Topics
تصوف میں تزکیہ نفس ایسا
عمل ہے جس پر تصوف کی بنیاد قائم ہے۔ تزکیہ نفس اور قلبی طہارت کے لئے اہل روحانیت
نے اسباق مقرر کئے ہیں۔ یہ اسباق قرآنی آیات اور اسماء الٰہیہ سے مرتب کئے گئے
ہیں۔ ان کے ورد سے انسان کے اندر پاکیزگی اور نور کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ کسی آیت یا
اسم الٰہی کے ورد سے روح میں بالیدگی بڑھ جاتی ہے اور سالک کے اندر باطنی آنکھ کھل
جاتی ہے۔ اسے ایسی بصیرت مل جاتی ہے جس سے وہ حقیقت کا ادراک کر لیتا ہے۔
لوح محفوظ کا قانون بتاتا
ہے کہ ازل سے ابد تک صرف لفظ کی کارفرمائی ہے اور حال، مستقبل کا درمیانی وقفہ لفظ
کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ کائنات میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب اللہ تعالیٰ کا فرمایا
ہوا لفظ ہے۔ آسمانی کتابیں اور آخری کتاب قرآن اللہ تعالیٰ کے فرمائے ہوئے الفاظ
کی تشریحات ہیں۔ ’’لفظ‘‘ قرآنی آیات کی تمثیلات اور اسماء الٰہیہ کا مظاہرہ ہے۔
اسم کی مختلف طرزوں سے نئی نئی تخلیقات وجود میں آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اسم ہی
پوری کائنات کو کنٹرول کرتا ہے۔ لفظ یا اسم کی بہت سی قسمیں ہیں۔ ہر قسم کے اسم کا
ایک سردار ہوتا ہے۔ وہی سردار اسم اپنے قسم کے تمام اسماء کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ
سردار اسم بھی اللہ تعالیٰ کا اسم ہے اور اس ہی سردار اسم کو اسم اعظم کہتے ہیں۔
اسماء نور اور روشنی ہیں۔
ایک طرز کی جتنی روشنیاں ہیں ان کو کنٹرول کرنے والا اسم بھی انہی روشنیوں کا مرکب
ہے اور یہ اسماء کائنات میں موجود اشیاء کی تخلیق کے اجزاء ہیں۔ مثلاً نوع انسانی
کے اندر کام کرنے والے تقاضوں اور حواس کو جو اسم کنٹرول کرتا ہے یہی اسم نوع انسانی
کے لئے اسم اعظم ہے۔
جنات کی نوع کے لئے الگ
اسم اعظم ہے۔ نباتات کیلئے الگ، جمادات کے لئے الگ اور نوع ملائکہ کے لئے الگ اسم
اعظم ہے۔
انسان کے اندر تقاضوں اور
جذبات کی تکمیل کیلئے جو حواس کام کرتے ہیں ان کی مجموعی تعداد تقریباً گیارہ ہزار
ہے۔ ان گیارہ ہزار کیفیات یا تقاضوں کے اوپر ہمیشہ ایک اسم غالب رہتا ہے۔ یہی وہ
اسماء ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو سکھایا ہے۔ اسم ذات
کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا ہر اسم اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے۔ جو کامل طرزوں کے ساتھ
اپنے اندر تخلیقی قدریں رکھتا ہے۔
’’اللہ نور السموات والارض‘‘ (سورۂ نور۔ آیت نمبر۳۵)
اور یہی اللہ کا نور
لہروں کی شکل میں نباتات، جمادات، حیوانات، انسان، جنات اور فرشتوں میں زندگی اور
زندگی کی تمام تحریکات پیدا کرتا ہے۔ پوری کائنات میں قدرت کا یہ فیضان جاری ہے کہ
کائنات میں ہر فرد نور کی ان لہروں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے۔
کہکشانی نظاموں اور ہمارے
درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے۔ پے در پے جو خیالات ذہن میں آتے ہیں وہ دوسرے نظاموں
اور آبادیوں سے ہمیں موصول ہوتے رہتے ہیں۔ نور کی یہ لہریں ایک لمحہ میں روشنی کا
روپ دھار لیتی ہیں۔ روشنی کی یہ چھوٹی بڑی لہریں ہم تک بے شمار تصویر خانے لے کر
آتی ہیں۔ ہم ان ہی تصویر خانوں کا نام واہمہ، خیال، تصور اور تفکر رکھ دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’لوگو! مجھے پکارو میں
سنوں گا۔ مجھ سے مانگو، میں دوں گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات
کا تذکرہ اپنے ناموں سے کیا ہے۔
’’اور اللہ کے اچھے اچھے
نام ہیں۔ پس ان اچھے ناموں سے اسے پکارتے رہو۔‘‘
(سورۃ اعراف۔ آیت نمبر۱۸۰)
’’ایمان والو! اللہ کا
ذکر کثرت سے کرتے رہو اور صبح اور شام اس کی تسبیح میں لگے رہو۔‘‘
(سورۃ احزاب۔ آیت نمبر۴۱۔۴۲)
اللہ تعالیٰ کا ہر اسم
ایک چھپا ہوا خزانہ ہے۔ جب لوگ اللہ کا نام ورد زبان کرتے ہیں تو ان کے اوپر
رحمتوں اور برکتوں کی بارش برستی ہے۔ عام طور پر اللہ کے ننانوے نام مشہور ہیں۔ اس
بیش بہا خزانے سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہر نام کی تاثیر اور پڑھنے کا طریقہ الگ الگ
ہے۔
کسی اسم کی بار بار تکرار
سے دماغ اس اسم کی نورانیت سے معمور ہو جاتا ہے اور جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کے اسم
کے انوار دماغ میں ذخیرہ ہوتے رہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے بگڑے ہوئے کام بنتے چلے
جاتے ہیں اور حسب دلخواہ نتائج مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن جس طرح اثرات مرتب ہوتے
ہیں اسی طرح گناہوں کی تاریکی ہمارے اندر روشنی کو دھندلا دیتی ہے۔ کوتاہیوں اور
خطاؤں سے آدمی کثافتوں اور اندھیروں سے قریب ہو جاتا ہے۔
جب کوئی بندہ جانتے
بوجھتے گناہوں اور خطاؤں کی زندگی کو زندگی کا مقصد قرار دے لیتا ہے تو وہ قرآن
پاک کی اس آیت کی تفسیر بن جاتا ہے۔
’’مہر لگا دی اللہ نے ان
کے دلوں پر، ان کے کانوں پر اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور ان لوگوں کے لئے درد
ناک عذاب ہے۔‘‘
(سورۃ بقرہ۔ آیت نمبر۷)
اللہ تعالیٰ کا ہر اسم
اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہر صفت قانون قدرت کے تحت فعال اور
متحرک ہے۔ ہر صفت اپنے اندر طاقت اور زندگی رکھتی ہے۔ جب ہم کسی اسم کا ورد کرتے
ہیں تو اس اسم کی طاقت اور تاثیر کا ظاہر ہونا ضروری ہے۔ اگر مطلوبہ فوائد حاصل نہ
ہوں تو ہمیں اپنی کوتاہیوں اور پُر خطا طرز عمل کا جائزہ لینا چاہئے۔ نیکی اور
برائی دونوں اعمال و افعال کے تابع ہیں۔ دونوں میں انسانی ذہن انسانی زبان اور
ہاتھ پیر استعمال ہوتے ہیں۔
مثلاً ایک آدمی گالی دیتا
ہے۔ یہ برائی ہے لیکن گالی دینے میں زبان استعمال ہوتی ہے اسی طرح دوسرا آدمی
میٹھے بول بولتا ہے۔ لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے ذہن استعمال کرتا اور احکامات
بھی صادر کرتا ہے۔ اس رویہ میں بھی زبان کا عمل دخل ہے۔ علیٰ ہذالقیاس سوچ تصورات،
جذبات اور اچھے برے احساسات کا تعلق انسانی رویوں پر قائم ہے۔
اگر طرز فکر اور رویوں
میں خلوص و ایثار ہے، اللہ کی مخلوق کی بھلائی ہے اور سیدنا حضور صلی اللہ علیہ و
سلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اخلاق حسنہ پر عمل ہے تو یہ سب اعمال، اعمال صالحہ ہیں۔
اللہ کی نشانیوں پر غور کرنا، اللہ کی حمد و ثناء بیان کرنا اور رسولوں کی تعلیمات
پر عمل کرنا ہے۔ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے قربت کا ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
کہ اللہ کے ذکر سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے
فرمایا کہ قرآن کی تعلیم کو لازمی پکڑو اور ذکر الٰہی کرو۔ اس عمل سے آسمانوں میں
تمہارا ذکر ہو گا اور زمین میں تمہارے لئے نور ہو گا۔
قرآن حکیم کی تلاوت کا
مفہوم یہ ہے کہ ارشادات ربانی پر تفکر کیا جائے اور اللہ کے احکامات کے مطابق
فرمانبرداری کی جائے۔ قرآن حکیم میں جہاں اللہ کے ذکر کا حکم دیا گیا ہے وہاں یہ
بھی کہا گیا ہے کہ کثرت سے ذکر کرو۔
’’اے اہل ایمان! تم اللہ
تعالیٰ کو کثرت سے یاد کیا کرو۔‘‘
(سورۃ احزاب۔ آیت نمبر۴۱)
’’اے اہل ایمان! جب کسی
جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرو۔‘‘
(سورۃ انفال۔ آیت نمبر۴۵)
حضرت ابن عباسؓ اس آیت کی
تفسیر میں فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے اپنے
بندوں پر کوئی ایسی عبادت فرض نہیں کی کہ اس میں معذور آدمی کا عذر قبول نہ فرمایا
ہو۔ مگر ذکر الٰہی ایسی عبادت ہے کہ جس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ کوئی اللہ کے ذکر
سے معذور نہیں البتہ مغلوب الحال کا معاملہ الگ ہے اور فرمایا اللہ کا ذکر کرو کھڑے
ہوئے، بیٹھے ہوئے، لیٹے ہوئے، رات ہو یا دن، ذکر دل سے ہو یا زبان سے، خشکی میں یا
سمندر میں ہو۔ بندہ خوشحال ہو یا غریب الحال ہو، تندرست ہو یا بیمار ہو۔ جس حال
میں بھی ہو بندہ کو چاہئے کہ اللہ کا ذکر کرتا رہے۔
جس ذکر میں روح اور قلب
شامل ہو جائیں اس ذکر کی بڑی اہمیت ہے۔ ذکر اس طرح کیا جائے کہ کسی دوسرے کو اس کا
علم نہ ہو۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے
کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس ذکر خفی کو ملائکہ کاتبین نہیں سن
سکتے اسے جلی ذکر پر ستر گنا زیادہ فضیلت ہے۔ ذکر خفی سالک کو دکھاوے سے محفوظ
رکھتا ہے۔
ذکر الٰہی اور ذکر کثیر
کے لئے قرآن حکیم میں متعدد آیتیں ہیں۔ کہیں اسم ذات کے ذکر کی تاکید ہے، کہیں ذکر
قلبی کی تلقین کی گئی ہے۔
’’ اور یاد کرتے رہتے
اپنے رب کو صبح شام گداز دل کے ساتھ اور خفی آواز میں اور ذکر سے غافل نہ رہتے۔‘‘
(سورۃ اعراف۔ آیت نمبر۲۰۵)
یقیناً جو لوگ خدا ترس
ہیں جب شیطان کی طرف سے ان کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے تو وہ یاد میں لگ جاتے ہیں۔
سو یکایک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں یعنی جب متقی لوگوں کو شیطان کی طرف سے وسوسہ
اور پریشانی آتی ہے اور وہ ان کے دل پر پردہ ڈال دیتا ہے تو اس وقت وہ لوگ اللہ کو
یاد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے دل پر سے پردہ اٹھا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا
ہے شیطان کا فتنہ ذکر الٰہی سے دفع ہو جاتا ہے۔
اولیاء اللہ ہر دور میں
اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر خفی یا جلی ذکر کرتے رہے ہیں اس محفل کو حلقہ ذکر کہا
جاتا ہے۔ قرآن پاک میں انفرادی اور اجتماعی دونوں کا ذکر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں:
’’اور اپنے آپ کو ان
لوگوں کے ساتھ شامل رکھئے جو صبح شام اپنے رب کی عبادت محض اس کے لئے کرتے ہیں۔‘‘
(سورۂ کہف۔ آیت نمبر۲۸)
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی اجتماعی ذکر کا حکم دیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
و سلم نے فرمایا:
’’ملائکہ اہل ذکر کو تلاش
کرتے پھرتے ہیں جہاں کہیں انہیں ذاکرین کی کوئی جماعت مل جاتی ہے تو وہ اپنے
ساتھیوں کو بلاتے ہیں چنانچہ ملائکہ ذاکرین کو آسمانِ دنیا تک اپنے پروں سے ڈھانپ
لیتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’میں تم کو گواہ بناتا
ہوں کہ میں نے ان لوگوں کو بخش دیا ہے تو ان میں سے ایک فرشتہ کہتا ہے کہ فلاں
آدمی تو اہل ذکر میں نہیں ہے وہ تو اپنے کام کے لئے آیا تھا۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’یہ ایک ایسی مجلس ہے جس
میں بیٹھنے والا بدبخت نہیں رہ سکتا۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ و سلم
نے فرمایا کہ:
’’کیا میں ایسے بہترین
عمل کی خبر نہ دوں جس سے تم دنیا و آخرت کی بھلائی سمیٹ لو۔ سنو! مجالس ذکر کو
لازم پکڑو۔‘‘
مجالس ذکر کی تلاش اور ان
میں فرشتوں کا شمل ہونا عمل خیر کی بشارت ہے۔ ذکر کی مجالس اللہ کی خوشنودی، دین و
دنیا کی کامیابی کا ذریعہ ہیں۔ اللہ کے ذکر سے رحمت کا نزول اور اطمینان قلب حاصل
ہوتا ہے۔
’’نماز قائم کرو میرے ذکر
کے لئے۔‘‘
(سورہ طلحہٰ۔ آیت نمبر۱۴)
نماز میں ذکر سے مراد یہ
ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا رابطہ قائم ہو جائے کہ بندہ اللہ کو دیکھ لے یا
اسے توحیدوایما ن کا یہ کمال حاصل ہو جائے
کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’جس طرح باپ دادا کو یاد
کرتے ہو کہ محبت بھی ہوتی ہے اور ہمت بھی اسی طرح اللہ کو یاد کرو بلکہ اپنے باپ
دادا کو یاد کرنے سے بھی زیادہ۔‘‘
(سورۂ بقرہ۔ آیت نمبر۲۰۰)
’’یاد کرو اپنے رب کو
اپنے دل میں خشیت اور عاجزی کے ساتھ آہستہ آواز سے ہر صبح و شام اور تمہارا شمار
غافلوں میں نہ ہو۔‘‘
(سورۃ آدل عمران۔ آیت
نمبر۱۹۱)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’وہ شخص جس کا سینہ
اسلام کے لئے اللہ نے کھول دیا ہے۔۔۔تاریک بدنصیبوں کے برابر کس طرح ہو سکتا ہے؟
وہ تو اپنے پروردگار کی طرف سے نور ہے۔ خرابی ہے ان سنگدل لوگوں کو جن کے قلوب سخت
اور زنگ آلود ہیں۔ اللہ کے ذکر کی طرف سے۔‘‘
حضرت زکریا علیہ السلام بہت ضعیف ہو چکے تھے۔ ضعف میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان سے
فرمایا:
’’تمہارے ہاں لڑکا پیدا
ہونے کی نشانی یہ ہے کہ تین دن کسی آدمی سے کلام نہ کرو گے، مگر اشارہ کے ساتھ اور
خدا تعالیٰ کا ذکر بکثرت کرتے رہنا۔‘‘
(سورۃ آل عمران۔ آیت نمبر۴۱)
غازی اور مجاہدین کو بھی
ذکر کی تاکید کی گئی ہے:
’’اے ایمان والو! جب
کافروں کے ساتھ جنگ کیا کرو تو پیر جمائے رکھو اور اللہ کا ذکر بہت کرو تا کہ تم
فلاح پاؤ۔‘‘
(سورۃ الانفال۔ آیت نمبر۴۵)
صوفیاء کرام کی خانقاہوں
میں ایسا ماحول Createکیا
جاتا ہے کہ جس میں وہاں رہنے والے طلباء و طالبات نور نبوت اور نور الٰہی سے سیراب
ہوتے ہیں۔ صوفیاء کرام تھیوری کے طور پر جو اسباق یعنی درود و وظائف شاگردوں کو
پڑھواتے ہیں وہ قرآن و حدیث کے مطابق ہوتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم
نے فرمایا:
’’یہ چیز مجھے دنیا و
مافیہا سے زیادہ محبوب ہے کہ ذاکرین کے ساتھ صبح کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک اور
عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک ذکر الٰہی کروں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ و سلم
نے فرمایا کہ:
’’مجالس ذکر پر ملائکہ کا
نزول ہوتا ہے وہ انہیں اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں اور ان پر نزول سکینہ ہوتا ہے
اور ان پر اللہ کی رحمت سایہ کر لیتی ہے اور اللہ انہیں یاد کرتا ہے۔‘‘
روحانی اسکول اور کالجوں
میں انفرادی اور اجتماعی طور پر ذکر کرایا جاتا ہے تا کہ سالکین کے لطائف رنگین
ہوں اور ان کے اوپر اللہ کا رنگ غالب آ جائے۔ طلباء و طالبات کو ہدایت کی جاتی ہے
کہ وہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، وضو بے وضو، ہر حال میں اللہ کے ذکر میں مشغول
رہیں۔ ہر سلسلہ میں کسی نہ کسی اسم کا ورد کرایا جاتا ہے مثلاً سلسلہ عظیمیہ کا
ورد ’’یا حی یا قیوم‘‘ ہے۔ چلتے پھرتے، وضو بغیر وضو اٹھتے بیٹھتے، پاکی ناپاکی ہر
حال میں سالکین کو ’’یا حی یا قیوم‘‘ پڑھنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔
جب کوئی بندہ جلی یا خفی
ذکر کرتا ہے اس کے اندر Vibrationکا
عمل جاری ہو جاتا ہے۔ اس کے حواس ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔
قانون یہ ہے کہ ہر بندے
کے اندر دو طرح کے حواس کام کرتے ہیں۔ ایک طرح کے حواس اسے ظاہری دنیا سے نہ صرف
قریب کرتے ہیں بلکہ ظاہری دنیا میں قید کر دیتے ہیں۔ دوسری طرح کے حواس بندے کے
اندر غیب بین اور اللہ سے قربت کے حواس ہیں،
جب بندہ اپنے باطنی حواس
میں ہوتا ہے تو اس کے اوپر اللہ کی صفات محیط ہو جاتی ہیں۔
اس بات کو آسان الفاظ میں
اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ جب آدمی کا انہماک دنیا میں ہوتا ہے تو مادی عناصر میں
سڑاند اور تعفن میں انہماک ہوتا ہے حالانکہ وہ اس سڑاند اور تعفن کو محسوس نہیں
کرتا لیکن اگر وہ عناصر کا تجزیہ کرے اور عناصر کی کنہ کو تلاش کرے تو اس کے علم
میں یہ بات آ جاتی ہے کہ دنیا کی ہر شئے سڑاند اور تعفن سے بنی ہوئی ہے۔ انسان جو
غذا کھاتا ہے وہ بھی سڑاند ہے اور انسان جس قطرے سے بن کر عالمِ وجود میں آیا ہے
وہ بھی سڑاند ہے، آدمی جب مر جاتا ہے اس کا سارا جسم تعفن اور سڑاند میں تبدیل ہو
جاتا ہے۔اس کے برعکس دوسرا جسم جو روشنی اور نور سے بنا ہوا ہے۔ اتنا لطیف ہے کہ
عالم بالا کی سیر کرتا ہے اور خود کو فرشتوں کی مجالس میں دیکھتا ہے۔
صوفی جب ذکر الٰہی میں
مشغول ہوتا ہے تو روشنی اور نور سے بنے ہوئے جسم میں نورانی کرنٹ دوڑ جاتا ہے۔
خوشی کی لہریں اس کے اوپر سے خوف اور غم دور کر دیتی ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
تصوف
کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار
کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا
ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ
محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی
صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس
اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان
ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے
ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند
بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ
صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا
نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے
اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل
کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں
بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت
اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا
علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔