیں خود کو ان چیزوں سے دور کرنا
ہو گا جو ہمیں پاکیزگی، صفائی اور نورانیت سے دور کرتی ہیں۔ اس دماغ کو رد کرنا ہو
گا جو ہمارے اندر نافرمانی کا دماغ ہے۔ اس دماغ سے آشنائی حاصل کرنا ہو گی جو جنت کا دماغ ہے اور جس دماغ
پر تجلیات کا نزول ہوتا ہے۔
نماز ایسا وظیفۂ اعضاء
اور روحانی عمل ہے جس میں تمام جسمانی حرکات اور روحانی کیفیات شامل ہیں۔
نمازی اللہ کی طرف رجوع
ہونے کی نیت کرتا ہے۔ پھر وضو کر کے پاک صاف ہوتا ہے۔ پاک جگہ کا انتخاب کرتا ہے۔
قبلہ رخ کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتا ہے۔ پھر ہاتھ باندھ لیرتا ہے۔ قرآن
حکیم کی تلاوت کرتا ہے یعنی اللہ سے ہمکلام ہوتا ہے۔ اللہ کی حمد پڑھتا ہے اور
اللہ کی صفات بیان کرتا ہے۔ پھر جھک جاتا ہے۔ تسبیح پڑھتا ہے میرا رب پاک اور عظیم
ہے۔ پھر کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے اے ہمارے رب ہم تیری تعریف کرتے ہیں۔ پھر
سجدے میں چلا جاتا ہے۔ جبین نیاز زمین پر رکھ کر اعلان کرتا ہے اے ہمارے رب تو ہی
سب سے اعلیٰ اور بلند مرتبہ ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام
بھیج کر سلام عرض کرتا ہے۔ نماز میں ہاتھ دھونا، کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا،
منہ دھونا، سر کا مسح کرنا وغیرہ سب جسمانی وظیفہ ہے۔ نماز میں کھڑے ہونا، جھکنا،
سجدہ کرنا، دوزانوں بیٹھنا اور ادھر اُدھر دیکھنا یہ بھی جسمانی وظیفہ ہے۔ سب
اعمال کا مقصد یہ ہے کہ جسم کے ہر عمل میں ذہن اللہ کے ساتھ وابستہ رہے۔ صلوٰۃ ایک
ایسا عمل اور ایسا شغل ہے کہ جس کو پورا کرنے سے بندے کا ذہن اس بات کا عادی ہو
جاتا ہے کہ وہ اپنے ہر عمل میں اللہ کو دیکھتا ہے۔ نماز بندہ اور اللہ کے درمیان
ایک راستہ ہے۔ نماز میں مشغول ہو کر بندہ غیر خدا سے دور ہو کر خدا سے قریب ہو جاتا
ہے۔ بندہ کے اندر جب یہ کیفیت مستحکم ہو جاتی ہے تو اسے مرتبہ احسان حاصل ہو جاتا
ہے۔ نماز مرتبہ احسان پر عمل کرنے کا مکمل پروگرام ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
تصوف
کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار
کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا
ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ
محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی
صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس
اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان
ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے
ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند
بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ
صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا
نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے
اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل
کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں
بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت
اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا
علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔