Topics

تصوف کی اہمیت و حقیقت

حضرت عمر ابن خطابؓ سے روایت ہے کہ:

ایک روز اچانک جبرائیل علیہ السلام بہ صورت انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دو زانو مؤدب بیٹھ کر چند سوال کئے۔

۱) اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بتایئے کہ اسلام کیا ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کا رسول ہے اور قائم کرو صلوٰۃ اور ادا کرو زکوٰۃ اور رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔ اگر سفر خرچ کی استطاعت ہو۔

جبرائیل ؑ نے کہا:

صحیح فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے

۲) حضرت جبرائیل ؑ نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! ایمان کیا ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور ایمان لاؤ اس کی تقدیر پر بھلی ہو یا بری۔

جبرائیل ؑ نے فرمایا: سچ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے۔

۳) حضرت جبرائیل ؑ نے پوچھا: احسان کیا ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کر کہ گویا تو اللہ کو دیکھ رہا ہے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو اس طرح عبادت کر کہ گویا اللہ تجھے دیکھ رہا ہے۔

جبرائیل ؑ نے کہا:

سچ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے۔

(تعلیم غوثیہ)

حضرت جبرائیل ؑ کے اس استفسار میں تین باتیں بطور خاص فکر طلب ہیں۔

*  اسلام کیا ہے؟

*  ایمان کسے کہتے ہیں؟

*  اور احسان کیا ہے؟

اسلام:

اللہ وحدہ لاشریک کو ایک مان لینا اور اسی کو برحق معبود سمجھنا اسلام ہے۔ شریعت مطہرہ پر بلا چوں و چرا عمل کرنا، یہی امن اور سلامتی کا راستہ ہے۔

ایمان:

ایمان یہ ہے کہ اعمال و اشغال کے نتیجے میں ایسا یقین حاصل ہو جائے جس میں شک کا شائبہ نہ رہے۔ ایمان یقین ہے اور یقین مشاہدہ سے مشروط ہے۔ کوئی عدالت عینی شہادت کے بغیر گواہی قبول نہیں کرتی۔

احسان:

احسان کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اللہ کو دیکھ کر عبادت کرے یا بندہ اس کیفیت میں ہو کہ اسے اللہ دیکھ رہا ہے۔ یقین کے اس درجے کو تصوف میں مرتبۂ احسان کہتے ہیں۔ اگر آدمی اسلام قبول نہیں کرے گا تو مسلمان نہیں ہو گا اور اگر مسلمان یقین کی دولت سے مالا مال نہیں ہو گا تو مومن نہیں ہو گا اور مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ کو دیکھتا ہے یا وہ اس بات کا مشاہدہ کرتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔

علماء اس حدیث شریف کی تشریح اس طرح کرتے ہیں:

اسلام یہ ہے کہ شریعت کے آداب و احکامات کا علم ہو اور اس پر عمل کیا جائے۔ ایمان یہ ہے کہ اللہ پر اعتقاد رکھا جائے کہ اس کی ذات و صفات اور اس کے فرشتے اللہ کے فرمان کے مطابق برحق ہیں۔

فرشتے اللہ کے فرمانبردار ہیں اور ہم اس کی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں کہ یہ اس کا کلام قدیم ہے جو اس نے اپنے رسولوں پر نازل فرمایا اور رسولوں کو اللہ نے مخلوق کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے۔ وہ معصوم و گناہوں سے پاک ہیں اور ہم ایمان لاتے ہیں قیامت، بہشت دوزخ کے عذاب و ثواب پر۔

اہل تصوف اس حدیث شریف کی تشریح یہ کرتے ہیں:

اسلام قبول کر کے، احکام شریعت پر پوری طرح عمل کر کے غیب کی دنیا میں فرشتوں کو دیکھنا اور اللہ رب العزت کے سامنے حضور قلب سے حاضر ہونا ہے۔

جاننا چاہئے کہ یہ مقام شہود و مشاہدہ ہے اور یہ کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ یہ مقام مراقبہ ہے اس مراقبہ میں بندہ علم الٰہی سے آگاہی حاصل کرتا ہے۔

(مشاہدۂ حق)

انفس و آفاق:

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں اور خود ان کے نفوس میں دکھلائیں گے۔‘‘

حضرت رابعہ بصریؒ :

حضرت رابعہ بصریؒ نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا۔ اے اللہ! اگر میں تیری عبادت دوزخ کے خوف سے کرتی ہوں تو مجھے اس میں جھونک دے اور اگر میں تیرے حضور جنت کی لالچ میں سجدہ کرتی ہوں تو مجھے اس جنت سے محروم کر دے اور اگر میں صرف تیری ذات کے لئے تیری عبادت کرتی ہوں تو، تُو مجھے اپنے دیدار سے نواز دے۔

(ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین)

زاہد و عابد دوزخ سے نجات اور جنت کی ابدی نعمتیں حاصل کرنے کے لئے عبادتیں کرتے ہیں صوفیاء کے اوپر بھی عبادت فرض ہے لیکن وہ عبادت میں ہمہ وقت اللہ کی طرف متوجہ رہتے ہیں، وہ صرف اس لئے اللہ کے ساتھ وابستہ رہتے ہیں کہ ان کی زندگی کا مقصد اللہ کے علاوہ دوسرا نہیں ہوتا۔ وہ اللہ سے اللہ کو مانگتے ہیں۔

فلاسفہ اور تصوف:

انسان کی عقل اور روحانی زندگی میں تصوف کی اہمیت کا اندازہ مشہور فلسفی برٹرینڈرسل کی اس تحریر سے ہوتا ہے:
’’دنیا میں جس قدر عظیم فلسفی گزرے ہیں سب نے فلسفہ کے ساتھ ساتھ تصوف کی ضرورت کا اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ دنیائے افکار میں انتہائی بلند مقام صرف سائنس اور تصوف کے اتحاد سے ہو سکتا ہے اور بہترین انسانی خوبیوں کا اظہار تصوف کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔‘‘

برٹرینڈرسل نے حسب ذیل فلاسفہ کے نام بطور مثال کے پیش کئے ہیں، پرقلیطوس، پارمینائڈیز، افلاطون، اسپنوزا، برونو، ہیگل، برگساں اور وہائٹ بیڈ وغیرہ۔ فلاسفہ نے تصوف کی اہمیت پر مقالے لکھے ہیں۔ تصوف کیا ہے، تصوف خالق اور مخلوق کے تعارف کا ذریعہ ہے۔

تصوف سالک کے اوپر یہ حقیقت پوری طرح واضح کر دیتا ہے کہ انسان کا مادی جسم اور مادی جسم کے تمام تقاضے روح کے تابع ہیں۔

روح کے بغیر مادی جسم Dead Bodyہے۔

مذہب و تصوف:

تصوف مذہب کی روح ہے۔

مذہب کیا ہے؟۔۔۔مذہب اپنے پیروکاروں میں یقین پیدا کرتا ہے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے۔

مذہب شعور عطا کرتا ہے کہ رزق اللہ دیتا ہے، میں جو کچھ خرچ کرتا ہوں، وہ اللہ کا دیا ہوا ہے۔

مذہب۔۔۔انسان کو صراط مستقیم پر قائم رکھتا ہے۔

جب کوئی انسان مذہبی ارکان پورے کرتا ہے تو وہ روح کی حقیقت سے باخبر ہو جاتا ہے اور یومنون بالغیب کے زون میں داخل ہو جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔مذہب مساوات کا درس ہے اور اپنے پیروکاروں میں یقین پیدا کرتا ہے کہ اللہ ہر وقت ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔

۔۔۔۔۔۔سچا آدمی کسی کی حق تلفی نہیں کرتا۔

۔۔۔۔۔۔اللہ کی رسی کو متحد ہو کر مضبوطی سے پکڑنے اور تفرقے سے بچنے کے لئے مذہب ایک پلیٹ فارم ہے۔

مذہبی دانشور کہتا ہے اے مسلمان اللہ سے ڈر۔

صوفی کہتا ہے! اے مسلمان خالی زبان سے اللہ کا نام نہ لے۔۔۔منافقت کا کھیل نہ کھیل، دل کے راستے یقین کی دنیا میں اتر جا۔ اللہ سے محبت کر۔ اور اللہ کو خوش کرنے کے لئے گناہوں سے اجتناب کر۔

ہر انسان کسی نہ کسی عقیدہ پر قائم رہتا ہے۔ اس لئے کہ ان دیکھے مستقبل کی حفاظت کے لئے کسی ایک ذات پر یقین ہونا ضروری ہے۔

بڑوں کا قول ہے۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ یہ چراغ وہ توحید پرست صاحب دل حضرات و خواتین ہیں جو تزکیہ اور تقویٰ کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔

صاحب دل انسان! تمام انسانوں سے محبت کرتا ہے۔ علوم و فنون کا احترام کرتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے احکامات پر خوش ہو کر عمل کرتا ہے۔ خود بھی خوش رہتا ہے اور دوسروں کو بھی خوش رکھتا ہے۔ تمام رذائل اخلاق سے پاک ہو جاتا ہے۔۔۔اگر ایسا نہیں ہے تو وہ صوفی نہیں ہے۔

عمل کے بغیر عرفان حاصل نہیں ہوتا۔ پس جو شخص باعمل نہیں وہ صوفی نہیں ہے۔ اسے ہم فلسفی یا متکلم کہہ سکتے ہیں۔

صوفی اپنے باطن سے واقف ہوتا ہے۔ اللہ کی صفات کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اس کے اوپر غیب کی دنیا روشن ہوتی ہے وہ صرف تزکیۂ نفس کی تلقین نہیں کرتا۔ اپنے شاگردوں کو بتاتا ہے کہ انسان کے اندر پوری کائنات بسی ہوئی ہے، کائنات باہر نہیں ہے ہمارے اندر ہے۔ اللہ نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے کہ جو لوگ عرفانِ الٰہی کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان بندوں کے اوپر ہدایت کے راستے کھول دیتا ہے۔

تعلق خاطر کے ساتھ یقین و استحکام کے ساتھ دل کی گہرائیوں کے ساتھ کوشش کرو گے تو تم اللہ کو دیکھ لو گے۔

محبت:
تصوف مذہب کی روح ہے۔ اور روح باطن کی گہرائیوں میں مشاہدہ کا ذریعہ ہے۔ مومن و کافر، ہندو مسلمان کالے گورے اپنے پرائے ہر شخص سے صوفی اس لئے محبت کرتا ہے کہ سب اللہ کی مخلوق ہیں۔ وہ کسی پر جبر نہیں کرتا۔ اس کے اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر لوگ اسلام قبول کر لیتے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:

’’مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔‘‘

ولی اللہ بھی خود کو اللہ کے کنبہ کا فرد سمجھتے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ ہر شئے کے ظاہر و باطن میں اللہ کا نور جلوہ گر ہے، ہر شئے میں اسی کا ظہور ہے۔ ساری کائنات پر اسی کی حکمرانی ہے۔ وہی پیدا کرتا ہے، وہی زندہ رکھتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ پیدا ہونے، زندہ رہنے اور کبھی نہ مرنے پر کسی کو کوئی اختیار نہیں ہے۔

ماورائی شعور:

رب العالمین انسان پر یہ حقیقت منکشف کرتے ہیں کہ عالم ایک نہیں ہے۔ شماریات سے زیادہ عالمین ہیں اور ہماری دنیا کی طرح کروڑوں دنیائیں اور ہیں۔ اور تمام دنیاؤں کو اللہ تعالیٰ وسائل عطا کرتا ہے۔

ان کے کھانے پینے، لباس، گھر، روزگار اور نسلوں کے لئے توازن، تواتر اور تسلسل کے ساتھ رزق پیدا کرتا ہے۔ اور سیدنا حضور صلی اللہ علیہ و سلم ان وسائل کو رحمت کے ساتھ تقسیم فرماتے ہیں۔

ایک عالم یا ایک دنیا کے علاوہ لاشمار دنیاؤں کو دیکھنا۔ سمجھنا اور ان دنیاؤں کے شب و روز سے واقف ہونا۔ ناسوتی شعور سے ممکن نہیں ہے۔ ہر انسان کے اندر ناسوتی شعور کے ساتھ، ماورائی شعور بھی ہے۔ اس میں ماورائی شعور سے واقفیت حاصل کرنے کا علم تصوف ہے۔ جس نے اپنے نفس (ماورائی شعور) کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔

نوعوں میں افضل بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ نے اپنے پاس بلایا اور خود سے اتنا قریب کر لیا کہ دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا یا اس سے کم۔

’’ہم نے اپنے محبوب بندے سے راز و نیاز کی باتیں کیں اور ہمارے بندے نے جو دیکھا جھوٹ نہیں دیکھا۔‘‘
(سورۂ نجم: آیت نمبر
۱۰۔۱۱)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہایت مشقت، مصائب اور پریشانی برداشت کر کے اپنی امت کو توحید پر قائم رہنے کا پروگرام عطا کیا ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:

* جو تم اپنے لئے چاہو وہی اپنے بہن بھائیوں کے لئے چاہو۔

* علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے۔

* جہاں تم چار ہو وہاں پانچواں اللہ ہے۔

* اللہ تمہاری رگِ جاں سے زیادہ قریب ہے۔

* اللہ ہر شئے پر محیط ہے۔

* دوسرے مذاہب کے علماء کا احترام کرو، انہیں برا نہ کہو اگر تم برا کہو گے تو وہ تمہارے علماء کو برا کہیں گے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ معاف اور درگزر فرما دیتے تھے۔

اللہ کی کتاب قرآن حکیم میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے:

’’پس آپس میں تفرقہ نہ ڈالو‘‘۔ (سورۂ آل عمران۔ آیت نمبر۱۰۳)


بچوں کے محمدﷺ (جلد دوئم)

خواجہ شمس الدین عظیمی

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔