Topics

تصوف اور رہبانیت

یہ اعتراض کہ تصوف رہبانیت کی طرف آمادہ کرتا ہے اور صوفی کاہل الوجود ہوتے ہیں۔ نہایت مضحکہ خیز بات ہے۔

صوفی کے علاوہ جو لوگ کام نہیں کرتے ہڈ حرام ہوتے ہیں۔ بچوں کے حقوق پورے نہیں کرتے، بیویاں دن بھر کام کرتی ہیں، شوہر گھر میں بیٹھ کر وقت ضائع کرتے ہیں۔ کیا یہ سب بھی صوفی ہیں؟

ترکِ دنیا:

صوفی روحانی صلاحیت اور باطنی استعداد کو متحرک کرنے کے لئے جب خانقاہ میں داخل ہوتا ہے۔ چند سال تک خانقاہ کے ہاسٹل میں رہتا ہے۔ تو اسے مخالفین راہب اور تارک الدنیا کہتے ہیں۔ اور جب کوئی طالب علم دنیاوی علم حاصل کرنے کے لئے کارپینٹر کا کام سیکھنے کے لئے، ملازم حکمران کی اطاعت کیلئے، مزدور مزدوری کیلئے، اجیر فیکٹری میں کام کرنے کیلئے جب سالہا سال گھر اور وطن سے دور رہتا ہے۔ تو کوئی نہیں کہتا یہ تارک الدنیا ہے۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ راہب ہے۔

سالک خانقاہ میں رہ کر اپنی باطنی کیفیات کا مشاہدہ کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت سے مشرف ہوتا ہے۔ اللہ کا عرفان حاصل کرتا ہے۔ بلاصلہ و ستائش اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنے کے لئے خود کو اہل بناتا ہے۔ اللہ کا دوست بن کر خوف اور غم سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ تو اسے راہب اور دنیا بیزار کے القاب سے نوازا جاتا ہے۔

تصوف مذہب کی روح ہے اور اسلام کے اصولوں پر اس کی تدوین ہوئی ہے۔ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ دوسرے علوم کی طرح روحانی طالب علم شب و روز محنت کر کے، وقت لگا کر یہ علم سیکھتا ہے اور جب علم کی تکمیل ہو جاتی ہے تو گوشہ نشینی یا ہوسٹل کی رہائش ترک کر دیتا ہے اور دنیا کے سارے کام پورے کرتا ہے۔ سالکین کے اوپر یہ الزام ہے کہ وہ تارک الدنیا ہوتے ہیں۔ کیا ہم لاہور میں مقیم حضرت داتا گنج بخشؒ اور ملتان میں موجود حضرت بہاؤ الدین زکریاؒ کو تارک الدنیا کہہ سکتے ہیں۔

داتا صاحبؒ کا مزار مرجع خلائق ہے جہاں ہزاروں انسان روزانہ کھانا کھاتے ہیں۔ کیا ہم اس دعوتِ عام کو ترکِ دنیا کا نام دے سکتے ہیں۔

 

مذاہب عالم اور تصوف

تصوف کی ابتداء کس طرح ہوئی اور تصوف کی شروعات کہاں سے ہوئی۔ اس کے بارے میں تاریخ میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ ایک معمہ ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ تصوف سب سے پہلے فارس میں نمودار ہوا۔ جب زرتشتی عقائد دنیا میں پھیل گئے اور شام اور مصر سے یونان میں اور وہاں سے چین اور ہندوستان میں داخل ہوئے تو ان عقائد کے ساتھ ساتھ جو روایات عوام تک پہنچیں ان کو تصوف کا نام دے دیا گیا۔

(اسلامک انسائیکلوپیڈیا)

یونانی تصوف:

یونان میں صوفیانہ تصوف کا آغاز ایک دیومالائی شخص ’’آرمینّس‘‘ سے ہوا۔ اس وقت مغربی ایشیاء میں سامامی افکار اور زرتشتی عقائد پھیلے ہوئے تھے۔ جنہوں نے رفتہ رفتہ عمومی رسومات کی صورت اختیار کر لی۔ فلسفیانہ افکار نے عقلیت پسند ذہنوں کو ان رسومات سے بدگمان کر دیا۔

انہوں نے ایک طرف تو خیر و شر کی پائیدار اقدار کی تلاش شروع کر دی اور دوسری طرف شر سے محفوظ رہنے کے طریقوں کو تلاش کیا۔ اس ماحول میں آرمینّس کے باطنی نظریہ نے جنم لیا۔ اس نے ’’زہد و اتقا‘‘ کو بنیاد قرار دے کر ذاتی تجربہ اور ان کی فکری توجیہات کی اشاعت شروع کی۔ تاریخ میں پہلی بار آمینّس نے خانقاہیں تعمیر کیں۔ اس نے یہ عقیدہ پیش کیا۔ اگر روح جسم کی بندشوں اور مادی حدود سے آزاد ہو جائے تو اس کی قوتوں میں بے حد اضافہ ہو گا۔ مادی جسم کی بندشوں سے آزادی کے لئے جو طریقے وضع کئے گئے۔

اس میں دنیا سے دور ہو کر ریاضت و مجاہدے شامل تھے۔ اس تصور سے رہبانیت کا آغاز ہوا۔ لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ مرتب نہیں ہوا۔

یونان کے بعد اسکندریہ میں فیثا غورثی فلسفہ قائم ہوا۔ جس میں بتایا گیا کہ ’’خدا، روح اور جسم‘‘ تین مختلف چیزیں ہیں۔ خدا نے روح کو جو خیر مطلق تھی، جسم میں مقید کر دیا ہے۔ چنانچہ جسمانی جذبات اور خواہشات پر قابو پانا ہی روح کی معراج ہے اور اس معراج کے حصول کے لئے مخصوص رسومات کا رواج دیا گیا۔


فیثا غورث کے بعد یونان کا بڑا فلسفی فلاطینوس تھا۔ اس کے نزدیک خدا ہر شئے سے بلند اور ماوراء ہے۔ وہ کہتا ہے عالم دو ہیں۔ ایک محسوسات کا عالم اور دوسرا معقولات کا عالم۔ روح محسوسات کے عالم سے تعلق رکھتی ہے۔(اسلامک انسائیکلوپیڈیا)

یہودی تصوف:

یہودیوں کے یہاں ظاہری رسوم کی پابندی پر زور دیا گیا ہے۔ یونانی اثرات کے تحت یہودی مذہب میں جس تصوف نے جنم لیا۔ اس کا بہترین نمائندہ حکیم فیلو ہے۔ حکیم فیلو نے مذہب اور فلسفہ میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی۔

یہودی تصوف میں خدا کے دو وجود ملتے ہیں۔ ایک خدائے خالق اور دوسرا خدائے مطلق۔ ان کے نزدیک تورات کا خدا، خدائے خالق ہے۔ لیکن حقیقی خدا ایک علیحدہ ہستی ہے جو انسانوں کی عقل سے ماوراء ہے۔ خدائے خالق کو انہوں نے حقیقی خدا کے مشاہدے کا وسیلہ قرار دیا ہے۔ (اسلامک انسائیکلوپیڈیا)

عیسائی تصوف:

عیسائی تصوف کی بنیادیں بابلی اور مصری تہذیب کی پیداکردہ ہیں۔ صوفیاء کے نزدیک کائنات کے تمام واقعات نہ تو قوانین فطرت اور انسانی ارادہ سے ظاہر ہوتے ہیں۔ بلکہ تمام واقعات دیوتاؤں کے فیصلہ کا نتیجہ ہیں۔ یہ دیو مالائی فیصلے باطنی اسرار سمجھے جاتے ہیں۔

ہندومت اور تصوف:

وید کے اشلوک اور بھگوت گیتا کی عبارتیں پڑھ کر غیر جانبدار آدمی اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ویدانت توحیدی عقیدہ پر قائم ہے۔ جس طرح دوسرے پیغمبروں نے توحید و رسالت کا پرچار کیا ہے۔ اسی طرح ان دونوں کتابوں میں بھی واضح طور پر توحید کا پیغام موجود ہے۔ کرشن جی نے جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم بھی یہ ہے کہ زمین پر سے شر اور فساد کو ختم کیا جائے اور خیر کو پھیلا دیا جائے۔ انسان کا خالق سے ایک رشتہ ہے اور وہ رشتہ یہ ہے کہ انسان مجبور ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کفالت میں رہنے کے لئے۔ خالق اور مخلوق کی صفات جداگانہ ہیں۔

روح سے دوری شر اور فساد کو جنم دیتی ہے۔ اور روح سے قربت انسان کی قوت میں ایسے اضافے کرتی ہے جس سے انسان عالم بالا کی سیر کرتا ہے اور ریاضت و مشقت کے نتیجہ میں خالق ارض و سماء سے متعارف ہو جاتا ہے۔

ہر انسان کم و بیش جسمانی صلاحیتوں سے واقف ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ انسانی صلاحیت روح کے تابع ہے۔ جب تک کوئی انسان روح کی فضیلت سے واقف نہیں ہوتا اس وقت تک وہ فانی اور سڑاند کے جسم میں مقید رہتا ہے۔

دوسرے مذاہب کی طرح ہندو مذہب کے دانشوروں نے بھی اپنی اپنی مصلحتوں کے تحت مذہب کی تشریح کی اور مذہب میں ایسی رسومات داخل کر دیں۔ جن کا تعلق روحانی وظائف سے نہیں ہے۔ ان مصلحتوں میں ایک مصلحت آواگون کی بھی ہے۔ اسی آواگون کی وجہ سے حلول و ارتحاد کی اصطلاحات وجود میں آئیں۔ ہندو مذہب کے صحیح پجاری اور سچے راستے پر قائم رہنے والے بزرگوں نے مذہبی دانشوروں کی بہت ساری مصلحتوں کے سامنے دیواریں کھڑی کیں لیکن عوام کے اذہان ان کا ساتھ نہیں دے سکے۔ نتیجہ میں ہندو مذہب میں بت پرستی کا عنصر غالب آ گیا۔ بت پرستی کے عروج کی ایک بڑی وجہ دیو مالائی کہانیاں بھی ہیں۔ جو دیو دیوتاؤں سے منسوب کر کے عوام کے ذہنوں میں راسخ کی گئی ہیں۔ لیکن اب بھی ہندو مذہب کے سچے پیروکار موّحد ہیں اور توحید پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہندو موّحد حضرات و خواتین حضرت نوح علیہ السلام کی تعلیمات پر کاربند ہیں۔

تصوف اور سائنس:

روئیس ایک جگہ لکھتا ہے۔ سب سے زیادہ بہترین انسان جو تجربہ کی بنیاد پر سفر کرتا ہے وہ صوفی ہے۔ وہ اپنے تجربات اور واردات کو ہر قسم کے خارجی معیار پر پرکھتا ہے۔ اس کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے وہ خالص حقیقت تک پہنچ جائے۔
اور اس حقیقت کو عام علمی زبان میں بیان کر سکے۔ یعنی اسے بیان کرنے میں استدلال اور مشاہدے کی قوت حاصل ہو۔ سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ کوئی بات اس وقت قابل قبول ہے جب اس کے پیچھے دلیل ہو اور وہ بات مشاہدے میں آ جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فلسفہ، تصوف اور سائنس کا طریقۂ استدلال ایک ہے۔ اب سائنس کا یہ فرض ہے کہ وہ صوفیانہ واردات کا کھوج لگائے۔ اور ان تمام مشاہدات کو سائنسی دلیل کے ساتھ پیش کرے۔ جو آج تک شخصی اور ذاتی مشاہدے میں محدود سمجھی جاتی ہے۔

ولیم جیمز کے نزدیک ہر متصوفانہ واردات اور تجربہ ناقابل بیان ہوتا ہے۔ اس تجربہ میں صوفی جن واردات سے گزرتا ہے وہ اسے محسوس تو کرتا ہے اور الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے لیکن چونکہ اس کا تعلق محسوساتی دنیا سے نہیں ہوتا اس لئے وہ اسے مادی لباس نہیں پہنا سکتا۔ غور کرنے سے علم حاصل ہوتا ہے کہ صرف متصوفانہ واردات ہی نہیں ہر جذباتی تجربہ بھی ذاتی ہوتا ہے۔ چنانچہ ہر جذباتی تجربہ دوسرے تک منتقل نہیں ہو سکتا مثلاً محبت کے جذبات کے بارے میں کسی دوسرے کو سمجھانا محال ہے۔

عشق کسی استدلال کا محتاج نہیں ہے اور بطور تجربات اور واردات ایک ذاتی کیفیت ہے جس میں کوئی دوسرا شامل نہیں ہوتا۔


بچوں کے محمدﷺ (جلد دوئم)

خواجہ شمس الدین عظیمی

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔