Topics
تمام طرف سے ذہن ہٹا کر کسی
ایک نقطہ پر توجہ مرکوز کرنے کا نام مراقبہ ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ جب تک توجہ مرکوز
نہ ہو ہم کوئی کام احسن طریقہ پر نہیں کر سکتے۔ بچے اس لئے الف۔ب۔ج۔سیکھ لیتے ہیں
کہ ان کی توجہ استاد کے بولے ہوئے الفاظ پر مرکوز ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک منشی حساب
اس وقت صحیح کرتا ہے جب اس کی توجہ اِدھر اُدھر نہ بھٹکے۔ بصورت دیگر وہ کبھی حساب
صحیح نہیں کرتا۔ کسی بھی شعبہ میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کی توجہ اس کام
کی طرف قائم رہے۔
جس طرح دنیا کے تمام امور
کے لئے ذہنی مرکزیت ضروری ہے اسی طرح دینی امور میں ذہنی مرکزیت نہ ہو تو خیالات
کی یلغار رہتی ہے۔ خیالات کی یلغار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ نماز میں یہ بھی یاد
نہیں رہتا کہ نمازی نے کونسی سورۃ کس کس رکعت میں تلاوت کی ہے۔
مشائخ اور صوفیاء مراقبہ
کا اہتمام کرتے ہیں اور اپنے شاگردوں کو مراقبے کی تلقین کرتے ہیں۔ تصوف کی تعریف
یہ ہے کہ شریعت اور طریقت پر دلجمعی، یقین اور مداومت سے عمل کیا جائے۔ عرفان ذات
کے لئے شریعت تھیوری (Theory) ہے اور تصوف پریکٹیکل (Practical) ہے۔ بندہ جب اسلام کے ارکان پورے کرتا ہے تو یہ عمل دین کی
تھیوری ہے اور جب مسلمان ارکان کی حکمت پر غور کر کے حقیقت تلاش کر لیتا ہے تو یہ
عمل پریکٹیکل ہے۔ پریکٹیکل میں سالک رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنے والوں کو
اور سجدہ کرنے والوں کے ساتھ سجدہ کرنے والے فرشتوں کو دیکھتا ہے اور اللہ کا فضل
اس کے اوپر محیط ہو جاتا ہے۔ یہی ’’الصلوٰۃ المعراج المومنین‘‘ کا مفہوم ہے۔ نمازی
دیکھتا ہے کہ میں اللہ کو سجدہ کر رہا ہوں اور اللہ میرے سامنے ہے۔
مراقبہ کی تعریف مختلف
طریقوں سے بیان کی جاتی ہے۔
۱) تمام خیالات سے ذہن کو آزاد کر کے ایک
نقطہ پر مرکوز کر دیا جائے۔
۲)
جب مفروضہ حواس کی گرفت انسان کے اوپر سے ٹوٹ جائے تو انسان مراقبہ کی کیفیت میں
داخل ہو جاتا ہے۔
۳) جب انسان اپنے اوپر بیداری میں خواب کی حالت طاری کر لے تو وہ مراقبہ میں چلا
جاتا ہے۔
۴) یہ بات بھی مراقبہ کی تعریف میں آتی ہے کہ
انسان دور دراز کی باتیں دیکھ اور سن لیتا ہے۔
۵) شعوری دنیا سے نکل کر لاشعوری دنیا میں جب
انسان داخل ہو جاتا ہے تو یہ کیفیت بھی مراقبہ کی ہے۔
۶) مراقبہ میں بندہ کا ذہن اتنا زیادہ یکسو
ہو جاتا ہے کہ وہ دیکھتا ہے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے۔
۷) ایک ایسا وقت بھی آ جاتا ہے کہ مراقب یہ
دیکھتا ہے کہ میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔
انسان کی روح میں ایک
روشنی ایسی ہے جو اپنی وسعتوں کے لحاظ سے لامتناہی حدوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ اگر اس
لامتناہی روشنی کی حد بندی کرنا چاہیں تو پوری کائنات کو اس لامحدود روشنی میں
مقید تسلیم کرنا پڑے گا۔ یہ روشنی موجودات کی ہر چیز کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کے
احاطے سے باہر کسی وہم، خیال یا تصور کا نکل جانا ممکن نہیں ہے۔ روشنی کے اس دائرے
میں جو کچھ واقع ہوا تھا یا بحالت موجودہ وقوع میں ہے یا آئندہ ہو گا وہ سب ذات
انسانی کی نگاہ کے بالمقابل ہے۔
اس روشنی کی ایک شعاع کا
نام ’’باصرہ‘‘ ہے۔ یہ شعاع کائنات کے پورے دائرے میں دور کرتی رہتی ہے۔
کائنات ایک دائرہ ہے اور
یہ روشنی ایک چراغ ہے۔ اس چراغ کی لو کا نام باصرہ ہے۔ جہاں اس چراغ کی لو کا عکس
پڑتا ہے وہاں ارد گرد اور قرب و جوار کو چراغ کی لو دیکھ لیتی ہے۔ اس چراغ کی لو
میں جس قدر روشنیاں ہیں ان میں درجہ بندی ہے۔ کہیں لو کی روشنی بہت ہلکی، کہیں
ہلکی، کہیں تیز اور کہیں بہت تیز پڑتی ہے۔ جن چیزوں پر لو کی روشنی بہت ہلکی پڑتی
ہے ہمارے ذہن میں ان چیزوں کا تواہم پیدا ہوتا ہے۔ تواہم لطیف ترین خیال کو کہتے
ہیں۔ جو صرف ادراک کی گہرائیوں میں محسوس کیا جاتا ہے۔
جن چیزوں پر لو کی روشنی
ہلکی پڑتی ہے۔ ہمارے ذہن میں ان چیزوں کا خیال رونما ہوتا ہے۔ جن چیزوں پر لو کی
روشنی تیز پڑتی ہے۔ ہمارے ذہن میں ان چیزوں کا تصور قدرے نمایاں ہو جاتا ہے اور جن
چیزوں پر لو کی روشنی بہت تیز پڑتی ہے ان چیزوں تک ہماری نگاہ پہنچ کر ان کو دیکھ
لیتی ہے۔
وہم، خیال اور تصور کی
صورت میں کوئی چیز انسانی نگاہ پر واضح نہیں ہوتی اور نگاہ اس چیز کی تفصیل کو
نہیں سمجھ سکتی۔
شہود
کسی روشنی تک خواہ وہ بہت ہلکی ہو یا تیز ہو، نگاہ کے پہنچ جانے کا نام ہے۔ شہود
ایسی صلاحیت ہے جو ہلکی سے ہلکی روشنی کو نگاہ میں منتقل کر دیتی ہے تا کہ ان
چیزوں کو جو اب تک محض تواہم تھیں، خدوخال، شکل و صورت، رنگ اور روپ کی حیثیت میں دیکھا جا سکے۔ روح
کی وہ طاقت جس کا نام شہود ہے وہم کو خیال کو یا تصور کو نگاہ تک لاتی ہے اور ان
کی جزئیات کو نگاہ پر منکشف کر دیتی ہے۔
شہود میں برقی نظام بے حد
تیز ہو جاتا ہے اور حواس میں روشنی کا ذخیرہ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اس روشنی میں
غیب کے نقوش نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ مرحلہ شہود کا پہلا قدم ہے۔ اس مرحلے میں سارے
اعمال باصرہ نگاہ سے تعلق رکھتے ہیں۔یعنی صاحب شہود غیب کے معاملات کو خدوخال میں
دیکھتا ہے۔
قوت بصارت کے بعد شہود کا
دوسرا مرحلہ سماعت کا حرکت میں آنا ہے۔ اس مرحلہ میں کسی ذی روح کے اندر کے خیالات
آواز کی صورت میں صاحب شہود کی سماعت تک پہنچنے لگتے ہیں۔
شہود کا تیسرا اور چوتھا
درجہ یہ ہے کہ صاحب شہود کسی چیز کو خواہ اس کا فاصلہ لاکھوں برس کے برابر ہو،
سونگھ سکتا ہے اور چھو سکتا ہے۔
ایک صحابیؓ نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں اپنی طویل شب بیداری کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا
کہ ’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام! میں آسمان میں فرشتوں کو چلتے پھرتے
دیکھتا تھا۔‘‘ آنحضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
’’اگر تم شب بیداری کو قائم رکھتے تو فرشتے
تم سے مصافحہ بھی کرتے۔‘‘
دور رسالت علیہ الصلوٰۃ
والسلام کے اس واقعہ میں شہود کے مدارج کا تذکرہ موجود ہے۔ فرشتوں کو دیکھنا باصرہ
سے تعلق رکھتا ہے اور مصافحہ کرنا، لمس کی قوتوں کی طرف اشارہ ہے جو باصرہ کے بعد
بیدار ہوتی ہے۔
شہود کے مدارج میں ایک
ایسی کیفیت وہ ہے جب جسم اور روح کی واردات و کیفیات ایک ہی نقطہ میں سمٹ آتی ہیں
اور جسم روح کی تحریکات سے براہ راست متاثر ہوتا ہے۔
صوفیاء کے حالات میں اس
طرح کے بہت سے واقعات موجود ہیں۔ مثلاً ایک قریبی شناسا نے حضرت معروف کرخیؒ کے
جسم پر نشان دیکھ کر پوچھا کہ کل تک تو یہ نشان موجود نہیں تھا۔ آج کیسے پڑ گیا۔
حضرت معروف کرخیؒ نے فرمایا۔ ’’کل رات نماز میں ذہن خانہ کعبہ کی طرف چلا گیا،
خانہ کعبہ میں طواف کے بعد جب چاہ زمزم کے قریب پہنچا تو میرا پاؤں پھسل گیا اور
میں گر پڑا۔ مجھے چوٹ لگی اور یہ اسی چوٹ کا نشان ے۔‘‘
ایک بار اپنے مرشد کریم
ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے جسم پر زخم کا غیر معمولی نشان دیکھ کر میں
(خواجہ شمس الدین عظیمی) نے اس کی بابت دریافت کیا۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے
بتایا۔ ’’رات کو روحانی سفر کے دوران دو چٹانوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے چٹان میں
نکلی ہوئی ایک نوک جسم میں چبھ گئی تھی۔‘‘
جب شہود کی کیفیات میں
استحکام پیدا ہو جاتا ہے تو روحانی طالب علم غیبی دنیا کی سیر اس طرح کرتا ہے کہ
وہ غیب کی دنیا کی حدود میں چلتا پھرتا، کھاتا پیتا اور وہ سارے کام کرتا ہے جو
دنیا میں کرتا ہے۔
صوفی جب مراقبہ کے مشاغل
میں پوری طرح انہماک حاصل کر لیتا ے تو اس میں اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ زمان
کے دونوں کناروں ازل اور ابد کو چھو سکتا ہے اور اللہ کے دیئے ہوئے اختیار کے تحت
اپنی قوتوں کا استعمال کر سکتا ہے۔ وہ ہزاروں سال پہلے کے یا ہزاروں سال بعد کے
واقعات دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتا ہے کیونکہ ازل سے ابد تک درمیانی حدود میں جو کچھ
پہلے سے موجود تھا یا آئندہ ہو گا اس وقت بھی موجود ہے۔ شہود کی اس کیفیت کو تصوف
میں سیر یا معائنہ کہتے ہیں۔
تصوف کا طالب علم
’’سالک‘‘ جب اپنے قلب میں موجود روشنیوں سے واقف ہو جاتا ہے اور شعوری حواس سے نکل
کر لاشعوری حواس میں داخل ہو جاتا ہے تو اسے فرشتے نظر آنے لگتے ہیں وہ ان باتوں
سے آگاہ ہو جاتا ہے جو حقیقت میں چھپی ہوئی ہیں۔ صوفی پر عالم امر (روحانی دنیا)
کے حقائق منکشف ہو جاتے ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ کائنات کی ساخت میں کس قسم کی روشنیاں
اور روشنیوں کو سنبھالنے کے لئے انوار کس طرح استعمال ہوتے ہیں۔ پھر اس کے ادراک
پردہ تجلی منکشف ہو جاتی ہے جو روشنیوں کو سنبھالنے والے انوار کی اصل ہے۔
مراقبہ کرنے والے بندے کو
مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
۱) خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں۔
۲) روحانی علوم منتقل ہوتے ہیں۔
۳) اللہ تعالیٰ کی توجہ اور قرب حاصل ہوتا
ہے۔
۴) منتشر خیالی سے نجات مل جاتی ہے۔ ذہنی
سکون حاصل ہوتا ہے۔
۵) اخلاقی برائیوں سے ذہن ہٹ جاتا ہے۔
۶) مسائل حل ہوتے ہیں۔ پریشانیوں سے محفوظ ہو
جاتا ہے۔
۷) مراقبہ کرنے والا بندہ بیمار کم ہوتا ہے۔
۸) مراقبہ کے ذریعے بیماریوں کا علاج قدرت کا
سربستہ راز ہے۔
۹) اللہ تعالیٰ پر یقین مستحکم ہو جاتا ہے۔
۱۰) اپنے خیالات دوسروں کو منتقل کئے جا سکتے
ہیں۔
۱۱) صاحب مراقبہ روحانی طور پر جہاں چاہے جا
سکتا ہے۔
۱۲) مراقبہ کرنے والوں کو نیند جلدی اور گہری
آتی ہے۔ وہ فوراً سو جاتے ہیں۔
۱۳) فراست میں اضافہ ہوتا ہے۔
۱۴) کسی بات یا مضمون کو بیان کرنے کی اعلیٰ
صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔
۱۵) صاحب مراقبہ بندہ عفو و درگذر سے کام
لیتا ہے۔ دل نرم اور گفتگو لطیف ہو جاتی ہے۔
۱۶) بلاتخصیص مذہب وملت اللہ کی مخلوق کو
دوست رکھتا ہے اور خدمت کر کے خوش ہوتا ہے۔
۱۷) ’’ماں‘‘ سے والہانہ محبت کرتا ہے، باپ کا
احترام کرتا ہے، بڑوں کے سامنے جھکتا ہے اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتا ہے۔
۱۸) مراقبہ کرنے والا بندہ سخی اور مہمان
نواز ہوتا ہے۔
۱۹) اپنے پرائے سب کے لئے دعا کرتا ہے۔
۲۰) مراقبہ کرنے والے کی روح سے عام لوگ فیض
یاب ہوتے ہیں۔
۲۱) تواضع اور انکساری کی عادت بن جاتی ہے۔
۲۲) صاحب مراقبہ سالک کو پراگندہ خیالات بوجھ
اور وقت کا ضیاع نظر آتے ہیں اور وہ ہر حال میں ان سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد
کرتا ہے۔ انبیاء اور اولیاء اللہ کی روحوں سے امداد کا طالب ہوتا ہے اور اس کی بے
قراری کو قرار آ جاتا ہے۔
۲۳) نماز میں حضوری ہو جاتی ہے۔ رکوع کرنے
والوں کے ساتھ رکوع کرتے ہوئے اور سجدہ کرنے والوں کے ساتھ سجدہ کرتے ہوئے فرشتوں
کو صف بہ صف دیکھتا ہے۔
۲۴) آسمانوں کی سیر کرتا ہے اور جنت کے باغات
اس کی نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں۔
۲۵) کشف القبور کے مراقبے میں اس دنیا سے
گزرے ہوئے لوگوں کی روحوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔
۲۶) سچے خواب نظر آتے ہیں۔
۲۷) شریعت و تصوف پر کاربند انسان کو سیدنا
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔
مراقبہ کی بے شمار اقسام
میں سے چند یہ ہیں:
۱) صلوٰۃ قائم کرنا۔
۲) روزہ میں توجہ الی اللہ قائم کرنا۔
۳) حج بیت اللہ میں دیدار الٰہی حاصل کر کے
اللہ کی طرف متوجہ رہنا۔
۴) تصور شیخ کا مراقبہ۔
۵) نیلی روشنیوں کا مراقبہ۔
۶) مرتبہ احسان کا مراقبہ
۷) پھولوں کا مراقبہ
۸) مراقبہ مشاہدۂ قلب
۹) عرش کے تصور کا مراقبہ
۱۰) بیت المعمور کا مراقبہ
۱۱) جنت کا مراقبہ
۱۲) اپنی روح کے مشاہدے کا مراقبہ
۱۳) دل میں سیاہ نقطے کا مراقبہ
۱۴) مراقبہ معائنہ
۱۵) مراقبۂ موت
۱۶) مراقبۂ نور
۱۷) مراقبۂ استرخاء
۱۸) مراقبۂ ہاتف غیبی
۱۹) مراقبۂ کشف القبور
۲۰) مراقبۂ تفہیم
۲۱) مراقبۂ ذات
۲۲) مراقبۂ توحید الٰہی
۲۳) مراقبۂ سیر انفس و آفاق
۲۴) بیماریوں کے علاج کے لئے، بیماریوں کی
مناسبت سے مراقبے تجویز کئے جاتے ہیں
۱۔ نیلی روشنی کا مراقبہ
۲۔ سبز روشنی کا مراقبہ
۳۔ زرد روشنی کا مراقبہ
۴۔ سرخ روشنی کا مراقبہ
۵۔ جامنی روشنی کا مراقبہ
۱۔ مراقبہ سورج بینی
۲۔ مراقبہ چاند بینی
۳۔ مراقبہ دائرہ بینی
۴۔ مراقبہ شمع بینی
۱) مراقبہ کرنے کی جگہ ایسی ہونی چاہئے جہاں
گرمی ہو نہ سردی۔ ماحول معتدل ہو۔
۲) شور و غل اور ہنگامہ نہ ہو اور ماحول
پُرسکون ہو۔
۳) مراقبہ جہاں کیا جائے وہاں مکمل اندھیرا
ہو۔ اگر ایسا ہونا ممکن نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ اندھیرا ہونا چاہئے۔
۴) مراقبہ بیٹھ کر کیا جائے۔
۵) لیٹ کر مراقبہ کرنے سے نیند کا غلبہ ہو
جاتا ہے اور مراقبہ کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔
۶) مراقبہ کے لئے نشست ایسی ہونی چاہئے جس
میں آسانی سے بیٹھ کر مراقبہ کیا جا سکے۔
۷) ارکان اسلام کی پابندی کی جائے۔
۸) غصہ سے گریز کیا جائے۔
۹) بڑوں کا احترام کریں اور بچوں سے پیار سے
پیش آئیں۔
۱۰) نشہ سے بچا جائے۔
۱۱) ذکر اذکار کی مجالس میں شریک ہوں۔
۱۲) مراقبہ باوضو کیا جائے۔
۱۳) وقت مقرر کر کے مراقبہ کرنا چاہئے۔
۱۴) کھانے کے ڈھائی گھنٹے یا اس سے زیادہ
وقفہ گزرنے کے بعد مراقبہ کیا جائے۔ کھانا بھوک رکھ کر آدھا پیٹ کھانا چاہئے۔
۱۵) زیادہ سے زیادہ وقت باوضو رہنے کی کوشش
کی جائے مگر بول و براز نہ روکیں۔ تا کہ طبیعت بھاری نہ ہو۔
۱۶) چلتے پھرتے وضو بغیر وضو دن میں یا حی یا
قیوم کا ورد کیا جائے۔ اور رات کو اہتمام کے ساتھ پاک صاف جگہ، پاک صاف پوشاک پہن
کر اور عمدہ قسم کی خوشبو لگا کر کثرت سے درود شریف پڑھا جائے۔
۱) تہجد کے وقت
۲) فجر کی نماز سے پہلے یا بعد میں
۳) ظہر کی نماز کے بعد
۴) عشاء کی نماز کے بعد
۱) مراقبہ کی بہترین نشست یہ ہے کہ سالک نماز
کی طرح بیٹھے۔
۲) آلتی پالتی مار کر بیٹھا جائے۔
۳) دونوں زانوں پر ہاتھ رکھ کر حلقہ بنا لیا
جائے۔ کپڑا یا پٹکا بھی کمر اور ٹانگوں پر باندھا جا سکتا ہے۔
۴) مراقبہ میں مرشد سے رابطہ قائم ہونا ضروری
ہے۔
۵) آنکھیں بند ہوں اور نظر دل کی طرف متوجہ
ہو۔
۶) نماز کی طرح بیٹھ کر آسمان کی طرف دیکھا
جائے۔ آنکھوں کی پتلیاں اوپر کی طرف ہوں۔
۷) ناک کی نوک پر نظر جمائی جائے۔
۸) کمر اور گردن سیدھی رہنی چاہئے۔ لیکن
سیدھا رکھنے میں کمر اور گردن میں تناؤ نہ ہو۔
۹) سانس آنے جانے میں ہم آہنگی ہو۔ سانس
دھونکنی کی طرح نہ لیا جائے۔
۱۰) مراقبہ خالی پیٹ کیا جائے۔
۱۱) نیند کا غلبہ ہو تو نیند پوری کر لی جائے
پھر مراقبہ کیا جائے۔
۱۲) مراقبہ کے ذریعے لوگوں کے دلوں کی باتیں
معلوم ہو سکتی ہیں۔ دوسرے کسی آدمی کو ماورائی چیزیں دکھائی جا سکتی ہیں۔ مطلب
براری کے لئے لوگوں کو متاثر کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ سب استدراج کے دائرے میں شمار
ہوتا ہے اور استدراج شرعاً ناجائز ہے۔ اور بالآخر آدمی خسارہ میں رہتا ہے۔ دنیا
میں بھی اور آخرت میں بھی۔ خلاف شرع باتوں سے لازماً اجتناب کرنا چاہئے۔
۱۳) مراقبہ سے پہلے اگر کچھ پڑھنا ہو تو وہ
پڑھ کر شمال رخ آنکھیں بند کر کے بیٹھ جائے (اگر مغرب کی طرف منہ کیا جائے تو شمال
سیدھے ہاتھ کی طرف ہو گا۔ کسی بھی رخ منہ کر کے مراقبہ کیا جا سکتا ہے لیکن بہتر
یہی ہے کہ شمال رخ منہ رہے)۔ ذہن اس طرف متوجہ رکھا جائے جس چیز کا مراقبہ کیا جا
رہا ہے۔
۱۴) مراقبہ کے دوران خیالات آتے ہیں۔ خیالات
میں الجھنا نہیں چاہئے ان کو گزر جانے دیں اور پھر ذہن کو واپس اسی طرف متوجہ کر
لیں جس چیز کا مراقبہ کیا جا رہا ہو۔ کم سے کم ۱۵ سے ۲۰ منٹ مراقبہ کے لئے کافی
ہیں۔ زیادہ دیر بھی مراقبہ کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ جس وقت دل
چاہا مراقبہ کے لئے بیٹھ گئے یا تمام کام چھوڑ کر مراقبہ ہی کرتے رہیں۔
۱۵) مراقبہ تخت یا فرش پر کرنا چاہئے۔ کرسی،
صوفے، گدے یا کسی ایسی چیز پر بیٹھ کر مراقبہ نہیں کرنا چاہئے جس سے ذہنی سکون میں
خلل پڑنے کا امکان ہو۔
حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کا ہر امتی یہ بات جانتا ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے
غار حرا میں طویل عرصے تک مراقبہ کیا ہے۔
دنیاوی معاملات، بیوی
بچوں کے مسائل، دوست احباب سے عارضی طور پر رشتہ منقطع کر کے یکسوئی کے ساتھ کسی
گوشے میں بیٹھ کر اللہ کی طرف متوجہ ہونا ’’مراقبہ‘‘ ہے۔
’’اور اپنے رب کا نام یاد کرتے رہو۔ اور سب
سے قطع تعلق کر کے اس ہی کی طرف متوجہ رہو۔‘‘
(سورۂ المزمل۔ آیت نمبر۸)
صاحب مراقبہ کے لئے ضروری
ہے کہ جس جگہ مراقبہ کیا جائے وہاں شور و غل نہ ہو اندھیرا ہو۔ جتنی دیر کسی گوشے
میں بیٹھا جائے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ذہن کو مقصود کی طرف متوجہ رکھا
جائے۔
۱) مٹھاس کم سے کم استعمال کی جائے۔
۲) کسی قسم کا نشہ نہ کیا جائے۔
۳) کھانا آدھا پیٹ کھایا جائے۔
۴) ضرورت کے مطابق نیند پوری کی جائے اور
زیادہ دیر بیدار رہے۔
۵) بولنے میں احتیاط کی جائے، صرف ضرورت کے
وقت بات کی جائے۔
۶) عیب جوئی اور غیبت کو اپنے قریب نہ آنے
دے۔
۷) جھوٹ کو اپنی زندگی سے یکسر خارج کر دے۔
۸) مراقبہ کے وقت کانوں میں روئی رکھے۔
۹) مراقبہ ایسی نشست میں کرے جس میں آرام ملے
لیکن یہ ضروری ہے کہ کمر سیدھی رہے۔ اس
طرح سیدھی رہے کہ ریڑھ کی
ہڈی میں تناؤ نہ ہو۔
۱۰) مراقبہ کرنے سے پہلے ناک کے دونوں نتھنوں
سے آہستہ آہستہ سانس لیا جائے اور سینہ میں روکے بغیر خارج کر دیا جائے۔ سانس کا
یہ عمل سکت اور طاقت کے مطابق استاد کی نگرانی میں پانچ سے اکیس بار تک کریں۔
۱۱) سانس کی مشق شمال رخ
بیٹھ کر کی جائے۔
پانچ وقت نماز ادا کرنے
سے پہلے مراقبہ میں بیٹھ کر یہ تصور قائم کیا جائے کہ مجھے اللہ تعالیٰ دیکھ رہا
ہے۔ آہستہ آہستہ یہ تصور اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ نماز میں خیالات کی یلغار نہیں
رہتی۔
جب کوئی بندہ اس کیفیت کے
ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو اس کے اوپر غیب کی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہ
بتدریج ترقی کرتا رہتا ہے۔
مادی جسم فنا ہونے کے بعد
زندگی ختم نہیں ہوتی۔ ’’انسانی انا‘‘ موت کے بعد مادی جسم کو خیر باد کہہ کر روشنی
کا نیا جسم بنا لیتی ہے۔
مراقبہ موت کی مشق میں
مہارت حاصل کر لینے کے بعد کوئی شخص مادی حواس کو مغلوب کر کے اپنے اوپر روشنی کے
حواس کو غالب کر سکتا ہے اور جب چاہتا ہے مادی حواس میں واپس آ جاتا ہے۔
حضرت محمد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
’’مر جاؤ مرنے سے پہلے‘‘ اس فرمان میں اس بات
کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں رہتے ہوئے مادی حواس کو اس طرح مغلوب کر لیا
جائے کہ آدمی موت کے حواس سے واقف ہو جائے یعنی انسان مادی حواس میں رہتے ہوئے موت
کے بعد کی دنیا کا مشاہدہ کر لے۔
روحانی راستہ کے مسافر
ایک صوفی نے کشف القبور کے مراقبہ میں جو دیکھا وہ اس طرح بیان کرتا ہے:
’’ایک پرانی قبر کے
سرہانے جب میں نے مراقبہ کیا تو میں نے دیکھا کہ میری آنکھوں کے سامنے اسپرنگ کی
طرح چھوٹے اور بڑے دائرے آنا شروع ہو گئے۔ یہ دائرے نہایت خوش رنگ تھے۔ پھر ایک دم
اندھیرا ہو گیا اور خلاء میں روشنی نظر آئی اور ایک بہت بڑی چہار دیواری میں قلعہ
کی طرح دروازہ نظر آیا۔میری روح اس دروازے میں داخل ہو گئی۔دروازہ میں داخل ہو کر
میں نے دیکھا کہ یہاں پورا شہر آباد ہے۔ بلند و بالا عمارتیں ہیں۔ لکھوری اینٹوں
کے مکان اور چکنی مٹی سے بنے ہوئے کچے مکان بھی ہیں۔ دھوبی گھاٹ بھی ہے اور ندی
نالے بھی۔ جنگل بیابان بھی ہیں اور پھولوں پھلوں سے لدے ہوئے درخت اور باغات بھی۔
یہ ایک ایسی بستی ہے جس میں محلات کے ساتھ ساتھ پتھر کے زمانے کے غاروں میں رہنے
والے آدم زاد بھی ہیں۔ یہاں اس زمانے کے لوگ بھی ہیں جب آدم بے لباس تھا۔ وہ ستر
پوشی کے علم سے بے خبر تھا۔
ان میں سے ایک صاحب نے
آگے بڑھ کر مجھ سے پوچھا۔
’’آپ نے اپنے جسم پر کپڑوں کا یہ بوجھ کیوں
ڈال رکھا ہے؟ صورت شکل سے تو آپ ہماری نوع کے فرد نظر آتے ہیں۔‘‘
یہ اس زمانے کے مرے ہوئے
لوگوں کی دنیا (اعراف) ہے جب زمین پر انسانوں کے لئے کوئی معاشرتی قانون رائج نہیں
تھا اور لوگوں کے ذہنوں میں ستر پوشی کا کوئی تصور نہیں تھا۔
یہ عظیم الشان شہر جس کی
آبادی اربوں کھربوں سے متجاوز ہے، لاکھوں کروڑوں سال سے آباد ہے۔ اس شہر میں گھوم
کر لاکھوں سال کی تہذیب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ایسے لوگ بھی آباد ہیں جو
آگ کے استعمال سے واقف نہیں اور ایسے لوگ بھی آباد ہیں جو پتھر کے زمانے کے لوگ کہے
جاتے ہیں۔ اس عظیم الشان شہر میں ایسی بستیاں بھی موجود ہیں جس میں آج کی سائنس سے
بہت زیادہ ترقی یافتہ قومیں رہتی ہیں۔ جنہوں نے اس ترقی یافتہ زمانے سے زیادہ
طاقتور ہوائی جہاز اور میزائل بنائے تھے۔ امتداد زمانہ نے جن کا نام اڑن کھٹولہ
وغیرہ رکھ دیا۔ اس شہر میں ایسی دانشور قوم بھی آباد ہے جس نے ایسے فارمولے ایجاد
کر لئے تھے جن سے کشش ثقل ختم ہو جاتی ہے اور ہزاروں ٹن چٹانوں کا وزن کشش ثقل ختم
کر کے چند کلو گرام ہو جاتا ہے۔ لاکھوں سال پرانے اس شہرمیں ایسی قومیں بھی محو
استراحت یا مبتلائے رنج و آلام ہیں جنہوں نے ٹائم اسپیس کو Lessکر دیا تھا اور
زمین پر رہتے ہوئے اس بات سے واقف ہو گئے تھے کہ آسمان پر فرشتے کیا کر رہے ہیں
اور زمین پر کیا ہونے والا ہے۔ وہ اپنی ایجادات کی مدد سے ہواؤں کا رخ پھیر دیتے
تھے اور طوفانوں کے جوش کو جھاگ میں تبدیل کر دیتے تھے۔ اسی ماورائی خطہ میں ایسے
قدسی نفس لوگ بھی موجود ہیں جو جنت میں اللہ کے مہمان ہیں اور ایسے شقی بھی جن کا
مقدر دوزخ کا ایندھن بننا ہے۔
یہاں کھیت کھلیان بھی ہیں
اور بازار بھی۔ ایسے کھیت کھلیان جن میں کھیتی تو ہو سکتی ہے لیکن ذخیرہ اندوزی
نہیں ہے۔
ایسے بازار ہیں جن میں
دکانیں تو ہیں لیکن خریدار کوئی نہیں۔
ایک صاحب دکان لگائے
بیٹھے ہیں اور دکان میں طرح طرح کے ڈبے رکھے ہوئے ہیں ان میں سامان کچھ نہیں ہے۔
یہ شخص اداس اور پریشان نظر آتا ہے۔
میں نے پوچھا۔ ’’بھائی
تمہارا کیا حال ہے؟‘‘
بولا:’’میں اس بات سے
غمگین ہوں کہ مجھے پانچ سو سال بیٹھے ہوئے ہو گئے ہیں۔ میرے پاس ایک گاہک بھی نہیں
آیا ہے۔‘‘ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ شخص دنیا میں سرمایہ دار تھا۔ منافع خوری
اور چور بازاری اس کا پیشہ تھا۔
برابر کی دکان میں ایک
اور آدمی بیٹھا ہوا ہے ، بوڑھا آدمی ہے۔ بال بالکل خشک الجھے ہوئے، چہرے پر وحشت
اور گھبراہٹ ہے۔ سامنے کاغذ اور حساب کتاب کے رجسٹر پڑے ہوئے ہیں۔ یہ ایک کشادہ
اور قدرے صاف دکان ہے۔ یہ صاحب کاغذ قلم لئے رقموں کی میزان دے رہے ہیں اور جب
رقموں کا جوڑ کرتے ہیں تو بلند آواز سے عدد گنتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’دو اور دو سات،
سات اور دو دس، دس اور دس انیس‘‘۔ اس طرح پوری میزان کر کے دوبارہ ٹوٹل کرتے ہیں
تا کہ اطمینان ہو جائے۔ اب اس طرح میزان دیتے ہیں۔ ’’دو اور تین پانچ، پانچ اور
پانچ سات، سات اور نو بارہ‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ ہر مرتبہ جب میزان کی جانچ کرتے ہیں
تو میزان غلط ہوتی ہے اور جب دیکھتے ہیں کہ رقموں کا جوڑ صحیح نہیں ہے تو وحشت میں
چیختے ہیں، چلاتے ہیں۔ بال نوچتے ہیں اور خود کو کوستے ہیں۔ بڑبڑاتے ہیں اور سر کو
دیوار سے ٹکراتے ہیں اور پھر دوبارہ میزان کرنے میں منہمک ہو جاتے ہیں۔ میں نے بڑے
میاں سے پوچھا۔
’’جناب! آپ کیا کر رہے ہیں۔ کتنی مدت سے آپ
اس پریشانی میں مبتلا ہیں؟‘‘
بڑے میاں نے غور سے دیکھا
اور کہا:
’’میری حالت کیا ہے کچھ نہیں بتا سکتا، چاہتا
ہوں کہ رقموں کی میزان صحیح ہو جائے مگر تین ہزار سال ہو گئے ہیں کم بخت یہ میزان
صحیح نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ میں زندگی میں لوگوں کے حسابات میں دانستہ ہیر پھیر
کرتا تھا، بدمعاملگی میرا شعار تھا۔
علماء سو سے تعلق رکھنے
والے ان صاحب سے ملئے۔ داڑھی اتنی بڑی جیسے جھڑبیر کی جھاڑی۔ چلتے ہیں تو داڑھی کو
اکٹھا کر کے کمر کے گرد لپیٹ لیتے ہیں، اس طرح جیسے پٹکا لپیٹ لیا جاتا ہے۔ چلنے
میں داڑھی کھل جاتی ہے اور اس میں الجھ کر زمین پر اوندھے منہ گر جاتے ہیں۔ سوال
کرنے پر انہوں نے بتایا۔ ’’دنیا میں لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے میں نے داڑھی رکھی
ہوئی تھی اور داڑھی کے ذریعے بہت آسانی سے سیدھے اور نیک لوگوں سے اپنی مطلب برآری
کر لیا کرتا تھا۔‘‘
وہ دیکھئے سامنے بستی سے
باہر ایک صاحب زور، زور سے آواز لگا رہے ہیں۔ ’’اے لوگو! آؤ میں تمہیں اللہ کی بات
سناتا ہوں۔ اے لوگو! آ ؤاور سنو، اللہ تعالیٰ کیا فرماتا ہے۔ ’’کوئی بھی آواز پر
کان نہیں دھرتا البتہ فرشتوں کی ایک ٹولی ادھر آ نکلتی ہے۔
’’ہاں سناؤ! اللہ تعالیٰ کیا فرماتے ہیں۔‘‘
ناصح فوراً کہتا ہے۔
’’بہت دیر سے پیاسا ہوں مجھے پہلے پانی پلاؤ، فرشتے کھولتے ہوئے پانی کا ایک گلاس
منہ کو لگا دیتے ہیں۔ ہونٹ جل کر سیاہ ہو جاتے ہیں اور جب وہ پانی پینے سے انکار
کرتا ہے تو فرشتے یہی ابلتا اور کھولتا ہوا پانی اس کے منہ پر انڈیل دیتے ہیں۔
فرشتے ہنستے ہیں اور بلند آواز سے کہتے ہیں۔ ’’مردود کہتا تھا۔ آؤ اللہ کی بات
سناؤں گا۔ دنیا میں بھی اللہ کے نام کو بطور کاروبار استعمال کرتا تھا۔ یہاں بھی
یہی کر رہا ہے۔‘‘ جھلسے اور جلے ہوئے منہ سے ایسی وحشت ناک آوازیں اور چیخیں نکلتی
ہیں کہ انسان کو سننے کی تاب نہیں۔
اس عظیم الشان شہر میں
ایک تنگ اور تاریک گلی ہے۔ گلی کے اختتام پر کھیت اور جنگل ہیں۔ یہاں ایک مکان بنا
ہوا ہے۔ مکان کیا ہے بس چار دیواری ہے۔ اس مکان پر کسی ربر نما چیز کی جالی دار
چھت پڑی ہوئی ہے۔
دھوپ اور بارش سے بچاؤ کا
کوئی سہارا نہیں ہے۔ اس مکان میں صرف عورتیں ہیں، چھت اتنی نیچی ہے کہ آدمی کھڑا
نہیں ہو سکتا۔ ماحول میں گھٹن اور اضطراب ہے۔ ایک صاحبہ ٹانگیں پھیلائے بیٹھی ہیں۔
عجیب اور بڑی ہی عجیب بات ہے کہ ٹانگوں سے اوپر کا حصہ معمول کے مطابق ہے اور
ٹانگیں دس فٹ لمبی ہیں۔
اس ہیئت کذائی میں دیکھ
کر ان سے پوچھا۔ ’’محترمہ! آپ کیسی ہیں؟ آپ کی ٹانگیں اتنی لمبی کیوں ہیں؟‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ میں دنیائے فانی میں جب کسی کے گھر جاتی تھی، ایک گھر کی بات
دوسرے گھر جا کر سناتی تھی اور خوب لگائی بجھائی کرتی تھی۔ اب حال یہ ہے کہ چلنے پھرنے
سے معذور ہوں۔ ٹانگوں میں انگارے بھرے ہوئے ہیں۔ ہائے میں جل رہی ہوں اور کوئی
نہیں جو مجھ پر ترس کھائے۔
کشف القبور کے مراقبہ
میں، میں نے دیکھا کہ چہرے پر ڈر اور خوف نمایاں، چھپتے چھپاتے دبے پاؤں یہ شخص
ہاتھ میں چھری لئے جا رہا ہے۔ اف خدایا! اس نے سامنے کھڑے ہوئے آدمی کی پشت میں
چھری گھونپ دی اور بہتے ہوئے خون کو کتے کی طرح زبان سے چاٹنے لگا۔ تازہ تازہ اور
گاڑھا خون پیتے ہی خون کی قے ہو گئی۔ نحیف اور نزار زندگی سے بیزار کراہتے ہوئے
کہا۔ ’’کاش عالم فانی میں یہ بات میری سمجھ میں آ جاتی کہ غیبت کا انجام یہ ہوتا
ہے۔‘‘
شکل و صورت میں انسان ڈیل
ڈول کے اعتبار سے دیو۔ قد تقریباً 20فٹ، جسم بے انتہا چوڑا، قد کی لمبائی اور جسم
کی چوڑائی کی وجہ سے کسی کمرے یا کسی گھر میں رہنا ناممکن۔ بس ایک کام ہے کہ
اضطراری حالت میں مکانوں کی چھت پر اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر گھوم رہے
ہیں۔ بیٹھ نہیں سکتے، لیٹ بھی نہیں سکتے۔ ایک جگہ قیام کرنا بھی بس کی بات نہیں
ہے۔ اضطراری کیفیت میں اس چھت سے اُس چھت پر اور اُس چھت سے اس چھت پر مسلسل
چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ کبھی روتے ہیں اور کبھی بے قرار ہو کر اپنا سر پیٹتے ہیں۔
پوچھا: ’’حضرت یہ کس عمل
کی پاداش ہے؟ آپ اس قدر غمگین اور پریشان کیوں ہیں؟‘‘
جواب دیا۔ ’’میں نے دنیا
میں یتیموں کا حق غصب کر کے بلڈنگیں بنائی تھیں۔ یہ وہی بلڈنگیں اور عمارتیں ہیں۔
آج ان کے دروازے میرے اوپر بند ہیں۔ لذیذ اور مرغن کھانوں نے میرے جسم میں ہوا اور
آگ بھر دی ہے۔ ہوا نے میرے جسم کو اتنا بڑا کر دیا ہے کہ گھر میں رہنے کا تصور
میرے لئے انہونی بات بن گئی ہے۔ آہ! آہ! یہ آگ مجھے جلا رہی ہے۔ میں جل رہا ہوں۔
میں بھاگنا چاہتا ہوں مگر فرار کی تمام راہیں ختم ہو گئی ہیں۔
میں نے مراقبہ موت میں
دیکھا کہ کھیت کے کنارے ایک کچا کوٹھا بنا ہوا ہے۔ کوٹھے کے باہر چہار دیواری ہے۔
چہار دیواری کے اندر صحن ہے۔ صحن میں ایک گھنا درخت ہے۔ غالباً یہ درخت نیم کا ہے۔
اس درخت کے نیچے بہت سے لوگ جمع ہیں۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا ایک عورت
کھڑی ہے اور ایک صاحب سے الجھ رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ تم میرے خاوند کو نہیں
لے جا سکتے۔ وہ صاحب کہتے ہیں کہ میں اس
معاملے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے معاملات ہیں۔ وہ
جس طرح چاہتے ہیں اسی طرح ہوتا ہے۔ عورت نے ’’ہائے‘‘ کہہ کر زور سے اپنے دونوں
ہاتھ سینے پر مارے اور زار و قطار رونے لگی۔
میں آگے بڑھا اور پوچھا۔
’’کیا بات ہے؟ آپ اس عورت کو کیوں پریشان کر رہے ہو۔‘‘ ان صاحب نے کہا۔ ’’مجھے غور
سے دیکھو اور پہچانو کہ میں کون ہوں؟‘‘
میں نے مراقبہ کیا تو
مراقبہ میں دیکھا کہ یہ حضرت ملک الموت ہیں۔ میں نے بہت ادب سے سلام کیا اور
مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھا دیئے۔ حضرت عزرائیل علیہ السلام نے مصافحہ کیا۔ جس وقت میں
نے ان سے ہاتھ ملائے تو محسوس ہوا کہ پورے جسم میں بجلی کا کرنٹ دوڑ رہا ہے۔ کئی
جھٹکے بھی لگے ان جھٹکوں کی وجہ سے میں کئی کئی فٹ اوپر اچھل گیا۔ آنکھوں میں سے
چنگاریاں نکلتی نظر آئیں۔
میں نے پوچھا۔ ’’اس عورت
کے خاوند کا کیا معاملہ ہے؟‘‘
حضرت عزرائیل علیہ السلام
نے کہا:’’یہ صاحب اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں۔ یہ عورت ان کی بیوی ہے اور یہ
بھی اللہ کی برگزیدہ بندی ہے۔ دنیا میں ان کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ لیکن مجھے یہ
ہدایت ہے کہ اگر ہمارا بندہ خود آنا چاہے تو روح قبض کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بندہ
راضی برضا ہے اور اس دنیا سے سفر کرنے کے لئے بیقرار ہے۔ لیکن بیگم صاحبہ کا اصرار
ہے کہ میں اپنے شوہر کو نہیں جانے دوں گی تاوقتیکہ ہم دونوں پر ایک ساتھ موت وارد
ہو۔‘‘
اس احاطہ میں مٹی اور
پھونس کے بنے ہوئے ایک کمرے کے اندر ملک الموت میرا ہاتھ پکڑ کر لے گیا۔ وہاں ایک
خوبصورت بزرگ بھورے رنگ کے کمبل پر لیٹے ہوئے ہیں۔ یہ کمبل زمین پر بچھا ہوا ہے۔
سرہانے چمڑے کا ایک تکیہ رکھا ہوا ہے۔
کہیں کہیں سے سلائی ادھڑی
ہوئی ہے اس میں سے کھجور کے پتے دکھائی دے رہے ہیں۔ داڑھی گول اور چھوٹی ہے۔ لمبا
قد اور جسم بھرا ہوا ہے، پیشانی کھلتی ہوئی، آنکھیں بڑی بڑی اور روشن ہیں۔ پیشانی
سے سورج کی طرح شعاعیں نکل رہی ہیں۔
حضرت ملک الموت نے کمرے
میں داخل ہو کر کہا۔ ’’السلام علیکم یا عبداللہ!‘‘
میں نے بھی ملک الموت کی
تقلید میں: ’’السلام علیکم یا عبداللہ۔ کہا۔‘‘
حضرت عبداللہ (غالباً ان
کا نام عبداللہ ہی ہو گا) نے ملک الموت سے پوچھا۔
’’ہمارے خالق کا کیا حکم لائے ہو؟‘‘
ملک الموت نے سر جھکا کر
عرض کیا:
’’اللہ تعالیٰ نے آپ کو یاد فرمایا ہے۔ ’’ملک
الموت دو زانو ہو کر ان بزرگ کے پاؤں کی طرف بیٹھ گیا۔ بزرگ خوشی خوشی عاجزی کے
ساتھ لیٹ گئے۔ جسم نے ایک جھرجھری لی اور اس برگزیدہ ہستی کی روح پرواز کر گئی۔
رشتہ آسمان میں اڑ گیا۔
اتنا اونچا، اتنا اونچا کہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
تصوف کے مطابق کائنات کی
تخلیق کا بنیادی عنصر ’’نور‘‘ ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ:
’’اللہ آسمانوں اور زمین
کا نور ہے۔‘‘
(سورۂ نور۔ آیت نمبر۳۵)
نور اس خاص روشنی کو کہتے
ہیں جو خود بھی نظر آتی ہے اور دوسری روشنیوں کو بھی دکھاتی ہے۔ روشنی، لہریں،
رنگ، ابعادیہ سب نور کی گوناگوں صفات ہیں۔
نور کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ بیک وقت ماضی اور مستقبل دونوں میں سفر کرتا ہے
اور ماضی و حال کا آپس میں ربطہ قائم رکھتا ہے۔ مگر یہ ربط قائم نہ رہے تو کائنات
کا رشتہ ماضی سے منقطع ہو جائے گا۔
اس کی ایک مثال حافظہ ہے۔
جب ہم اپنے بچپن یا گذرے ہوئے کسی لمحے کو یاد کرتے ہیں تو ہمارا ماضی نور کے
ذریعے حال میں وارد ہو جاتا ہے اور ہمیں بچپن کے واقعات یاد آ جاتے ہیں۔
جنات، ملائکہ اور دوسری
مخلوقات کے حواس بھی نور پر قائم ہیں۔ روحانیت میں نور سے تعارف حاصل کرنے کے لئے
مراقبہ نور کرایا جاتا ہے۔ مراقبہ نور کئی طریقوں سے کیا جاتا ہے۔
۱)
طالب علم تصور کرتا ہے کہ ساری کائنات اور اس کی مخلوقات نور کے وسیع و
عریض سمندر میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ وہ خود کو بھی نور کے سمندر میں ڈوبا ہوا محسوس
کرتا ہے۔
۲) عرش کے اوپر سے نور کا
دھارا ساری دنیا پر برس رہا ہے۔ صاحب مراقبہ خود پر بھی نور برستا ہوا محسوس کرتا
ہے۔
’’اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا، اس نور کی مثال طاق کی مانند ہے جس میں چراغ
رکھا ہو اور چراغ شیشے کی قندیل میں ہے۔‘‘
(سورۂ نور۔ آیت نمبر۳۵)
روحانی طالب علم اس آیت
میں دی گئی مثال کے مطابق تصور کرتا ہے کہ چراغ کی نورانی شعاعوں سے اس کا پورا
جسم منور ہو رہا ہے۔
اسی طرح قرآن کریم یا
اسمائے الٰہیہ کے انوار و تجلیات کا مراقبہ کیا جاتا ہے۔ کوئی آیت یا اسم اسماء
الٰہیہ کا ورد کر کے اس کے معنی اور مفہوم کو دل میں اچھی طرح جاگزیں کر کے یہ
تصور کیا جاتا ہے کہ اس کے اندر اللہ کی کونسی صفت یا صفات موجود ہیں۔ مراقبہ کرتے
کرتے، سالک کے اندر ایسا استغراق پیدا ہو جاتا ہے کہ ہر شئے میں اسے نور اور روشنی
نظر آتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ ہر شئے نور اور روشنی کے غلاف میں بند ہے۔
صوفی جب قرآن پاک کی آیت
کے مطابق مراقبہ میں یہ تصور کرتا ہے کہ:
’’اللہ تمہارے ساتھ ہے تم کہیں بھی ہو۔‘‘
(سورۃ حدید۔ آیت نمبر۴)
تو یہ تصور اس قدر پختہ
اور گہرا ہو جاتا ہے کہ کھڑے ہوئے، بیٹھے ہوئے، تنہائی میں، لوگوں کے ساتھ ملاقات
میں، مصروفیت میں، فراغت میں، بندہ کا ذہن اللہ کے ساتھ وابستہ رہتا ہے۔
حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے
ہیں:
’’مراقبہ کے ذریعے علم تصوف کا حصول یہ ہے کہ
گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اور یہ دیکھنا مشاہدۂ قلب ہے۔‘‘
مذاہب عالم نے کسی نہ کسی
طرح ایک نظر نہ آنے والی روشنی کا تذکرہ کیا ہے۔ ایسی روشنی جو ساری روشنیوں کی
اصل ہے اور تمام موجودات میں موجود ہے۔ انجیل میں ہے:
’’خدا نے کہا روشنی اور روشنی ہو گئی۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام
نے وادئ سینا میں سب سے پہلے جھاڑی میں روشنی کا مشاہدہ کیا اور اسی روشنی کی
معرفت اللہ کے کلام سے مشرف ہوئے۔ ہندو مت میں اسی روشنی کا نام ’’جوت‘‘ ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
تصوف
کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار
کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا
ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ
محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی
صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس
اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان
ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے
ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند
بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ
صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا
نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے
اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل
کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں
بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت
اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا
علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔